ہم تو دعا کرنے والے ہیں اور دعا کرتے ہیں
ہم تو دعا کرنے والے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہ مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے شروع ہے۔ آپؑ پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ آپؑ کی باتیں سننے کے لیے آنے والوں پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ بعض لوگ جو ویسے ہی جلسوں میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں کہتے کیا ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ مان بھی لیں گے لیکن ان مولویوں کو خطرہ ہوتا تھا کہ اگر انہوں نے حضرت مرزا صاحبؑ کی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سن لیں تو یہ لوگ ان کی بیعت کر لیں گے۔ ان کو پتہ تھا کہ سچائی ان کے ساتھ ہے اس لیے روکتے تھے، نہ صرف روکتے تھے بلکہ حملے بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کے لیے دعا ہی کی جو روکنے والے تھے اور اس طرح سختیاں کرنے والے تھے۔ یہ دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو باوجود مخالفت کے جماعت میں شامل ہوئے اور اب تک ہورہے ہیں۔ پس ہم تو مولوی کے اس بیان کے باوجود بھی کوئی فضول گوئی کرنے یا ان کی زبان کو استعمال کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم تو اس کے باوجود دعا ہی کرتے رہیں گے اور جیسا کہ ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ انہی میں سے قطراتِ محبت ٹپکتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ ٹپکیں گے۔ عوام الناس کے لیے، عامۃ المسلمین کے لیے ہم ان لوگوں کی سخت باتیں سننے کے بعد بھی دعا کرتے ہیں۔ ان کی تکلیفوں پر ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اس کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم ہی ہے۔ اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ ان کے یہ ظلم بھی غلط فہمی کی وجہ سے ہیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہیں جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ عمل کریں یا نہ کریں لیکن دعویٰ ضرور ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍مئی ۲۰۲۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۴؍جون۲۰۲۱ء)