متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(ابوسلطان)

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

تعارف حصہ دوم

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے گذشتہ سال ہونے والے دورہ امریکہ کی ڈائری کا پہلا حصہ شائع ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ گذشتہ سال تک میں نے تفصیلی ڈائری پیش کی تھی تاہم دسمبر کے ابتدا میں بوجہ نزلہ زکام طبیعت کافی خراب رہی۔ اگرچہ میں جلد ٹھیک ہو گیا تھا تاہم لکھنے میں باقاعدگی اختیار کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔

نتیجۃً چند دن ،ہفتوں میں بدل گئے پھر مہینوں میں۔یہاں تک کہ مجھے خیال آیا کہ اب اگر میں نے ڈائری مکمل کر بھی لی تو مجھے اس کو حضور انور کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے شرمندگی ہو گی۔ مجھے ڈر تھا کہ حضور انور یہ نہ فرمائیں کہ اب تو بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ تاہم چند دن قبل حضور انور نے ازخود ڈائری کی بابت استفسار فرمایا کہ اب تک کیوں مکمل نہیں ہو سکی؟ میں نے عرض کی کہ مجھے لکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا اور یہ ڈر بھی کہ اب بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔ بجائے کسی قسم کی ناراضگی کے حضور انور نے نہایت شفقت سے فرمایا:

’ابھی بہت زیادہ تاخیر نہیں ہوئی اور تم ابھی بھی اس کو مکمل کر سکتے ہواور یہ خیال مت کرو کہ تمہیں بہت تفصیلی ڈائری لکھنی پڑے گی، لکھنا شروع کردوتو چند دنوں میں مکمل ہو جائے گی۔‘

حضور انور کی شفقت نہایت غیر معمو لی تھی جومیرے ڈائری لکھنے کی طرف دوبارہ متوجہ ہونے کا سبب بنی۔ اس دوسرے حصے میں خاکسار اپنی چند یادداشتیں شامل کرے گا جو یکم اکتوبر تا۸؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء کے عرصہ میں حضور انور کے Zionمیں قیام کے آخری دن اور Dallas میں قیام کے اکثر حصہ پر محیط ہو گی۔

ایک غلط رپورٹ

یکم اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز ہفتہ زائن میں فجر کی نماز کی ادائیگی کرنے کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔ حضور انور نے مجھے چند لمحات کے لیے طلب فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ میں بعد میں دن چڑھے آپ کی قیام گاہ پر حاضر ہوں اور حضور انور کے چند روز قبل کے انٹرویو کی ریکارڈنگ ایم ٹی اے سے حاصل کر کے ہم راہ لاؤں جو Religion News Serviceکو دیا تھا۔

جیسا کہ ہدایت کی گئی تھی ناشتے کے بعد خاکسار نے مسجد کے حصہ میں گیسٹ ہاؤس پر پہنچ کر اطلاع دی جو زائن میں حضور انور کی قیام گاہ تھی۔ میں سیڑھیوں سے اوپر گیا اور ایک چھوٹے کمرے میں داخل ہوا جس کو حضور انور اپنے دفتر کے طور پر استعمال فرما رہے تھے۔

میں حضور انور سے ملنے کا مشتاق تھا تاکہ آپ کی احوال پُرسی بھی کر سکوں جیسا کہ گذشتہ چند روز سے آپ کو سخت فلو تھا۔ خاکسار نے سب سے پہلے حضور انور سے خیریت دریافت کی۔ حضور انور نے فرمایا کہ نزلہ زکام کے اثرات تو بہت شدید ہیں۔ تاہم بجائے آرام کرنے کے حضور انور اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھے۔ اگلے چند منٹ حضور انور نے اپنے انٹرویو جو RNSکو دیا تھا کی مکمل ریکارڈنگ ملاحظہ فرمائی جسے ایک (خاتون)صحافی نے گذشتہ شام نہایت مفصل طور پر تحریری صورت میں شائع کیا تھا۔

مجھے یقینی طور پر علم نہیں تھا کہ حضور انور اس انٹرویو کوکیوں ملاحظہ فرمانا چاہتے تھے لیکن اندازہ تھا کہ یہ اس مضمون میں شائع ہونے والے ایک پیراگراف کی وجہ سے تھا جہاں جرنلسٹ نے لکھا تھا کہ حضور انور نے فرمایا کہ ’یہ کسی مذہب کی فتح نہیں ہے‘۔جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور الیگزینڈر ڈوئی کے حوالے سے فرمایا تھا۔ موصوفہ نے اس سے ملحقہ حصہ کو عمداًچھوڑ دیا تھا۔

دوران انٹرویو حضور انور نے ڈوئی پر فتح کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’ اور یہ کسی مذہب کی فتح نہیں ہے۔یہ اس بات کی فتح ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ حقیقی طور پر خدا کا چنیدہ بندہ کون ہے؟اور ہمیں کسی بھی مذہب کے بارے میں گالم گلوچ نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں جملہ مذاہب کا احترام کرنا چاہیے۔‘

یوں جرنلسٹ نے جس طریق پر ا س کو لکھا تھا وہ اصل بات کو چھوڑ گئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ حضور انور یہ فرما رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کامیاب مباہلہ درحقیقت کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔تاہم پتا چلا کہ یہ جو جرنلسٹ نے حصہ حذف کیا تھا حضور انور نے اس کو نوٹ فرمایا اور شاید آپ اس کو وضاحت کے ساتھ دوبارہ بیان فرمانا چاہتے تھے۔

اصل ریکارڈنگ سننے کے بعد حضور انور نے فرمایا:’اس خاتون جرنلسٹ نے پورا سیاق و سباق بیان ہی نہیں کیا جو میں نے بیان کیا تھا اور جس طرح سے یہاں لکھا ہے وہ غلط مفہوم پیش کر رہا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فتح کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے جبکہ میں نے یہ نہیں کہا تھا۔ ڈوئی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے اور ساری بنی نوع انسان کے لیے تنبیہہ بھی۔ہمیں جملہ لوگوں کے مذہبی عقائد کا احترام کرنا چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا:’یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے پاس ریکارڈنگ ہے اور ہم کسی وقت ایم ٹی اے پر چلا سکتے ہیں۔ اس صورت میں کہ اگر کوئی اس تحریر سے پریشان (confuse)ہو۔‘

حضور انور نے مزید فرمایا:’ قرآن کریم ہمیں حکمت کے ساتھ بات کرنے کی تعلیم دیتا ہےاور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی بھی، یہی وجہ تھی کہ میں کوئی بھی سخت بات کرنے سے رکا رہا۔پھر بھی جو میں نے بیان کیا تھا وہ غلط طور پر پیش کیا گیا ہے۔‘

بعد ازاں حضور انور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا:’مجھے نہیں پتاکہ اس کا اپنا فیصلہ تھا یا اس کے ایڈیٹر کا کہ اس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا کس طرح چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔‘

میں نے حضور انور سے عرض کی کہ ہم اس جرنلسٹ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور اپنے تحفظات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ شکر ہے کہ پورا متن پڑھنے کے بعد RNS کے ایڈیٹر نے تسلیم کیا کہ وہ فقرہ حضور انور کے موقف کی مکمل وضاحت نہیں کر رہا اور اس کو تبدیل کر دیا۔

پھر مجھے حضور انور کی صحبت میں چند منٹ مزید گزارنے کا موقع ملا اور اپنے گذشتہ دنوں کے تجربات حضور انور کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع بھی ملا۔ میں نے عرض کی کہ زائن میں موجود احباب جماعت احمدیہ امریکہ روحانی طور پر بہت پُرجوش نظر آتے ہیں، خاص طور پر حضور انور کے گذشتہ روز کے خطبہ جمعہ کے بعد سے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا:’میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگوں میں اس بات کے ردعمل کے طور پر یہ جوش پیدا ہوا ہے جو میں نے بیان کیا تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کی کوششیں ختم نہیں ہوئی تھیں بلکہ درحقیقت مزید بڑھ گئی تھیں اور یوں اب زائن کے احمدیوں کے لیے آرام کا وقت نہیں ہے بلکہ اسلام کو زیادہ پُرجوش طریق سے پھیلانے کی ضرورت ہے۔‘

حضور انور کے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے حضور انور نے مجھے فرمایا کہ میں اس تَھرماس میں سے جو آپ کی میز پر رکھی ہوئی تھی آپ کے لیے قہوہ ڈال دوں۔یہ ڈاکٹر تنویر احمد صاحب نے بھجوائی تھی تاکہ حضور انور کے گلے کی تکلیف میں آرام رہے۔ کپ پکڑتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:’آج مجھے بہت زیادہ بولنا پڑے گاجیسا کہ مہمانوں کے ساتھ ملاقاتیں ہیں اور پھر مجھے خطاب بھی کرنا ہے اور ایسے خراب گلے کے ساتھ بولنا مشکل ہو جائے گا۔‘

اس موقع پر میرا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح کوئی خدمت کر سکوں تاکہ حضور کی تکلیف میں کچھ آرام کی صورت پیدا ہو سکے ۔

میں نے حضور انور کو کہا کہ حضور آپ اس قہوہ کو جس قدر ہو سکے نوش فرماتے رہیں۔

اس کے جواب میں حضور انور نے نہایت رعب کے ساتھ فرمایا:’کیا یہ قہوہ ہے، یا اللہ ہے ؟شفا صرف اللہ تعالیٰ نے دینی ہے۔ مدد اسی نے کرنی ہے ۔‘

جہاں مجھے اپنی اس تجویز پر شرمندگی محسوس ہوئی وہاں حضور انور کے توکل علی اللہ پر میں فرطِ حیرت میں ڈوب گیا۔ آپ قہوہ یا دوائی اس لیے استعمال فرماتے ہیں کہ اسلام انسان کو تدبیر کرنے کی تعلیم دیتا ہے جبکہ آپ کا کامل یقین اور توکل اس بات پر ہی ہوتا ہےکہ آپ کی صحت ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل پر ہی منحصر ہے ،جو حقیقی شافی ہے۔

براہ راست نشریات

شام چھ بجے حضور انور مار کی کی طرف تشریف لائےجس میں مسجد فتحِ عظیم کے افتتاح کے حوالے سے ایک استقبالیہ پروگرام منعقد ہونا تھا۔چند لمحے قبل مکرم منیر عودہ صاحب (ڈائریکٹر پروڈکشن ایم ٹی اے انٹرنیشنل) نے مجھے کہا کہ حضور انور کو یاد دہانی کروا دوں کہ یہ استقبالیہ ایم ٹی اے پر براہ راست نشر ہوگا۔

چنانچہ جب حضورمارکی کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو مَیں نےآپ کے قریب ہوکریاد دہانی کروا دی۔ تبسم فرماتے ہوئےحضور انور نے ازراہ تفنن فرمایا:’اگر یہ براہ راست نشر ہو رہا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ میں کیمروں کی وجہ سے محتاط ہو جاؤں؟‘

مکرم منیر عودہ صاحب اور خاکسار دونوں نے عرض کیا کہ ’نہیں ‘ اور میں نے عرض کی کہ ہم دونوں صرف حضور انور کویاد دہانی کروانا چاہتے تھے کہ یہ پروگرام براہ راست نشر ہو گا۔حضور انور نے نہایت خوبصورت جواب عطا فرمایا کہ’جس طرح میں ہوں، اسی طرح رہتا ہوں، کیمرہ ہو یا نہ ہو۔‘ (حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ امریکہ ستمبر-اکتوبر 2022ءحصہ دوم)

(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button