صرف آخری عشرہ کی عبادتیں لیلۃ القدر دیکھنے کا باعث نہیں بن جاتیں
صحابہ تو اس بات کی گہرائی سے واقف تھے کہ صرف آخری عشرہ کی عبادتیں لیلۃ القدر دیکھنے کا باعث نہیں بن جاتیں بلکہ انسان کو اپنے مقصدِ پیدائش کو سامنے رکھتے ہوئے جب اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے بندوں کی تسلی کے لئے ان کو اپنے خاص فضل سے نوازتے ہوئے ان سے اپنے قرب کا اظہار کرنے کے لئے وہ کیفیت پیدا کر دیتا ہے، وہ حالت پیدا کر دیتا ہے جس میں ایک عابد بندے کو یہ خاص رات میسر آ جاتی ہے۔ اور ایک عجیب روحانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک مومن سے اس کے ایمانی عہد اور بندگی کے عہد کو پورا کرنے پر جس میں ہر لمحہ ایک مومن کے عمل میں ترقی نظر آتی ہے اور آنی چاہئے۔ اور رمضان کے روزے اور قرآنِ کریم کی تلاوت اور اسے سمجھنا، اور عبادتوں کے معیار اس لئے بلند کرنے کی کوشش کرنا کہ رمضان میرے معیارِ عبودیت اور بندگی کو مزید بڑھائے گا ایک خاص رات رکھی ہے۔ ایک کوشش اور شوق کے ساتھ بلند معیار حاصل کرنے کے لئے مومن جب جُت جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے پر بے انتہا مہربان ہے، جو اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ بندہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے میرے ان الفاظ کو سامنے رکھ کر کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن یعنی دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں نہ صرف اس کی دعا سنتا ہوں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ میں جو مَیں نے اپنے بندوں کے لئے ایک لیلۃ القدر کے پانے کاکہا ہے وہ بھی عطا کرتا ہوں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۷؍اگست ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۷؍ستمبر ۲۰۱۰ء)