الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مالی قربانی سے مالی فراخی پیدا ہوتی ہے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اکتوبر2013ء میں مکرم ماسٹر احمد علی صاحب کے قلم سے مالی قربانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی برکات کو بیان کیا گیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 2005ء کے جلسہ سالانہ جرمنی میں ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوگئی۔ بےتکلّف گفتگو میں وہ بتانے لگے کہ اکیس بائیس سال کی عمر میں مَیں نے بطور ٹیچر ملازمت شروع کی تو تنخواہ 64؍روپے ماہوار تھی۔ گھریلو اخراجات میں سے کچھ بھی نہ بچتا چنانچہ چندہ عام (جو سولہواں حصہ یعنی صرف چار روپے تھا) ادا کرنا بھی دوبھر ہوتا تھا۔ نظام جماعت کی طرف سے معلّم صاحب کی ڈیوٹی مجھے سمجھانے کے لیے لگائی گئی۔ وہ تشریف لائے تو مَیں نے اُن کے سامنے بھی بہانہ سازی سے کام لیا۔ لیکن انہوں نے ایسے مؤثر انداز میں چندہ عام کی ادائیگی کی تحریک کی جو دل میں اُتر گئی۔ انہوں نے کہا کہ مَیں جانتا ہوں کہ آپ چھوٹی عمر میں ہی یتیم رہ گئے تھے اور ملکیتی زرعی زمین کا بیشتر حصہ بارانی ہونے کی وجہ سے کھیتوں سے بھی آمد بمشکل گزارہ کی ہوتی تھی۔ آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد بھی تم ایسے بےکار تھے کہ کوئی پوچھتا نہ تھا۔ پاکستان بننے کا زمانہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوہ ماں کی دعاؤں کے طفیل تمہیں بحیثیت ٹیچر باعزت روزگار عطا فرمادیا اور تم اس عطائے الٰہی میں سے سولہواں حصہ بھی ادا نہیں کررہے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں ایک نسخہ بتاتا ہوں اس پر عمل کرکے آزماؤ اور دیکھو کس طرح اللہ برکت دیتا ہے۔ تنخواہ ملتے ہی چار روپے چندہ عام ادا کردیا کرو اور باقی رقم سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرو۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کرنا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے محکمانہ ترقیات کی راہیں کھلتی گئیں اور تنخواہ بھی بڑھتی گئی۔ چندے کی شرح بھی بڑھنے لگی تو چندہ جات کی ادائیگی میں بشاشت بھی پیدا ہونے لگی۔ کہاں گاؤں میں ایک چھوٹا سا گھر تھا اور کہاں ربوہ میں تین کمروں کا وسیع مکان، اولاد بھی نیک اور فرمانبردار، باروزگار جن کو بیرونِ ملک ذاتی مکان بھی عطا ہوئے۔ اللہ کی عنایات و فیوض کا شمار نہیں۔ مَیں تو کہتا ہوں ؎

اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما

پھر وہ کہنے لگے کہ مَیں نے 1964-65ء میں اخبار الفضل میں سندھ کے ایک ہاری (کاشتکار) کا ایک واقعہ پڑھا تھا جو ’’ہاری‘‘ سے ڈیڑھ مربع زرعی زمین کا مالک بن گیا۔ اُس نے لکھا تھا کہ ایک مربی صاحب نے مجھے تحریک کی کہ نظام وصیت میں شامل ہوجاؤ پھر دیکھو کہ تمہاری آمدنی میں اللہ تعالیٰ کیسے برکت عطا کرتا ہے۔ مجھے انقباض تھا کہ جب وصیت کا اعلان اخبار میں شائع ہوگا تو پڑھنے والوں کو علم ہوجائے گا کہ بظاہر اتنی ٹھاٹھ باٹھ دکھانے والا اصل میں تو صرف ایک ایکڑ زمین کا مالک ہے۔ لیکن اُن مربی صاحب کی زبان میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ اُن کی یہ بات دل میں گھر کرگئی کہ ’’چودھری صاحب! آزمائیں تو سہی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ایک ایکڑ کو کیسے پچیس تیس ایکڑ بنادیتا ہے!‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ میرے دو ساتھی اساتذہ جب تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے ادا کرتے تو مَیں حیران ہوتا کہ اتنی بڑی رقوم تنخواہ میں سے ادا کرکے یہ کس طرح گزربسر کرتے ہیں۔ لیکن جب خود نظام وصیت میں شمولیت کی سعادت ملی تو اُس کے بعد میرا بھی حوصلہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ

سب کچھ تری عطا ہے

گھر سے تو کچھ نہ لائے

………٭………٭………٭………

عزیزم ارسلان سرور صاحب کی شہادت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ20؍جنوری 2014ء میں سترہ سالہ احمدی نوجوان مکرم ارسلان سرور صاحب ابن مکرم رانا سرور احمد صاحب آف راولپنڈی کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں مورخہ 14 جنوری 2014ء کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ مرحوم کے والد اور دادا مکرم رانا محمد یوسف صاحب نے 1973ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ یہ فیملی 1984ء سے راولپنڈی میں رہائش پذیر ہے۔

وقوعہ کی رات شہید مرحوم اپنے محلہ کے غیراز جماعت دوستوں کے ہمراہ گلی میں 12؍ربیع الاول کے حوالہ سے لائٹنگ اوردیگر تیاریاں وغیرہ کر رہے تھے کہ ایک گاڑی گلی کے آخر پر آکر رُکی جس میں سے کچھ مشکوک افراد اُترے۔ کچھ دیر بعد ایک موٹرسائیکل سوار بھی ان کے قریب آ کر رُکا۔ اس پر لڑکوں نے شور مچایا تو گاڑی میں سے ایک آدمی نکلا اور اُس نے لڑکوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے مسلسل فائرنگ کی۔ ارسلان سرور بھاگتے ہوئے دونوں لڑکوں کے درمیان میں تھا۔ گلی میں موجود فائرنگ کے نشانات سے پتا چلتا ہے کہ تینوں لڑکوں پر فائر ہوئے ہیں جبکہ ارسلان سرور نے بھاگتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عین اُسی وقت اس کے سر پر گولی لگی جس کی وجہ سے یہ وہیں گر گیا۔ ساتھی لڑکے بھی گلی میں موجود گاڑیوں کے پیچھے لیٹ گئے تو حملہ آور کچھ آگے آکر واپس چلاگیا اور گاڑی میں بیٹھ کر یہ حملہ آور فرار ہوگئے۔

عزیزم ارسلان کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں تین گھنٹے بعد ان کی وفات ہوگئی۔ شہید مرحوم کی تعزیت کے لیے محلّے کے غیرازجماعت کثرت سے آئے۔

عزیزم ارسلان نے چودہ سال کی عمر میں وصیت کرلی تھی اور ذیلی تنظیموں میں فعال خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کرنا ان کا معمول تھا اور نمازیں باقاعدگی سے اور سوزوگداز سے ادا کرتے۔ مرحوم نے والدین کے علاوہ تین بھائی بھی سوگوار چھوڑے ہیں۔ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ پڑھائی۔

………٭………٭………٭………

مدینۃ الاولیاء ملتان کی تاریخ و اہمیت

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4؍دسمبر 2014ء میں مکرم عطاء النور صاحب کے قلم سے جنوبی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں شامل شہر ملتان کی تاریخی حیثیت اور اہمیت سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

مؤرخ البیرونی نے اپنے سفرنامہ میں اسے 2؍لاکھ 16ہزار 430 برس پرانا بتایا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کا قدیم نام کشپ پورہ تھا۔ یہ شہر بار بار اجڑتا رہا اور ہنس پورہ، بھاگپور، سب پور، مولستھان پور، پرپلاپور، مولتارن وغیرہ ناموں سے آباد ہوتا رہا۔ بعض کے نزدیک اس شہر کا نام یہاں کے ایک قدیمی قبیلہ مل (Mul) کے نام پر پڑا جو ملستھان نامی ایک بت کی پوجا کرتے تھے۔ ہندوؤں کی تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی متبرک کتاب رگ وید بھی اسی علاقہ میں بیٹھ کر لکھی گئی تھی اور یہ بھی کہ یہ شہر ان کی دیوی اور دیوتاؤں کا مسکن رہا ہے۔

شاہنامہ فردوسی میں لکھا ہے کہ ملتان شہر 6 سو سال قبل مسیح میں ایک صوبہ تھا۔ ملتان کی مستند تاریخ سکندر اعظم کے حملے سے ملتی ہے جو 350 قبل مسیح میں ہوا۔ بعض مؤرخین ملتان کو ہڑپہ اور موہنجودڑو کے زمانے کا ہم عصر خیال کرتے ہیں جس کی تصدیق قلعہ کہنہ کی کھدائی سے برآمد اشیاء سے ہوتی ہے۔

ملتان کو اصل شہرت اسلامی عہد حکومت میں حاصل ہوئی جب محمد بن قاسم نے اسے 712ء میںفتح کیا۔ یہاں تقریباً دس ہزار عرب آباد کیے اور ایک جامع مسجد تعمیر کرائی۔ تیسری صدی ہجری تک ملتان اور اس کے مضافات میں مدارس اور مساجدکا جال پھیل گیا اور یہ شہر علم و ادب کا گہوارہ بن گیا۔ چوتھی صدی ہجری میں اسے محمود غزنوی نے فتح کیا۔ اسی کے زمانے میں مشہور مؤرخ و مفکر البیرونی یہاں آیا اور پانچ سال سے زیادہ عرصے تک ملتان میں رہا۔ اس کی تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ میں اس زمانے کے ملتان کی علمی و ثقافتی زندگی کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔

ملتان شہر کو یہ فخر حاصل ہے کہ اہل تصوف کے تین روحانی سلسلے یہیں سے برصغیر میں پھیلے۔ سہروردی سلسلہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتان سے، چشتیہ سلسلہ بابا فرید گنج شکر سے اور قادری سلسلہ حضرت مخدوم رشیدحقانی سے چلا۔ نیز اس شہر کو تین بڑے حکمرانوں کا مولد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے یعنی محمد تغلق، بہلول لودھی اور احمد شاہ ابدالی۔

ملتان میں بہت سے اکابر اولیائے کرام کے مزارات ہیں جس کی وجہ سے اسے مدینۃالاولیاء کہا جاتا ہے۔ ان اولیائے کرام میں حضرت بہاء الدین زکریا اور حضرت شمس تبریزی بھی شامل ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑکو بھی ایک مقدمہ کے سلسلہ میں ملتان جانے کا موقعہ ملا۔ آپؑ اس حوالے سے فرماتے ہیں: مُردوں سے مدد مانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیا بلکہ زندوں ہی کا ذکر فرمایا … مُردوں کی قبریں کہاں کم ہیں۔ کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں۔ گردوگر ماگداو گورستان اس کی نسبت مشہور ہے۔ میں بھی ایک بار ملتان گیا۔ جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں۔ (ملفوظات جلداوّل جدید ایڈیشن صفحہ476)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بھی ایک مقدمے کی شہادت کے لیے جولائی 1910ء میں ملتان تشریف لے گئے تھے۔ معززین ملتان نے مدرسہ اسلامیہ کے جس ہال میں حضرت مسیح موعودؑ کی تقریر کروائی تھی، اسی ہال میں آپؓ سے بھی تقریر کروائی گئی اور بعدازاں سینکڑوں افراد نے جسمانی معالجات سے بھی فائدہ اٹھایا۔ (حیات نور صفحہ456تا457)

حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت نیاز بیگ صاحب کو اس امر کے سلسلے میں ملتان تحقیق کے لیے بھیجا تھا کہ حضرت باوانانک نے ملتان میں کوئی چلّہ کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ 30 ستمبر 1895ء کو ان کا خط مع نقشہ موقع کے حضرت صاحب کو موصول ہوا جس کا ذکر آپؑ نے اپنی کتاب ’’ست بچن‘‘ میں کیا ہے۔ خط کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت باوا نانکؒ نے حج سے واپسی پر روضہ مبارک حضرت شاہ شمس تبریزؒ پر چالیس روز تک چِلّہ کیا تھا۔ روضہ کے جانب جنوب میں وہ مکان ہے جو چِلّہ نانک کہلاتا ہے۔ یہ مکان محراب دار دروازے کی شکل پر بنا ہوا ہے جس پر یااللہ کا لفظ لکھا ہوا ہے اور ساتھ اس کے ایک پنجہ بنا ہوا ہے۔ اس جگہ کے ہندو مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یہ لفظ یااللہ باوا صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اور پنجہ کی شکل بھی اپنے ہاتھ سے بنائی تھی۔ چنانچہ ہندو اور سکھ لوگ اس جگہ کو متبرک سمجھ کر زیارت کرنے کو آتے رہتے ہیں۔ روضہ کے گردا گرد ایک مکان مسقف بنا ہوا ہے جس کو یہاں کے لوگ غلام گردش کہتے ہیں۔ جہاں باوا نانک صاحب کی جائے نشست ہے جو مسقف ہے۔

(ماخوذ از ست بچن۔روحانی خزائن جلد10صفحہ184 تا187)

………٭………٭………٭………

ماہنامہ’’النور‘‘امریکہ اگست و ستمبر2013ء میں مکرم صادق باجوہ صاحب کا کلام شامل اشاعت ہے جو رمضان المبارک کے حوالے سے کہا گیا ہے۔ اس کلام میں سے انتخاب پیش ہے:

خزانے رحمتوں کے بانٹنے ماہِ صیام آیا

لیے دامن میں فضلوں کو مہِ عالی مقام آیا

رضاجوئی کا جذبہ ذہنِ انساں میں جگاتا ہے

دکھوں کو بانٹ لینے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے

سبق ہمدردیٔ انسان، غمخواری سکھاتا ہے

چلیں تقویٰ کی راہوں پر تو مولیٰ سے ملاتا ہے

عبادت میں شغف، ایثار و احساں کی فراوانی

دلِ مومن میں بھر دیتا ہے رحماں قدرِ انسانی

منور ہوں دل و جاں آرزو دل میں سمائی ہو

خدائی نُور کی جب بھی کہیں جلوہ نمائی ہو

خدا ہوتا ہے روزے کی جزا جب یہ نوید آئی

خوشی کی انتہا تھی، عید سے پہلے ہی عید آئی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button