دعا کی اہمیت اور آداب وبرکات
میں اتنی دعاکرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے اوربعض اوقات غشی اورہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے
قبولیت دعا کا وعدۂ الٰہی
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مجیب الدعوات ہے کہ وہ اپنے بندوں کی عاجزانہ درد دل سے کی ہوئی دعائیں قبول کرتااورفرماتا ہےکہ اگر تمہارى دعا نہ ہوتى تو مىرا ربّ تمہارى کوئى پروا نہ کرتا۔(الفرقان :۷۸)
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہ وعدہ ہے: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ(المومن: ۶۱)کہ تمہارا رب فرماتا ہے مجھ سےدعائیں کرو، میں تمہاری دعائیں قبو ل کروںگا۔اور یہ صفتِ الٰہی دراصل اللہ تعالیٰ کی ہستی کی بھی دلیل ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو اپنے موجود ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’سچ تویہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتاہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد ۲صفحہ۱۴۷ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
دوسری جگہ قبولیتِ دعا کا وعدہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دعا کرنےوالے کی دعا سنتا ہوں جب وہ مجھ سے دعاکرتاہے پس چاہیے کہ وہ بھى مىرى بات پر لبّىک کہىں اور مجھ پر اىمان لائىں تاکہ وہ ہداىت پائىں۔(البقرة :۱۸۷)پس اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان اور اخلاص سے اس کے احکام کی تعمیل کرنے والوں کی دعائیں بھی وعدۂ الٰہی کے مطابق قبول کی جاتی ہیں۔
قبولیتِ دعا کی ایک اور اہم شرط اضطرار ہے جس کے نتیجہ میں وہ خشوع وخضوع پیدا ہوتا ہے جو قبولیت دعا کااہم ذریعہ ہے۔(النمل:۶۳)
اسی طرح بعض خاص اوقات بھی قبولیتِ دعا کے لیے اہم ہوتےہیں جیسےرمضان المبارک کا مہینہ ہےجس کے احکام بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خاص طورپر دعاؤں اور ان کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں اپنے بندوں کےبہت قریب ہوں اوردعا کرنے والوں کی دعا سنتاہوں‘‘(البقرة:۱۸۷)
قبولیت دعا کی حیرت انگیزمثالیں
استجابت دعا کا یہ وعدۂ الٰہی خدا کے پیارے نبیوں، رسولوں او رولیوں کے حق میں ہمیشہ پورا ہوتا چلا آیا جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ایک زندہ خدا موجود ہے جو اپنے پیاروں کی آہ وزاری پر رجوع برحمت ہوتاہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس کے ثبوت میں کئی انبیاء کی قبولیتِ دعا کی مثالیں بطور نمونہ پیش فرمائی ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام کےپیش آمدہ ابتلا میں اللہ تعالیٰ نے خود انہیں ایک دعا سکھائی جس کے نتیجہ میں وہ ان پر رجوع برحمت ہوا۔(البقرۃ:۷۰،الاعراف:۲۴)
حضرت نوحؑ نےجب قوم کے ظلم سے تنگ آکر اللہ تعالیٰ کو پکارا تواللہ تعالیٰ نےآپؑ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کوان کے اہل سمیت ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔(انبیاء:۷۷)
حضرت ایوبؑ نے اذیت ناک بیماری میں اپنے ارحم الراحمین خداکو پکارا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس کی دعا قبول کرتے ہوئے اس کی تکلیف دور کردی اور اسے اپنی رحمت خاص سے اہل وعیال ومال وبنان بڑھ چڑھ کر عطا فرمائے جو خدا کے بندوں کےلیے ایک نصیحت ہے۔(انبیاء:۸۵)
حضرت یونسؑ نے مچھلی کے پیٹ میں موت کے تمام اسباب جمع ہوجانے کےباوجود اپنے رب کو پکارا تواللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انہیں غم سے نجات دی (الانبیاء:۸۹)
حضرت زکریاؑ نےجب عمر رسیدگی میں بےاولاد ہونےپر بےقرار دعا کی کہ میرے ربّ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو بہترین وارث ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرماتے ہوئے ان کی بیوی کو لائقِ اولادبناکر حضرت یحییٰ ؑ جیسی مبشر اولاد عطا کی۔(انبیاء:۹۰۔۹۱)
تاریخِ انبیاء میں قبولیتِ دعا کا سب سے عظیم نشان توہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کےوقت میں ظہور میں آیا جب آپؐ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں کی برکت سے ایک بےنظیر انقلاب کامعجزہ دنیا نےدیکھا کہ لاکھوں روحانی مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اورپشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبانوں پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔
مسیح موعودؑ کا ہتھیار۔دعا
رسولِ کریمﷺ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ آپ کے روحانی فرزند مسیح و مہدی کےزمانہ میں جب اس دَور کی زبردست دنیاوی طاقتوں سے ظاہری مقابلہ کی کسی کو طاقت نہ ہوگی اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو وحی کرے گا کہ میرے بندوں کو طُور پہاڑ پر لے جا۔ (مسلم کتاب الفتن) یعنی جس طرح حضرت موسیٰؑ نے چالیس روز طُور (پہاڑ) پر جاکر دعائیں کیں اسی طرح کی دعائیں کرنے سے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو کر مسیح موعود کی جماعت کی کامیابیوں کے سامان ہوں گے۔
اس زمانہ میں جب حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدصاحب قادیانی ؑنے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر مسیح ومہدی کا دعویٰ کیا تواللہ تعالیٰ نےآپ کو رسول اللہﷺ کی اس پیشگوئی کے مطابق خاص طور پردعاؤں کی طرف توجہ دلائی۔
چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نےمجھے بار بار بذریعہ الہامات کےیہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا۔‘‘(ملفوظات جلدپنجم صفحہ۳۶ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت مسیح موعودؑ کو ان دعاؤں کے نتیجہ میں قبولیت دعاکا نشان عطافرمایا گیا۔اور آپؑ کو الہام ہوا کہ ’’مَیں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں‘‘۔(تذکرہ صفحہ ۲۱)
تاثیراتِ دعا
حضرت مسیح موعودؑاپنی کتاب برکات الدعا میں فرماتے ہیں :’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب وآتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (برکات الدّعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۱۱)
پھراپنے ذاتی تجربہ سے تاثیراتِ دعا بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اورکیفیت رکھتی ہے وہ فناکرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔وہ رحمت کوکھنچنے والی ایک مقاطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہرایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہےاور ہرایک زہر آخر اس سے تریاق ہوجاتاہے۔
مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔
مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور ازخود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۲۲۔۲۲۳)
اسی طرح دعاؤں کی اہمیت و برکات کاذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعو دؑ فرماتے ہیں :’’نشان کی جڑ دعا ہی ہے۔ یہ اسم اعظم ہے اوردنیا کا تختہ پلٹ سکتی ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے اور ضرور ہے اور ضرور ہے کہ پہلے ابتہال اوراضطراب کی حالت پیدا ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ۲۰۲ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
’’دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کر سکتی ہے اورمردہ کو زندہ کر سکتی ہے۔ اس میں بڑی تاثیریں ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ۱۰۰)
جماعت کو دعاؤں کےلیےخصوصی تاکیداورنصائح
حضرت بانئ جماعت احمدیہ اپنی جماعت کو بھی دعاؤں کی برکات حاصل کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اگر تم لوگ چا ہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۳۲)
’’ہر روز دیکھنا چاہیے کہ جو حق دعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے کہ نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ۵۹۱)
’’ہماری جماعت کو چاہیے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں…اصل دعا دین ہی کی دعا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ۱۳۲)
’’دین و دنیاکےلئے نمازمیں بہت دعا کرنی چاہیے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۵صفحہ۳۷۳)
’’دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ۴۳۵)
’’میں ہمیشہ دعاؤں میں لگارہتا ہوں اور سب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ۶۶)
دعاکے لوازم
دعاؤں کی قبولیت کا ایک اہم ذریعہ صدقات بھی ہیں۔
حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے‘‘۔
(ترمذی کتاب الزکاة بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّدَقَةِ)
نیز حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: پہلا امام عادل ہے، دوسرا روزہ دار جب وہ افطار کرے، اور تیسرا مظلوم، جب وہ دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ(اس کی دعا کو)بادل کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے: قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر سے ہی سہی۔
(ترمذی ابواب صفة الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَنَعِيمِهَا)
اسی طرح حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو جب(عامل بنا کر)یمن بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا)کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔(بخاری کتاب المظالم بَابُ الِاتِّقَاءِ وَالحَذَرِ مِنْ دَعْوَةِ المَظْلُومِ)
حضر ت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’لوگ اس نعمت سے بے خبر ہیں کہ صدقات دعا اور خیرات سے ردِّ بلا ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ۲۰۱)
’’اگر کوئی تقدیر معلّق ہو تو دعا اور صدقات اس کو ٹلا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تقدیر کو بدل دیتا ہے۔‘‘(الحکم ۱۲؍ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۳ کالم ۱)
قبولیت دعا کی شرائط
قبولیت دعا کی شرائط وآداب بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
٭…’’قبولیت دعا کےواسطے چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے…شرطِ اول یہ ہے کہ اتّقاء ہو…دوسری شرط …دل میں درد ہو…تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصفیٰ میسر آوئے…چوتھی شرط یہ ہے کہ پوری مدت دعا کی حاصل ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ۵۳۵تا۵۳۷)
٭…’’جس قدر قرب الٰہی انسان حاصل کرے گا اسی قدر قبولیت دعا کے ثمرات سے حصہ لےگا۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ۴۳۶)
٭…’’دعاکے ثمرات سے محروم کرنے والے بعض مکروہات ہوتے ہیں جن سے انسان کو بچنا لازم ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ۲۸۷)
٭…’’اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہوسکتی۔‘‘ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ۱۷۰)
٭…’’جو مخلوق کا حق دباتا ہے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی۔‘‘(ملفوظات جلد ۲ صفحہ۱۹۵)
٭…’’ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی۔‘‘(ملفوظات جلد ۲ صفحہ۶۸۲)
٭…’’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کےاضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ۶۱۸)
٭…’’دعا کےلئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ۵۳۸)
٭…’’دعا ایک استقلال اورمداومت کو چاہتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ۶۱۵)
٭…’’حضرت یعقوبؑ…چالیس برس تک…دعائیں کرتے رہے آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر حضرت یوسفؑ کو لے ہی آئیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۲ صفحہ۱۵۱، ۱۵۲)
٭…ہم اہلِ پاکستان کے مظلوم احمدیوں اورمہجوروں کو بھی خلیفہ وقت کی پاکستا ن سے جدائی پر چالیس سال ہونے کو ہیں۔ پس آئیں اس رمضان میں حضرت مسیح موعودؑ کے اس نمونہ کے مطابق خصوصاً آخر ی تین چار ایام میں اس طرح دعائیں کریں جیسے حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا تھا:’’میں اتنی دعاکرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے اوربعض اوقات غشی اورہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ۲۰۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان میں احسن رنگ میں عبادات بجالاتے ہوئے ان مقبول دعاؤں کی توفیق دے۔ جس کی طرف ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےہمیں اپنے تازہ خطبہ میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’رمضان میں جماعت کےمخالفین کے شر سے بچنے کےلیے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔اللہ تعالیٰ ہر شریر کے ہاتھ کوروکے اوران کی پکڑ کے سامان فرمائے…اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمارے لیے رحمتوں اوربرکتوں کے دروازے پہلے سے بڑھ کر کھولے۔آمین‘‘ (خطبہ جمعہ ۷؍اپریل ۲۰۲۳ء)
پس آئیے ہم سب مل کر سنت نبویؐ میں اس رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کو زندہ کرکے دکھا دیں۔ طاق راتوں میں لیلة القدر کی دعا کےلیے مقبول گھڑیاں تلاش کریں۔ اپنے خلاف ظالمانہ پابندیوں کے علاوہ مظلومیت کے سارے زخم اپنے مولیٰ کے حضور پیش کرکے مظالم سے چھٹکارے کی التجائیں کریں۔ اپنے اسیراور پابندِسلاسل بھائیوں کی خاطر دعاؤں میں جوش پیدا کرکے اپنے رب کے حضور گڑگڑائیں اور چلّائیں۔اپنے شہید بھائیوں کابے رحمی سے بہایاگیا خون یاد کرکے ایک اضطراب اور رقّت کے ساتھ اتنی آہ وزاری کریں کہ سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے ترکردیں اوراپنی مظلومانہ چیخ و پکار اس مقام تک پہنچادیں کہ ہم مظلوموں کی دعا اور خدا کے درمیان سب پردے چاک ہوجائیں۔یہاں تک کہ عرش کا خدا خود اپنے مظلوموں کے آنسو پونچھنے کےلیے دوڑاچلاآئےاورزمین پر اترآئے اور ہم سب اس کی یہ شیریں آواز سن لیں کہ اے آہ و بکا کرنے والے میرے مظلوم بندو! اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔(الزمر: ۵۴)میں ہی ہوں جو مضطرومجبور کی دعا کاجواب دیتاہوں۔(النمل: ۶۳)میں ہوں تمہارا رب، جس نےتم سے وعدہ کیا کہ تم دعا کرو قبول میں کروںگا۔(مومن: ۶۱)ہاں میں ہوں مجیب الدعوات جو دعا کرنے والوں کی دعائیں سنتا ہوں۔(البقرة: ۱۸۷)پس اے میرے پیارے بندو!تمہیں مبارک ہو کہ تمہارے امام عالی مقام اور اس کی اقتدا میں تمہاری مضطربانہ دعائیں پایۂ قبولیت کو پہنچیں اور جلد یا بدیر تم ضروراس وقت ان کی برکات دیکھو اور محسوس کروگے جب تمہاری بھلائی اور خیر کےلیے میری تقدیر یں رفتہ رفتہ حرکت میں آنے لگیں گی۔پس تمہیں بشارت ہوکہ خدا کی نصرت ومددآنے کو ہے اور وہ بہت قریب ہے۔(البقرة: ۲۱۵)کہ انجام کار کامیابی اور فتح توتمہاراہی مقدرہے۔خدا کرے کہ ایسا ہو۔خدا کرے کہ ایسا ہو۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔آمین
٭…٭…٭