’’آگ ہماری غلام، بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے‘‘
ماہِ رمضان میں آنے والے موسمِ بہار کی ایک خوبصورت صبح ہے۔ اسلام آباد کا سبزہ زار اور اس کے رنگا رنگ پھول اس پرکیف فضا کے لطف کو دوبالا کررہے ہیں۔ اور اس پر یہ احساس کہ کچھ ہی دیر میں اپنے محبوب کا دیدار نصیب ہوگا۔ جذبات کا ہجوم ہے۔
اور پھر گذشتہ روز، یعنی جمعۃ المبارک کے خوش گوار احساسات ابھی تک قائم ہیں۔ حضور نے جمعہ مسجد بیت الفتوح میں پڑھایا۔ تین سال کےطویل عرصہ کے بعد۔لندن کے مکین تو خوش تھے ہی، مگر اس خوشی کی لہر دنیا بھر میں محسوس کی گئی۔ مسجدبیت الفتوح اپنے آغاز سے ہی صرف لندن جماعت کی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے احمدی اس سے ایک تعلق محسوس کرتے ہیں۔ جب اس کے لیے چندہ کا آغاز ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے دنیا بھر کے احمدی احباب کو تحریک فرمائی تھی۔
ویسے بھی، سالہا سال یہاں سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ نشر ہوا۔ سب احمدی ا س مسجد سے مانوس ہیں۔ پھر اس کے کمپلیکس کی تعمیر نو بھی اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے۔
حضور جب اسلام آباد تشریف لے گئے تو جمعہ اکثر مسجد مبارک میں پڑھانے لگے۔ لیکن گاہے گاہے مسجد بیت الفتوح میں بھی تشریف لاکر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے۔ ۶؍ مارچ ۲۰۲۰ء کو حضور نے جمعہ کا خطبہ اور نماز بیت الفتوح میں پڑھائی۔
اس کے بعد کورونا وائرس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ساری دنیا کے سب معمولات تہ و بالا ہو کر رہ گئے۔ حضور کا خطبہ جمعہ مسجد مبارک اسلام آباد سے نشر ہوتا رہا۔
اِدھر مسجد بیت الفتوح سے ملحقہ کمپلیکس کی تعمیرِ نو کا کام بھی کچھ عرصہ کے لیے تعطل کا شکار ہوا، مگر پھر شروع ہوگیا۔ مورڈن کے باسی، احمدی اور غیر احمدی سبھی، اس پرشوکت عمارت کی اٹھان دیکھتے اور کورونا وائرس کے ہاتھوں پھیلی اداسیوں کو دور کرتے رہے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو وبا کے دنوں میں بھی حسد سے دوچار رہے اور اس بلند و بانگ عمارت کی نئی منازل دیکھتے ہوئے اپنے حسد کا اظہار کبھی اعتراض کر کے، کبھی استہزا کرکے کرتے رہے۔
مگر اللہ کا ایک پیارا کہہ چکا تھا کہ یہ عمارت دوبارہ بن جائے گی، تو ہم ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کہیں گے۔ اللہ اپنے اس پیارے کے الفاظ کی لاج رکھتا رہااور اس دیدہ زیب عمارت کی پرشوکت رعنائی نے نظروں کو خیرہ کردیا۔
اس تعمیر نو کے مراحل کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ دو مواقع پر معائنہ کے لیے بھی تشریف لائے۔ پہلے ۱۰؍مارچ ۲۰۲۰ء کو اور دوسری بار ۲۳؍نومبر۲۰۲۱ء کو۔ دونوں مواقع پر حضور نے ظہر اور عصر کی نمازیں مسجد بیت الفتوح میں پڑھائیں۔ ان دنوں کوروناوائرس اپنے عروج پر تھا، اور اس سے متعلق احتیاطیں بھی۔ تاہم، کچھ مقامی خوش نصیب ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے امام کے پیچھے بہت عرصہ بعد نماز میں شامل ہوگئے۔
پھر یہ عمارت مکمل ہوگئی۔ اس کی پیشانی پر ماشاءاللہ اور سبحان اللہ کے الفاظ اس کی شان و شوکت کا اصل سبب بنے۔ جس عمارت کے جل کر راکھ ہوجانے پر دشمن نے شادیانے بجائے تھے، اس سے کہیں کشادہ، کہیں بہتر، کہیں زیادہ خوبصورت عمارت تیار ہوکر ایستادہ ہوچکی تھی۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۴؍مارچ ۲۰۲۳ء کو اس کا افتتاح فرمایا اور نمازِ مغرب و عشا پڑھائیں۔ پہلی مرتبہ ایک بڑی تعداد میں احباب کو اس مسجد میں حضور کے پیچھے نماز میں شامل ہونے کا موقع میسر آیا۔
پھر کچھ ہی دن بعد رمضان المبارک شروع ہوگیا۔ اور اس کے بھی کچھ ہی دن بعد یہ خبر پھیلی کہ حضور ۷ ؍اپریل کا خطبہ جمعہ مسجد بیت الفتوح میں ارشاد فرمائیں گے۔ اس بابرکت دن میں دو دن باقی تھے مگر شدتِ انتظار میں احمدی احباب کو یہ دو دن کا دورانیہ خاصا طویل عرصہ محسوس ہوا۔
۶؍مارچ ۲۰۲۰ء کے تین سال بعد یہ دن آرہا تھا۔ ان تین سالوں میں کئی مرتبہ ریل گاڑی کے ذریعے بیت الفتوح گیا تھا۔ مورڈن ساؤتھ سٹیشن، جہاں مجھے اترنا ہوتا، مسجد سے بالکل متصل ہے۔ میں سٹیشن پرپہنچنے سے پہلے دروازے کے پاس کھڑا ہوجاتا اور اس کمپلیکلس کی زیر تعمیر عمارت کو دیکھا کرتا۔ میں نے تین سال میں اس عمارت کی ترقی اور تکمیل کی سبھی منازل ریل کی کھڑکی سے دیکھیں۔
مگر کل جب میں اسی اشتیاق سے ریل کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، تو ایک عجیب منظر تھا۔ لوگوں کا ہجوم تاحدِ نظر پھیلا ہواتھا۔ گیٹ پر اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے مشتاق احمدی اپنے کارڈ دکھا کر داخل ہورہے تھے۔ بالکل عید کا سا سماں تھا۔
میں مسجد میں داخل ہوکر ایم ٹی اے کی جانب جارہا تھا، مگر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں لوگوں کا ہجوم نہ ہو۔ داخلی پھاٹک سے ایم ٹی اے تک جاتے ہوئے میں نے اندازہ لگایا کہ چار پانچ ہزار افراد تو ضرورہوں گے۔ میرا یہ راستہ صرف راہداریوں سے ہوکر جاتا ہے۔ مسجد سے یا اس سے ملحقہ طاہر ہال اور ناصر ہال وغیرہ سے نہیں۔ سو میرا اندازہ صرف راہداریوں اور داخلی پھاٹک سے داخل ہوتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر تھا۔
سو آج صبح جب میں ملاقات کے لیے حاضر تھا، تو گذشتہ روز کے تجربے اور مشاہدے کی سرشاری بھی طبیعت پر خوب چھائی ہوئی تھی۔بلکہ آٹھ سال کا طویل عرصہ ذہن پرحاوی تھا۔ان آٹھ سالوں میں ریل کی کھڑکی سے خاکستر عمارت، اس کا منہدم کیا جانا۔ اس کی بنیادیں استوار ہونا۔ تعمیر کا کام شروع ہونا۔ اور اس کا مکمل ہونا سب آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔
حاضر ہوا تو کچھ بھی عرض کرنے سے پہلے حضور کی خدمت میں مسجد بیت الفتوح میں ہونے والے جمعہ کے اجتماع کی مبارکباد پیش کی، اور عرض کی کہ ’’حضور، کل کے جمعے کا بہت ہی لطف آیا!‘‘
فرمایا: ’’ہاں! کل کافی لوگ جمع ہوگئے تھے۔‘‘
عرض کی کہ ’’حضور، بالکل عید کا سا سماں تھا۔‘‘
فرمایا: ’’عید کا سماں ہی تو تھا۔ آنحضورﷺ نے جمعے کے دن کی فضیلت عید ہی کے جتنی بیان فرمائی ہے۔ اچھا ہوا کہ رونق بھی عید ہی کی طرح ہوگئی۔ میرا اندازہ تھا کہ شاید مسجد کا ہال بھرجائے گا۔ یا شاید کچھ زیادہ ہوں تو کسی ساتھ والے ہال میں پورے آجائیں گے۔ مگر پتا چلا ہے کہ دس ہزار سے بھی زیادہ لوگ آگئے۔‘‘
پھر فرمایا: ’’میں نے خطبہ میں’’ الیوم اکملت لکم دینکم‘‘کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔ اس آیت کے بارے میں آیا ہے کہ کسی یہودی نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگر یہ آیت ہمارے دین کے لیے نازل ہوتی تو ہم اس روز کو عید کے طور پر منایا کرتے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جب یہ آیت آنحضورﷺ پر نازل ہوئی تو جمعے کا دن تھا اور آپؐ میدانِ عرفات میں کھڑے تھے۔
’’تو اس طرح کل جمعہ بھی ہوگیا، جو یوں بھی عید ہی کے دن کی طرح بابرکت ہے۔ اور یہ آیت بھی بیان ہوگئی جو جمعہ ہی کےدن نازل ہوئی تھی۔ تو سمجھو عید ہی ہوگئی۔
’’ لوگ تو بہت زیادہ تھے۔ مسجد بھر گئی، سارے ہال بھر گئے اور لوگو ں نے کھلی جگہ پر اور باہر بھی بیٹھ کر خطبہ سنا اور نماز بھی پڑھی۔اللہ کا فضل ہوگیا۔‘‘
حضور نے یہ بات بڑے اطمینان سے بیان فرمائی۔ مجھے وہ اطمینان یاد آگیا جو میں نے اس روز حضور کے چہرے پر دیکھا تھا جب آگ لگی تھی۔ ابھی آگ پر قابو پانے کی کوشش جاری تھی۔ میں بیت الفتوح کے سامنے اس بے بس ہجوم میں شامل تھا جو آگ کو پھیلتے دیکھ رہا تھا کہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آیا تھا کہ حضور یاد فرمارہے ہیں۔
میں گاڑی دوڑاتا مسجد فضل پہنچا تھا۔ حاضر ہوا تھا۔ سب سے پہلا سوال ہوا تھا کہ کیا ہوا، تمہارے چہرے پر تو ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں۔ میں نے عرض کی تھی کہ آگ بہت پھیل چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے کی ویڈیو لائبریری بھی اس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ اس پر فرمایا کہ پھر کیا ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی آواز سے زیادہ قیمتی تو کچھ نہیں تھا۔ وہ ضائع ہوگئی اور جماعت کی ترقی نہ رکی۔ آپؑ کا پیغام توپھیلتا ہی چلا گیا۔ اللہ فضل کرے گا۔ قوموں کی ترقی ایسے حادثوں سے رک نہیں جایا کرتی۔
پھر حضور نے فرمایا تھا کہ سب کام جاری رہیں گے۔ جو لائیو پروگرام اس شام کو ہونا تھا، وہ بھی ہوگا۔ حضور نے بڑے اطمینان سے ایک نیوز بلیٹن کا متن بھی تحریر کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ بغور اسے پڑھا تھا اوربعض جگہ پر تبدیلی فرمائی تھی۔ تب تک خبر آچکی تھی کہ آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔ میں نے یہ الفاظ اسی طرح درج کردیے تھے کہ ’’….تازہ اطلاع کے مطابق آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔‘‘
حضور نے اپنے دستِ مبارک سے اس پر تحریر فرمایا تھا: ’’اللہ کے فضل سے‘‘۔
اور ساتھ فرمایا کہ انسان کہاں کسی چیز پر قابو پاسکتا ہے۔ یہ اللہ کے فضل سے ممکن ہوا ہے۔
آج جب حضور نے اسی اطمینان سے جمعہ کے اجتماع کا ذکر فرمایا۔ اور فرمایا ’’اللہ کا فضل ہوگیا‘‘۔ تو مجھے آٹھ سال پہلے کا وہ اطمینان اور اللہ کے فضل پرحضور کا بھروسہ یاد آگیاجو میں نےحضور کے مبارک الفاظ میں ستمبر ۲۰۱۵ء میں سنا تھا۔ اللہ کا فضل تو ہمارے امام کے ساتھ جیسا ہے، اس پر تو ساری دنیا گواہ ہے۔ اپنے بھی غیر بھی۔
اللّٰھم اید امامنا بروح القدس