اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینے میں رمضان المبارک
سنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی راہنمائی کو سنت کا نام دیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرتؐ نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے۔ اور جس طرح آنحضرتؐ قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سنّت کی اقامت کے لئےبھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنّت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی،روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ ۲۱۰)
رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے
اس سے قبل کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرض روزوں کے بارے میںسنت دیکھی جائے یہ نوٹ خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہونے سے قبل بھی روزے رکھا کرتے تھے یا نہیں؟
اسلامی تاریخ سے شناسائی رکھنے والے جانتے ہیں کہ محرم کے مہینے کی دس تاریخ کا تعلق حضرت امام حسین کی شہادت سے بھی ہے لیکن یہ کہنا کہ اسی وجہ سے اس دن کو عاشوراء کہا جاتا ہے درست نہیں ہے بلکہ اس دن کو عرب کےزمانہ جاہلیت میں بھی عاشوراء کا نام دیتے تھے اور اس دن روزہ بھی رکھتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء) یعنی زمانہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول پاکﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے جب مدینہ تشریف لائے تو بھی آپ نےیہ روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا اور جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو آپﷺ نے یہ روزہ چھوڑ دیا تو جو شخص چاہتا اس دن روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا چھوڑ دیتا تھا۔ اسی طرح کتاب دلائل النبوۃ میں پہلی وحی کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ غار حرا میں نبی کریمﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک ماہ کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی اور یہ واقعہ رمضان کے مہینے کا ہے جس کے بعد سورۃ العلق کی پانچ آیات کے نزول کا ذکر ہے جن کا آغاز: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (سورۃ العلق: ۲)سے ہوتا ہے۔ (دلائل النبوة لأبي نعيم أحمد بن عبد اللّٰه بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: ۴۳۰هجری) الْفَصْلُ الرَّابِعَ عَشَرَ فِي ذِكْرِ بَدْءِ الْوَحْيِ وَكَيْفِيَّةِ تَرَائِي الْمَلَكِ وَإِلْقَائِهِ الْوَحْيَ إِلَيْهِ وَتَقْرِيرِهِ عِنْدَهُ أَنَّهُ يَأْتِيْهِ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مِنْ شَقِّ صَدْرِهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الجزء الأول، الصفحة 215، دار النفائس، بيروت والطبعة الثانية، 1406 هـ – 1986 م)۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ قبل از نبوت بھی روزے رکھتے تھے اور اعتکاف بھی کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے رسول پاکﷺ سے آپ کے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ذاك يوم ولدت فيه وأنزل عليّ فيه النبوّة۔ کہ میں اس دن پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھ پر نبوت اتاری گئی تھی۔ پھر لکھتے ہیں کہ یہ پیر کا دن کونسا تھا اس میں اختلاف ہے ابو قلابہ کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کی ۱۸؍ تاریخ تھی جبکہ ابو الخلد کی روایت میں ۲۴؍ تاریخ تھی۔ (أعلام النبوة لأبي الحسن علي بن محمد بن محمد بن حبيب البصري البغدادي، الشهير بالماوردي (المتوفى: 450هـ)، الصفحة 239، نشره دار ومكتبة الهلال – بيروت في طبعته الأولى في عام 1409 هـ)۔
ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ رمضان کے مہینے میں روزوں کی فرضیت سے قبل بھی پیر کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِيْنَةَ فَرَأَى الْيَهُوْدَ تَصُوْمُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللّٰهُ بَنِي إِسْرَائِيْلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ: فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء) کہ جب نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ عاشوراء کے دن یہودی روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک اچھا دن ہے اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں حضرت موسیٰ کاتم سے زیادہ حقدار ہوں اور آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو اس کا حکم بھی دیا۔سنن ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُوْمُ مِنَ الشَّهْرِ السَّبْتَ، وَالْأَحَدَ، وَالْاِثْنَيْنِ، وَمِنَ الشَّهْرِ الْآخَرِ الثُّلَاثَاءَ، وَالْأَرْبِعَاءَ، وَالخَمِيْسَ(سنن ترمذی، ابواب الصوم، باب ما جاء فی صوم یوم الاثنین والخمیس) یعنی نبی کریمﷺ ایک مہینے میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے دن روزے رکھتے تھے اور دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل نفلی روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھےکیونکہ یہ سنت انبیاء ہے۔
رمضان کے روزوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن مبارکہ
خدا تعالیٰ کی طرف سے جب رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا فرض کیا گیا تو نبی کریمﷺ نے عملی طور پر روزہ رکھ کر دکھایا۔علامہ ابن قیم اپنی کتاب زاد المعاد میں لکھتے ہیں: وَكَانَ فَرْضُهُ فِي السَّنَةِ الثَّانِيَةِ مِنَ الْهِجْرَةِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَامَ تِسْعَ رَمَضَانَاتٍ(زاد المعاد في هدي خير العباد لابن قيم الجوزية (المتوفى: 751ھ)، فَصْلٌ فِي هَدْيِهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصِّيَامِ تحت عنوان:متى فرض الصِّيَامِ، جلد 02 صفحہ 26، في طبعته السابعة والعشرون في عام 1415ھ) یعنی رمضان کے روزے دوسرے سال ہجری سے فرض کیے گئے تھے اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل نو (۹) سال روزے رکھے۔
ان روزوں میں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریق تھا ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
رمضان کے احکام و آداب سکھانا
مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول پاکﷺ رمضان کے آغاز پر اور دوران رمضان وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے مختلف روایات مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے رمضان سے پہلے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے ہاں رمضان کا مہینہ آیا ہے پس اس کے لیے تیاری کرو اور اپنی نیتوں کو اس کے لیےبہتر بناؤ، اس کی حرمت کو عظیم جانو، اس کی حرمت خدا کے نزدیک سب حرمتوں سے عظیم ہے پس اس کی خلاف ورزی نہ کرو کیونکہ نیکیاں اور برائیاں اس میں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ (كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلاء الدين علي بن حسام الدين ابن قاضي خان الشهير بالمتقي الهندي (المتوفى: 975ھ)، كتاب الصوم، فصل في فضله وفضل رمضان، ج 08، صفحہ 581)۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ جب رمضان کا مہینہ قریب آیا تو نبی کریمﷺ نے ہم سے نماز مغرب کے وقت مختصر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ رمضان تمہارا استقبال کرنے جا رہا ہے اور تم اس کا استقبال کرنے والے ہو یاد رکھو اہل قبلہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ ہو جس کی پہلی ہی رات کو بخشش نہ ہو جائے۔ (كنز العمال في سنن الأقوال، كتاب الصوم، فصل في فضله وفضل رمضان، جلد 08، صفحہ 592 و593)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ (بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم)
رویت ہلال۔ چاند دیکھنا
رمضان کے مہینے کا آغاز رویت ہلال (چانددیکھنے) سے ہوتا ہے۔ اس بارے میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے راہنمائی ملتی ہے جس کا ذکر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں آیاہے کہ تَرَائِى النَّاسُ الْهِلَالَ، فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِّي رَأَيْتُهُ فَصَامَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ (سنن أبي داؤد، كتاب الصوم، بَابٌ فِي شَهَادَةِ الْوَاحِدِ عَلَى رُؤْيَةِ هِلَالِ رَمَضَانَ) يعنی لوگوں نے (رمضان کا) چاند دیکھا تو میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس سنت نبوی کی مزید وضاحت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوْا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُبِّیَ عَلَيْكُمْ فَاَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلَاثِیْنَ۔(صحيح بخاري، كتاب الصوم، باب: قول النبي صلى الله عليه وسلم: إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا)يعنی روزہ کا آغاز اسے (چاند کو) دیکھ کر کیا کرو اور عید الفطر بھی اسے دیکھ کرہی کیا کرو اور اگر کبھی بادل وغیرہ سے مطلع واضح نہ ہو تو تیس کی گنتی پوری کیا کرو۔
چاند دیکھ کر دعا کرنا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چانددیکھتےتو دعا کیا کرتے تھے۔ اس بارے میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آیاہے کہ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ قَالَ: اللّٰهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللّٰهُ (سنن ترمذی، ابواب الدعوات، بَاب مَا يَقُولُ عِنْدَ رُؤْيَةِ الهِلاَلِ)کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چانددیکھتےتو یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ اس (چاند) کوہمارے لیے برکت، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع کرنا (اےچاند) میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔
رمضان میں صحت و عافیت کے لیے دعا کرنا
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک آتا تو نبی کریمﷺ ہمیں یہ دعائیں سکھایا کرتےتھے: اَللّٰهُمَّ سَلِّمْنِيْ لِرَمَضَانَ وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِيْ وَسَلِّمْهُ لِيْ مُتَقَبّلًا(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلاء الدين علي بن حسام الدين ابن قاضي خان الشهير بالمتقي الهندي (المتوفى: 975ھ)،كتاب الصوم، فصل في فضله وفضل رمضان، جلد ۸، صفحہ۵۸۴)۔ اے اللہ مجھے رمضان کے لیے سلامت رکھنا اور رمضان کو میرے لیے سلامتی والا بنادے اوراس کرمضان کو قبول کرتے ہوئے میرے لیے سلامتی بنا دے۔
روزے کے لیے ذہنی تیاری کرنا
کسی بھی اہم کام کو کرنے سے قبل ذہنی تیاری کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح تمام عبادات میں نیت ایک بنیادی چیز ہے۔ روزے میں بھی اس کا کرنا لازمی ہے جیسا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ، فَلَا صِيَامَ لَهُ۔ (سنن أبي داؤد، كتاب الصوم، بَابُ النِّيَّةِ فِي الصَّوْمِ)۔ یعنی جس نے فجر سے پہلے روزوں کی ذہنی تیاری نہ کی تو اس کے روزے نہ ہوں گے۔ اسی حدیث کے کلمات میں تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہی روایت ترمذی میں یوں ہے: لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ (سنن الترمذي، أَبْوَابُ الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَابُ مَا جَاءَ لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنَ اللَّيْلِ) یعنی جس نےرات سے روزوں کی نیت نہ باندھی تو اس کے روزے نہ ہوں گے۔
سحری کرنا اور کروانا
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ:كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ؟ قَالَ: قَدْرُ خَمْسِيْنَ آيَةً۔(صحيح بخاري، كتاب الصوم، بَاب: قَدْرِ كَمْ بَيْنَ السَّحُورِ وَصَلَاةِ الْفَجْرِ)کہ ہم نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی۔ پھر آپ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ راوی کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ اذان اور سحری میں کتنا فاصلہ تھا ؟کہنے لگے کہ پچاس آیات کی تلاوت کرنے کے برابر تھا۔
اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : تَسَحَّرُوْا، فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ بَرَكَةًکہ سحری کیا کرو یقیناً سحری کرنے میں برکت ہے۔(صحيح بخاري، كتاب الصوم، بَاب: بَرَكَةِ السَّحُورِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ)حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رمضان کے مہینے میں سحری کے لیے بلاتے تو فرمایا کرتے تھے: هَلُمُّوا إلى الغداء المبارك۔ (صحيح ابن حبان،كِتَابُ الصَّوْمِ باب السحور ذِكْرُ تَسْمِيَةِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّحُورَ الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ)کہ مبارک کھانے کی طرف آجائیں۔یعنی سحری کو غداء مبارک کا نام دیتے تھے۔
اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: السَّحُورُ أَكْلَةٌ بَرَكَةٌ فَلَا تَدَعُوهُ، وَلَوْ أَنْ يَجْرَعَ أَحَدُكُمْ جَرْعَةً مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى الْمُتَسَحِّرِيْنَ۔(مسند احمد بن حنبل، مسند المکثرين من الصحابة، من حديث أبی سعيد الخدری، جلد17 ص 485 رقم الحديث 11396، الناشر مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى، 1421 هـ – 2001 م) یعنی سحری کرنا برکت والا کھانا ہے لہٰذا اسے ترک نہ کرو اگرچہ تم میں سے کوئی پانی کا گھونٹ بھی لے کر سحری کرے۔ یقیناًاللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔
سحری میں حتی الوسع تاخیر کرنا
اسی طرح سحری کرتے ہوئے آخری وقت تک کھانا کھانے کی نصیحت بھی ملتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْإِفْطَارَ، وَأَخَّرُوا السَّحُورَ(مسند احمد بن حنبل، مسند الأنصار، من حديث أبي ذر الغفاری رضي اللّٰه عنه، جلد35 ص 241 رقم الحديث 21312، الناشر مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى، 1421 هـ – 2001 م) یعنی میری امت کےلوگ خیرو برکت میں رہیں گے جب تک افطاری جلدی کرتے رہیں گے اور سحری تاخیر سے کرتے رہیں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ۔ (بخاری کتاب الاذان باب الاذان قبل الفجر ومسلم کتاب الصيام باب بيان أ ن الدخول فی الصوم يحصل بطلوع الفجر) یعنی بلال رات کو اذان دے دیتے ہیں پس تم کھایا پیا کرو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیا کرے۔
سادگی سے افطاری کرنا
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ عَلَى رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ، فَعَلَى تَمَرَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ(سنن ابی داؤد کتاب الصوم، باب ما يفطر عليه)یعنی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کی ادائیگی سے قبل کھجور کے ساتھ افطاری کیا کرتے تھے اگر کھجورمیسر نہ ہوتی توخشک کھجور سے اور اگرخشک کی ہوئی کھجور بھی موجود نہ ہوتی تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے تھے۔ یعنی جو کھانے پینے میں سے میسر ہوتا اسی سے افطاری کر لیا کرتے تھے۔
افطاری میں جلدی کرنا
ایک روایت میں حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول کریمﷺ کے ساتھ تھے آنحضرتﷺ نے ایک شخص سےفرمایا سواری سے اترواورمیرے لیے پانی دو، اس نے عرض کی یا رسول اللہﷺ ابھی سورج ہے؟ آپ نے فرمایا سواری سے اترواورمجھے پانی دو، اس نے پھر عرض کی یا رسول اللہﷺ ابھی سورج باقی ہے؟ آپ نے پھرفرمایا اترو اورمجھے پانی دے بھی دو، اس پر وہ آدمی اترا اور آپ کو پانی پیش کیا تو آپ نے اسے پیا پھر ہاتھ کے اشارے سے فرمایا جب تم اس طرف سے رات آتی دیکھو تو روزہ دار کو روزہ کھول دینا چاہیے۔ (صحيح بخاري، كتاب الصوم، باب الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ وَالإِفْطَارِ)دوسری روایت میں آتا ہے کہ ایک تابعی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور عرض کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے دو اشخاص ہیں جو عبادت میں بہت محنت کرتے ہیں لیکن ان میں سے ایک افطاری جلدی کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے افطاری دیر سے کرتے ہیں۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا: ان میں سے کون افطاری جلدی کر لیتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کیا کرتے تھے۔ (صحيح مسلم کتاب الصيام باب فضل السحور)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ أَحَبَّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا۔(سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ)یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے سب سے پیارے بندے وہ ہیں جوباقی لوگوں سے جلدی افطاری کرتے ہیں۔
افطاری کے ساتھ دعا کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ افطاری کے وقت دعا کیا کرتے تھے چنانچہ سنن ابو داؤد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری کرتے تو کہتے: ذَهَبَ الظَّمَأْ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰه کہ پیاس دور ہوگئی اور نسیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر پکا ہو گیا۔ایک حدیث میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ۔ (سنن ابن ماجه کتاب الصيام باب فی الصائم لا ترد دعوته) ضرورروزہ دار کے لیے افطار کے وقت کی دعا رد نہیں کی جاتی۔
قرآن کریم کی تلاوت اور نیکیوں کی کثرت
رسول خداﷺ کے بارے میں ملتا ہے کہ جب جبریل آپ سےملتے تھے تو آنحضرتﷺ اس کے ساتھ رمضان کے مہینے میں قرآ ن کریم کا دور کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُوْنُ فِي رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ (صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی باب كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے سب سےزیادہ سخی تھے اوررمضان کے مہینے میں جب جبریل سے ملتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت میں اور بھی بڑھ جاتے تھے۔ جبریل رمضان کی ہر رات آپ سے ملا کرتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قرآن کریم پڑھا کرتے تھے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خیرپھیلانے میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جایا کرتے تھے۔
آخری دس دن کا اعتکاف کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی پھر آپ کی بیگمات آپ کے بعد اعتکاف کرتی ہیں۔ ( بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشر الأواخر ومسلم کتاب الاعتکاف باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان) اور جب آخری عشرہ آتا تو آپ اپنی کمر کس لیتے تھےا وراپنی رات کو زندہ کرتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے تھے۔ (بخاری کتاب فضل لیلة القدر باب العمل فی العشر الأواخر من رمضان ومسلم کتاب الاعتکاف باب الاجتہاد فی العشر الأواخر من شہر رمضان)
رمضان اورخصوصاً آخری عشرے میں تہجدادا کرنا
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیسی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپﷺ رمضان اور اس کے علاوہ تمام مہینوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ۔ان کے طول و حسن کا نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي۔ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصره باب صلاۃ الليل وعدد رکعات النبی)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا اور اسے دیگر مہینوں پر فضیلت حاصل ہونے کا بیان کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور میں نے اس مہینے کی راتوں میں عبادت کرنے کی سنت قائم کی ہے پس جس نے اس کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رکھے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسےنکلے گا جیسے وہ اس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (كنز العمال، كتاب الصوم، فصل في فضله وفضل رمضان، ج 08، ص 590)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: کَانَ النَّبِی صَلَّی اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَه وَاَحْيی لَيْلَهُ وَاَيقَظَ اَهْلَهُ (بخاری بابُ الْعَمَلِ فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ رَمَضَانَ)کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آ جاتا تو آپؐ اپنی کمر کس لیتے یعنی معمول سے زیادہ مجاہدات کے لیے مستعد اور تیار ہو جاتے گو ویسے بھی آپﷺ بڑے اہتمام سے رات کو نوافل ادا کیا کرتے لیکن جب رمضان کے آخری دس روز شروع ہو جاتے تو آپؐ مجاہدات کا اور زیادہ اہتمام فرماتے۔ وَاَحْيی لَيْلَهُ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رات کو زندہ رکھتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس کے لیے جگاتے۔
تہجد کی اجتماعی عبادت کا قیام
حضرت عروہ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک رات رسول کریمﷺ رات کے درمیانی وقت میں نکلے اور مسجد میں نماز ادا کی۔ آپؐ کے ساتھ بعض لوگوں نے نماز ادا کی۔ اگلی صبح لوگوں نے اس بارے میں باتیں کیں تو اگلے روز جمع ہونے والےنمازیوں کی تعداد بڑھ گئی۔ اسی طرح اگلے روز بھی لوگوں نے اس نماز کا تذکرہ کیا تو مسجد میں بڑی تعداد جمع ہو گئی۔ رسول کریمﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ جب چوتھی رات آئی تو مسجد میں کوئی جگہ نہ رہی تو رسول خداﷺ (رات کی نماز میں نہ آئے بلکہ) فجر کی نماز پر تشریف لے گئے جب فجر کی نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تشہد پڑھا پھر فرمایا: مجھ پر آپ لوگوں کا حاضر ہونا مخفی نہیں تھا لیکن میں ڈرا کہ کہیں آپ پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے یعنی فرض نہ سمجھ لیں اور آپ لوگ اس کو ادا کرنے سے عاجز آجاتے۔ (صحيح بخاري، كتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان) بعد میں یہی سلسلہ نماز عشاء کے بعد باجماعت شکل میں جاری ہوا جسے نماز تراویح کا نام دیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر تلاش کرنا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریمﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور ۲۰ویں روزے کی رات بھی اعتکاف میں گزارتے تھے اور ۲۱ویں روزے کو گھر لوٹ جاتے اور جو لوگ آپ کے ہمراہ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی لوٹ جاتے۔ اسی طرح ایک دفعہ کے رمضان کے مہینے میں لوٹنے والی رات کو رسول کریمﷺ نے خطاب فرمایا اور بہت سی نصائح فرمائیں پھر فرمایا: میں پہلے اس (درمیانی) عشرے میں اعتکاف کرتا تھا پھر مجھ پر کھلا کہ مجھے آخری عشرے میں یہ (اعتکاف) کرنا چاہیے پس جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا ہے وہ جاری رکھے اور مجھے یہ رات بھی دکھائی گئی ہے پھر بھلا دی گئی ہے پس تم اسے آخری عشرے میں تلاش کرو اور ہر طاق رات میں ڈھونڈو اورمیں نے (خواب میں) خود کو پانی اور گیلی مٹی میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس رات بادل آئے اور بارش ہوئی اور اس رات جو ۲۱ویں رات تھی رسول کریمﷺ کی نماز پڑھانے کی جگہ ٹپکتی رہی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے فجر کی نماز کے بعد رسول اللہﷺ کے چہرے پر گیلی مٹی لگی ہوئی دیکھی۔ (صحيح بخاري، كتاب فضل ليلة القدر، باب تَحَرِّي لَيْلَةِ القَدْرِ فِي الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: رمضان کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ (صحيح بخاري، كتاب فضل ليلة القدر، باب تَحَرِّي لَيْلَةِ القَدْرِ فِي الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ)
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ (صحيح بخاري، كتاب فضل ليلة القدر، باب تَحَرِّي لَيْلَةِ القَدْرِ فِي الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ)
٭…٭…٭