خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۰۷؍اپریل۲۰۲۳ء
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میںقرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان
٭… انسان کي تمام تر صلاحيتيں خواہ اخلاقي، روحاني يا جسماني ہوں اِن کا حصول قرآن کريم پر عمل کرنے سے ہي ہو سکتا ہے
٭… يہ بھي قرآني تعليم کا خاصہ ہے کہ اس پر عمل کرنے والے ہي غير معمولي برکات حاصل کرنے والے ہيں
٭… ہمارے نزديک مومن وہي ہے جو قرآن کريم کي کامل پيروي کرے
٭… مخالفین کے شرسے محفوظ رہنے،دنیا کے عمومی حالات اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک میں دعاؤں کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۰۷؍اپریل۲۰۲۳ء بمطابق۰۷؍شہادت ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن،یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۰۷؍اپریل ۲۰۲۳ء کو مسجد بیت الفتوح، مورڈن، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
الله تعالیٰ نے آنحضرت صلی الله علیہ و سلم پر دین و شریعت کو کامل اور مکمل کیا تو قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا:اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا کہ آج کے دن مَیں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور مَیں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا۔پس یہ الله تعالیٰ کا مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ اُن کے لیے ایک کامل اور مکمل شریعت عطا فرمائی ۔
جب الله تعالیٰ اِس تعلیم کے متعلق اَکۡمَلۡتُ کا اعلان فرماتا ہے تو اُس کا مطلب ہے کہ انسان کی تمام تر صلاحیتیں خواہ اخلاقی، روحانی یا جسمانی ہوں اِن کا حصول قرآن کریم پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے اور اَتۡمَمۡتُ کہہ کر یہ اعلان پوری قوت سے فرما دیا کہ
جو کچھ بھی انسان کی ضروریات تھیں اُن کو ہر لحاظ سے پورا کرنے والاصرف قرآن کریم ہے،
کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا قرآن کریم نے احاطہ نہ کیا ہو چاہے وہ انسان کی مادی ضروریات ہیں یا روحانی اور اخلاقی معیاروں کو حاصل کرنے کے ذرائع اور طریقے ہیں۔
اِس آیت کے ساتھ قرآن کریم نے یہ اعلان فرما دیا کہ
اب انسان کی بقا اِس تعلیم کے ساتھ ہی وابستہ اور یہ تعلیم کُل زمانہ اور تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے
اور قرآن کریم سے پہلے نازل ہونے والی ساری تعلیمات جو مختلف انبیاء پر اُتریں وہ وقتی اور اُس زمانہ کے لحاظ سے تھیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس کی وضاحت کے لیے یہ بھی اعلان فرمایا کہ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کی بعثت کا مقصدبھی پورا ہو گیا اور آپؐ ہی وہ کامل اور آخری نبی ہیں جن پر اِس کمال درجہ کی شریعت نازل ہوئی۔
معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ جب یہ عقیدہ ہے اور قرآن کریم کو آخری شریعت اور آنحضرتؐ کو آخری نبی مانتے ہیں تو پھر آپؑ کے دعاوی کی کیا حیثیت ہے اور آپؑ کے اِس زمانہ میں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ تو اِس کا جواب آپؑ نے ایک جگہ اِس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ اگر تم اسلامی تعلیم پر عمل کر رہے ہوتے تو پھر ٹھیک ہے میرے آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن زمانہ کی عمومی اور خاص طور پر مسلمانوں کی اپنی حالت اِس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کسی معلّم کی ضرورت ہے۔
آپؑ نے اپنے لٹریچر ، تحریرات اور کتب میں ہر جگہ یہ فرمایا ہے کہ
مَیں آنحضرتؐ کی غلامی میں آپؐ کی شریعت اور دین اور قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے آیا ہوں ۔
یہی کام ہے جسے آپؑ نے سرانجام دیا اور اِسی کے جاری رکھنے کے لیے جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور یہی کام ہے جو جماعت احمدیہ آپؑ کے دیے ہوئے لٹریچر اور آپؑ کی بیان کردہ قرآنی تفسیر کے مطابق کر رہی ہے اور اِس بات پر ہر احمدی کو غور کرنا چاہیے کہ اِس مقصد کو ہم کس حد تک پورا کر رہے ہیں۔اسی طرح دس شرائطِ بیعت میں بھی یہ بات شامل ہے کہ قرآن کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کروں گا۔
حضورِ انور نے فرمایا:پس
اگر ہم میں سے ہر ایک اس رمضان میں اس ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلے تو نہ صرف ہم اپنی روحانیت میں ترقی کرنے والے ہوں گے بلکہ ہمارا معاشرہ بھی جنت نظیر معاشرہ بن جائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو کچھ انسانی فطرت میں انتہا تک بگاڑ ہوسکتا ہے اور جس قدر گمراہی اور بدعملی میں وہ آگے سے آگے بڑھ سکتے ہیں ان تمام خرابیوں کی قرآن کریم کے ذریعہ سے اصلاح کی گئی ہے۔ اس لیے ایسے وقت میں اس نے قرآن کریم کو نازل کیا جب نوع انسان میں یہ سب خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں اور رفتہ رفتہ انسانی حالت نے ہر ایک عقیدہ اور بدعمل سے آلودگی حاصل کرلی تھی اور یہی حکمتِ الٰہیہ کا تقاضا تھا کہ ایسے وقت میں اس کا کامل کلام نازل ہو۔ کیونکہ خرابیوں کے پیدا ہونے سے پہلے ایسے لوگوں کو ان جرائم اور بدعقائد کی اطلاع دینا کہ وہ ان سے بکلی بےخبر ہیں ان کے گناہوں کی طرف خود میلان کرنے کا کام دیتا ہے۔
آج کل ہم نظام تعلیم میں یہی دیکھتے ہیں کہ بچوں کو جنسی تعلقات کے بارے میں ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کا بچوں کو کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہ بچے حیران ہوتے ہیں، اب تو والدین نے بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ کیا پڑھایا جارہا ہے؛ بلکہ اب تو محکمہ تعلیم نے بھی نوٹس لے لیا ہے کہ بعض اساتذہ ایسی باتوں کی تعلیم میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ پس یہی فرق شریعت یعنی قرآن کی ہدایت اور دنیاوی تعلیم میں ہے۔ قرآن کریم ہدایت بھی دیتا ہے اور ساتھ وضاحت بھی کرتا ہے کہ یہ تعلیم کس عمر اور کس زمانے کے لیے ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:سو خدا کی وحی حضرت آدمؑ سے تخم ریزی کی طرف شروع ہوئی اور تخم خداکی شریعت کا قرآن کریم کے زمانے میں اپنے کمال کو پہنچ کر ایک بڑے درخت کی طرح ہوگیا۔پھر یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کریم ہرگز کسی انسانی کلام کے مشابہ نہیں ہوسکتا آپ علیہ السلام مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب مِن کل الوجوہ ثابت ہے کہ جو فرق علمی اور عقلی طاقتوں میں مخفی ہوتا ہے وہ ضرور کلام میں ظاہر ہوجاتا ہے اور ہرگز ممکن ہی نہیں کہ جو لوگ من حیث العقل والعلم اعلیٰ ہیں وہ فصاحت بیانی اور رفعت معانی میں یکساں ہوجائیں اور کوئی ما بہ الامتیاز نہ رہے۔ تو اس صداقت کا ثبوت ہونا اس دوسری صداقت کے ثبوت کو مستلزم ہے کہ جو کلام خدا کا کلام ہے اس کا انسانی کلام سے اپنے ظاہری و باطنی کمالات میں برتر وبالا اور عدیم المثال ہونا ضروری ہے۔
حضور انورنے فرمایا کہ علم و عرفان والے ایک عام آدمی کے بہرحال برابر نہیں ہوسکتے۔ جو کلام خدا کا کلام ہو اس کا انسانی کلام سے برتر ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام سب سے اعلیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے تمام علوم کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ علم الٰہی ہرگز انسانی کلام کے مشابہ نہیں ہوسکتا۔ پس
قرآن کریم کا ہر لحاظ سے کامل ہونے کادعویٰ ہے اور کوئی اس کے مقابل نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔
جنہوں نے اس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے اُنہی میں اس کے اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں۔آسمانی برکتیں اور ربّانی نشان صرف قرآن کریم کے کامل تابعین میں ہی پائے جاسکتے ہیں۔ پس یہ بھی قرآنی تعلیم کا خاصہ ہے کہ اس پر عمل کرنے والے ہی غیر معمولی برکات حاصل کرنے والے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ فرقان مجید نے اپنی فصاحت و بلاغت کوصداقت اورضرورتِ حقہ کے التزام سے آگاہ کیا ہے۔تمام دینی صداقتوں پر احاطہ کرکے دکھایا ہے۔اس میں ہر مخالف کے لیےبراہین صادقہ بھری پڑی ہیں۔جن اُمور میں فساد دیکھا اُنہی کے اصلاح کے لیے زور مارا ہے۔انواع و اقسام کی بیماریوں کا علاج لکھا ہے۔مذاہب باطلہ کے ہر وہم کو مٹایا ہے۔ہر ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔کوئی صداقت ایسی نہیں جس کو بیان نہیں کیا۔ کوئی کلمہ بلاضرورت نہیں لکھا۔ کوئی بات نہیں جو بے موقع بیان کی ہو۔کوئی لفظ لغو طور پر بیان نہیں ہو ا۔ بلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ اس کا علم اوّلین و آخرین تک کے لیے اس کتاب میں بھر دیا۔ اس کی تعلیم ایسی ہےجس کی تفاسیر ہر زمانے کے لحاظ سے علم دیتی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے ایسی کتاب دیکھی ہے جو تھوڑے سے لفظوں میں علم کا دریا بہادے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر مذہب کو چیلنج دیا کہ آؤ اس کی خوبیاں میں تمہیں دکھاؤں اور آج تک کسی نے اس چیلنج کا جواب نہیں دیا۔ اس کے باوجود ہم احمدیوں پر توہین کا الزام لگایا جاتا ہے۔فرمایا کہ ہمارے نزدیک مومن وہی ہے جو قرآن کریم کی کامل پیروی کرے۔
حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا کہ
نجات کے واسطے اللہ تعالیٰ نے بار بار بیان فرمایا ہے کہ اول اللہ تعالیٰ کو وحدہٗ لا شریک سمجھے، آنحضرت ﷺ کو سچا نبی یقین کرے۔ قرآن کریم کو کتاب اللہ سمجھے۔
پھر حضرت مسیح موعود ؑنے قرآنی وحی کی شان کےمتعلق فرمایا کہ سنوخدا کی لعنت ان پر جو دعویٰ کریں کہ وہ قرآن کی مثل لاسکتے ہیں۔قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی انس و جن نہیں لاسکتااور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کرسکتا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: اگر میرے ساتھ کوئی نشان، تائید شامل نہ ہوتی۔ اگر میں نے قرآن کریم سے الگ راہ نکالی ہوتی یا کوئی امرداخل یا منسوخ کیا ہوتا یا رسول اللہ ﷺ سے الگ راہ نکالی ہوتی تو لوگوں کا عذر معقول ہوتا کہ یہ شخص رسول اللہ ﷺ کا دشمن اور قرآن دشمن ہے۔ اب مَیں نے نہ کوئی قرآن میں تغیر کیا، اور نہ پہلی شریعت کا کوئی شعشہ بدلا بلکہ میں قرآن اور احکام قرآنی کی اور آنحضرت ﷺ کے پاک مذہب کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہوں ۔
حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑکا دعویٰ ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیںکہ آپؑ کے ذریعہ ہی قرآن کریم کے علوم ہم تک پہنچے ہیں اور آپؑ نے ہمیں حقیقی علوم عطا فرمائے ہیں۔ان لوگوں کو فکر کرنی چاہیے کہ جماعت پر الزام لگاتے ہیں۔ یہ لوگ جو بازنہیں آ رہے اللہ تعالیٰ انہیں بغیر مواخذے کےنہیں چھوڑے گا۔
حضور انور نے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے قرآن کریم کے انصاف قائم کرنے کے متعلق حکم پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ یہ اصول دنیا کے امن کی ضمانت ہیں۔ دنیاوی جنگوں میں ملوث قومیں اس اصول کو سمجھ لیں تو امن قائم ہو سکتاہے۔ اگر انصاف قائم نہیں کریں گےتو تباہی یقینی ہے۔
قرآن کی کامل تعلیم کا اعلان کر کےحضرت مسیح موعودؑ نے یہ اعلان فرمایا کہ اگرکوئی قرآن کے مقابل پر کوئی صداقت جو اس میں موجود نہ ہو وہ دکھا دے یا کوئی صداقت جو کسی اور کتاب میں اس سے بہتربیان ہوہمیں دکھا دے تو ہم سزائے موت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
آج قرآن ہی دنیا میں واحد خدا کا کلام ہے جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور وحدانیت الٰہی اکمل طور پرموجود ہے اورقرآن خدا پر کوئی عیب نہیں لگاتا اور زبردستی کوئی تعلیم نہیں منواتا اور لوگوں کے اقوال یا افعال میں جو خرابیاںہیں ان کی اصلاح کرتا ہے اور ہر فساد کی مدافعت اسی طرح کرتا ہے جس طرح وہ پھیلا ہوتا ہے۔
حضور انور نے دعا کی کہ اللہ ہمیں قرآن کو صحیح طور پر پڑھنے ،سمجھنے اور اپنی عملی زندگیوں میں لاگو کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور رمضان کے بعد بھی ہم قرآن سے ایسے ہی فیض اٹھانے والے ہوں جیسے ہم رمضان میں حاصل کرتے ہیں۔
خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے رمضان میں دعا ؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کے مخالفین کے شر سے بچنے کےلیے خاص طور پر دعائیں کریں۔اللہ تعالیٰ ہر شریر کے ہاتھ کو روکے اور ان کی پکڑ کے سامان فرمائے۔ نیز دنیا کے عمومی حالات اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی خصوصی دعاؤں کی تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو ظالموں کے ظلم سے بچائے ۔
٭…٭…٭