احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے بنائے فقرات وحی متلو کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور
یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے
(گذشتہ سے پیوستہ )حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیدالاضحٰی کے روز مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ میں الہاماً چند الفاظ بطور خطبہ عربی میں سنانا چاہتا ہوں۔مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب دونو صاحب تمام و کمال لکھنے کے کوشش کریں۔ یہ فرما کر آپ نے خطبہ الہامیہ عربی میں فرمانا شروع کر دیا۔ پھر آپ اس قدر جلدی بیان فرما رہے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ اور ہم نے اس خطبہ کا خاص اثر یہ دیکھا کہ سب سامعین محویت کے عالم میں تھے اور خطبہ سمجھ میں آرہا تھا۔ ہر ایک اس سے متاثر تھا۔ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب بعض دفعہ الفاظ کے متعلق پوچھ کر لکھتے تھے۔ ایک لفظ خناطیل مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق بھی پوچھا۔ خطبہ ختم ہونے پر جب حضور مکان پر تشریف لائے تو مجھے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور میر حامد شاہ صاحب ہم تینوں کوبلایا اور فرمایا کہ اس خطبہ کا جو اثر ہوا ہے ا ور جو کیفیت لوگوں کی ہوئی ہے اپنے اپنے رنگ میں آپ لکھ کر مجھے دیں۔ مولوی عبداللہ صاحب اور میر صاحب نے تو مہلت چاہی لیکن خاکسار نے اپنے تاثرات جو کچھ میرے خیال میں تھے اسی وقت لکھ کر پیش کر دئیے۔ میں نے اس میں یہ بھی لکھا کہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب بعض الفاظ دوران خطبہ دریافت فرماتے رہے۔ وغیرہ۔ حضور کو میرا مضمون بہت پسند آیا۔ اس میں لوگوں کی محویت کا عالم اور کیفیت کا ذکر تھا۔کہ باوجود بعض لوگوں کے عربی نہ جاننے کے وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ (حق بات یہ ہے کہ اس کا عجیب ہی اثر تھا جو حیطۂ تحریر میں نہیں آسکتا) دوران خطبہ کوئی شخص کھانسا تک نہیں تھا۔ غرض حضرت صاحب کو وہ مضمون پسند آیا۔اور مولوی عبدالکریم صاحب کو بلا کر خود حضور نے وہ مضمون پڑھ کر انہیں سنایا۔ اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ خطبہ کے ساتھ اس مضمون کو شائع کروں۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور اس نے (عاجز نے) تو ہمیں زندہ ہی دفن کر دیا ہے (مولوی عبدالکریم صاحب کی خاکسار سے حد درجہ دوستی اور بے تکلفی تھی) حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا اچھا ہم شائع نہیں کریں گے۔ پھر میں کئی روز قادیان رہا اور خطبہ الہامیہ کا ذکر اذکار ہوتا رہا۔ مولوی عبدالکریم صاحب زبان سے بہت مذاق رکھتے تھے اس لئے خطبہ کی بعض عبارتوں پر جھومتے اور وجد میں آجاتے تھے اور سناتے رہتے تھے۔ اس خطبہ کے بعض حصے لکھ کر دوستوں کو بھی بھیجتے رہتے تھے۔‘‘(رجسٹرروایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ )رجسٹر نمبر13صفحہ385-386)
کتاب ’’خطبہ الہامیہ‘‘ روحانی خزائن کی جلد نمبر16 میں صفحہ1تا334 موجود ہے۔ اس میں صفحہ 3تا11 عربی میں ایک اعلان ہے جس کا ترجمہ موجود نہیں۔ اس کے بعد صفحہ12و 13 پر ’’تتمہ حاشیہ ٹائٹل پیج متعلقہ خطبہ الہامیہ‘‘ ہے جو کہ انگلش میں ہے اور اس کا ترجمہ صفحہ14پر ہے۔
اس کے بعد صفحہ15تا30 اردو زبان میں ’’اشتہار چندہ منارۃالمسیح‘‘ ہے۔ اس کے پہلے صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منارۃ المسیح کا نمونہ Sketchبنایا ہے۔
اس منارہ کے بارےمیں ایک روایت تذکرہ میں درج ہے:’’ عزیز دین صاحب نے بواسطہ عیدا صاحب گمہار سکنہ موضع کنڈیلا بیان کیا کہ (مسجد اقصیٰ میں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد) حضور ؑ نے اٹھ کر کاغذ پر نقشہ منار کھینچا اور فرمایا کہ ’’مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اس قسم کا مینار تم تیار کراؤ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ663 ایڈیشن چہارم )
اس کتاب کا صفحہ31تا73کا حصہ اس خطبہ پر مشتمل ہے جو کہ حضور نے الہاماً بیان فرمایا تھا۔ یہ خطبہ یَا عِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُوْا … سے شروع ہوتا ہے اور وَ سَوْفَ یُنَبِّئُھُمْ خَبِیْرٌ پر ختم ہوتا ہے۔ یہ وہ خطبہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں ارشاد فرمایا جو خطبہ الہامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا فارسی و اردو ترجمہ اس کے ساتھ موجود ہے۔
اس کے بعد صفحہ 74تا 302 بقیہ چار ابواب ہیں۔ جوکہ عربی زبان میں ہیں ان کا فارسی اور اردو ترجمہ بھی ساتھ موجود ہے۔
صفحہ 303تا306 پر عربی زبان میں ایک قصیدہ بزبان ’’اَلْقَصِیْدَۃُ لِکُلِّ قَرِیْحَۃٍ سَعِیْدَۃٍ‘‘ موجود ہےجس کا ترجمہ نہیں ہے۔
صفحہ307تا 334 پر حاشیہ متعلقہ خطبہ الہامیہ بعنوان ’’ماالفرق بین آدم و المسیح الموعود‘‘ہے۔ اس کا ترجمہ موجود نہیں ہے۔
خطبہ الہامیہ اگرالہامی ہے تو تذکرہ میں شامل کیوں نہیں کیاگیا
[نوٹ: ابتدا میں خطبہ الہامیہ تذکرہ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر ۲۰۱۸ء میں شائع ہونے والا تذکرہ کا انگریزی زبان کے تیسرے ایڈیشن میں اس خطبہ کے الہامی حصے کو شامل کردیاگیا تھا۔]
بعض اوقات یہ سوال کیاجاتاہے کہ خطبہ الہامیہ اگرلفظ لفظ الہامی عبارت تھی تو یہ تذکرہ میں درج کیوں نہیں کی گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک سوال یادلیل یہ دی جاتی ہے کہ دراصل اس کی عبارت الہامی نہیں تھی بلکہ مفہوم ومضمون یاکوئی کوئی فقرہ تو ہو سکتاہے،مسلسل یہ عبارت الہامی نہیں ہوسکتی اور اس کی ایک دلیل مزیدیہ ہے کہ تبھی تویہ تذکرہ میں بھی شامل نہیں کیاگیا۔
خطبہ الہامیہ کے متعلق اس نظریہ کی بابت خاکسار عرض کرتاہے کہ ہمیں پہلے یہ دیکھناہوگا کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی والہامات کی کیفیت کیاتھی اور وہ کیا پیمانے ہیں کہ جن کومدنظررکھتے ہوئے ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ یہ وحی و الہام ہے یالفظی وحی ہے یارؤیاوکشوف کے ذیل میں آتاہے۔ خاکسارنے یہ الفاظ اکٹھے اس لیے استعمال کیے ہیں تاکہ تذکرہ میں شامل کرنے یانہ کرنے کے متعلق خودہی ایک معیارقائم ہوتاہوانظرآجائے۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے وحی و الہام کی بابت مختلف جگہ پربیان فرمایا ہے۔ مثلاً نزول المسیح روحانی خزائن جلد18صفحہ492-493،ضرورۃ الامام اور حقیقۃ الوحی وغیرہ۔
سیرت المہدی کی ایک روایت بھی اس ضمن میں اہم ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات الہام اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی بندہ کی اپنی زبان پر بلند آواز سے ایک دفعہ یا بار بار جاری ہو جاتا ہے اور اس وقت زبان پر بندے کا تصرف نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کا تصرّف ہوتا ہے اور کبھی الہام اس طرح ہوتا ہے کہ لکھا ہوا فقرہ یا عبارت دکھائی دیتی ہے اور کبھی کلام لفظی طور پر باہر سے آتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر 595)
اسی طرح نزول المسیح میں ایک جگہ ایک اوررنگ میں وضاحت فرمائی ہے جو ہمارے اس زیربحث مسئلہ میں کافی و شافی راہنمائی بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔حضورعلیہ السلام اپنی انشا پردازی کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ مَیں خاص طور پر خدا ئےتعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوں کیونکہ جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اُردو یا فارسی دو حصّہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (1) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ والله اعلم۔
(2) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب مَیں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔ مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اُس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنے ہیں بسیاری عیال۔ یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم و غصّہ سے چُپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دِل پر وحی ہوئی کہ وجوم۔ ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے …… اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔ ‘‘(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد18صفحہ434-435)
توگویا حضورعلیہ السلام وحی والہام کے خود کئی مختلف پہلویاکیفیات بیان فرمارہے ہیں اور ہرایک کووحی ہی قرار دے رہے ہیں۔اب ہم براہ راست خطبہ الہامیہ کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیایہ ایک عام پبلک تقریرتھی ؟ یاکہ کوئی خاص اہمیت کی حامل تقریرتھی؟ بلکہ کیاایسی خاص اہمیت کی حامل کہ اس کوالہام کامقام ومرتبہ حاصل تھا ؟ یہ کہ حضرت اقدسؑ نے اس وحی کوکسی مجموعہ میں درج کیوں نہ فرمایا؟
(باقی آئندہ)