عفو اور درگزر
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍ جنوری ۲۰۱۶ء)
وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ(الشوریٰ: 41) اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا۔
اسلام میں کسی غلط حرکت کرنے والے، نقصان پہنچانے والے سے چاہے وہ چھوٹی سطح پر نقصان پہنچانے والا ہو یا بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے والا ہو یا دشمن ہو ہر ایک سے ایسا سلوک کرنے کی تعلیم ہے جو اس کی اصلاح کا پہلو لئے ہوئے ہو۔ اسلام میں سزا کا تصور ضرور ہے لیکن ساتھ معافی اور درگزر کا بھی حکم ہے۔
اس آیت میں بھی جیسا کہ آپ نے سنا یہی حکم ہے کہ بدی اور برائی کرنے والے کو سزا دو لیکن اس سزا کے پیچھے بھی یہ محرّک ہونا چاہئے کہ اس سزا سے بدی کرنے والے یا نقصان پہنچانے والے اور جرم کرنے والے کی اصلاح ہو۔ پس جب اصلاح مقصد ہے تو پھر سزا دینے سے پہلے یہ سوچو کہ کیا سزا سے یہ مقصد حل ہو جاتا ہے۔ اگر سوچنے کے بعد بھی، مجرم کی حالت دیکھنے کے بعد بھی اس طرف توجہ پھرتی ہے کہ اس مجرم کی اصلاح تو معاف کرنے سے ہو سکتی ہے تو پھر معاف کر دو یا اگر سزا دینے سے ہو سکتی ہے تو سزا دو۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ معاف کرنا بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین اجر کا وارث بنائے گا۔ آخر پر اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡن کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر سزا میں حد سے بڑھنے کی کوشش کرو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔ بہرحال یہ بنیادی قانون اور اصول سزا اور اصلاح کا قرآن شریف میں پیش ہوا ہے جو ہماری انفرادی زندگی کے معاملات پر بھی حاوی ہے اور حکومتی معاملات میں بھی بلکہ بین الاقوامی معاملات میں، معاشرے کی اصلاح کے لئے بھی یہ بنیاد ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کسی مجرم کو سزا دینے کا اصل مقصد اصلاح ہے اور اخلاقی بہتری ہے۔ پس اسلام کہتا ہے کہ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف سزا پر زور نہ دو بلکہ اصلاح پر زور دو۔ اگر تو سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اصلاح ہو گی تو معاف کر دو۔ اگر حالات و واقعات یہ کہتے ہیں کہ سزا دینے سے اصلاح ہو گی تو سزا دو۔ لیکن سزا میں اس بات کا بہرحال خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا کہ سزا جرم کی مناسبت سے ہو وگرنہ اگر جرم سے زیادہ سزا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہے اور ظلم اور زیادتی کو خدا تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔
پس اسلام میں پہلے مذاہب کی طرح افراط اور تفریط نہیں ہے۔ اس کے اعلیٰ ترین نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ مجرم کی اصلاح ہو گئی ہے تو اپنے انتہائی ظالم دشمن کو بھی معاف فرما دیا۔ آپؐ پر، آپؐ کی اولاد پر، آپؐ کے صحابہ پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے لیکن جب دشمن معافی کا طالب ہوا اور خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ بھول کر معاف فرما دیا۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر مکّہ سے ہجرت کے وقت ایک ظالم شخص ھبار بن اسودنے نیزہ سے قاتلانہ حملہ کیا۔ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ اس حملے کی وجہ سے آپ کو زخم بھی آئے اور آپ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔ آخر کار یہ زخم آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوئے۔ اس جرم کی وجہ سے اس شخص کے خلاف قتل کا فیصلہ دیا گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ شخص بھاگ کر کہیں چلا گیا۔ لیکن بعد میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے تو ھبار مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں آپ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا۔ جرم میرے بہت بڑے بڑے ہیں۔ میرے قتل کی سزا آپ دے چکے ہیں۔ لیکن آپ کے عفو اور رحم کے حالات پتا چلے تو یہ چیز مجھے آپ کے پاس لے آئی ہے۔ مجھ میں اتنی جرأت پیدا ہوگئی کہ باوجود اس کے کہ مجھ پر سزا کی حد لگ چکی ہے لیکن آپ کا عفو، معاف کرنا اتنا وسیع ہے کہ اس نے مجھ میں جرأت پیدا کی اور مَیں حاضر ہو گیا۔ کہنے لگا کہ اے اللہ کے نبی ہم جاہلیت اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خدا نے ہماری قوم کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ مَیں اپنی زیادتیوں اور جرموں کا اعتراف کرتا ہوں۔ میری جہالت سے صرفِ نظر فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو بھی معاف فرما دیا اور فرمایا جا ھبار اللہ کا تجھ پر احسان ہے کہ اس نے تجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور سچی توبہ کرنے کی توفیق دی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 22صفحہ 431 مسند النساء ذکر سن زینب… حدیث 1051 والسیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 131-132 ذکر مغازیہﷺ فتح مکۃ … دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شاعر کعب بن زھیر تھا جو مسلمان خواتین کے بارے میں بڑے گندے اشعار کہا کرتا تھا اور ان کی عصمت پر حملے کیا کرتا تھا۔ اس کی بھی سزا کا حکم جاری ہو چکا تھا۔ جب مکّہ فتح ہوا تو کعب کے بھائی نے اسے لکھا کہ مکہ فتح ہو چکا ہے بہتر ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لو۔ چنانچہ وہ مدینے آ کر اپنے ایک جاننے والے کے ہاں ٹھہرا اور فجر کی نماز مسجدنبوی میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی اور پھر اپنا تعارف کرائے بغیر کہا کہ یا رسول اللہ کعب بن زھیر تائب ہو کر آیا ہے اور معافی چاہتا ہے۔ اگر اجازت ہو تو اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ آپؐ کیونکہ اس کی شکل سے واقف نہیں تھے۔ اسے جانتے نہیں تھے یا ہو سکتا ہے اس وقت کپڑا اوڑھا ہو اور باقی صحابہ نے بھی نہ پہچانا ہو۔ بہرحال وہاں کسی نے اسے پہچانا نہیں۔ اس لئے آپ نے فرمایا ہاں آ جائے تو اس نے کہا کہ مَیں ہی کعب بن زھیر ہوں۔ اس پر ایک انصاری اٹھے اور اسے قتل کرنے لگے کیونکہ اس کے جرموں کی وجہ سے اس پر بھی قتل کی حد لگ چکی تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت فرماتے ہوئے فرمایا کہ اب اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے۔ پھر اس نے ایک قصیدہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک خوبصورت چادر انعام کے طور پر اسے دے دی۔
پس یہ دشمن جس کی سزا کا حکم جاری ہو چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار سے نہ صرف جان بخشوا کر گیا بلکہ انعام لے کر بھی لوٹا۔ تو اس طرح کے اور بہت سارے واقعات ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتے ہیں۔ جب آپ نے اصلاح کے بعد اپنے ذاتی دشمنوں کو بھی معاف فرمایا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے دشمنوں کو بھی معاف فرمایا اور اسلام کے دشمنوں کو بھی معاف فرمایا۔ لیکن جہاں اصلاح کے لئے سزا کی ضرورت تھی، اگر سزا کی ضرورت پڑی تو آپ نے سزا بھی دی۔ تو اس اہم حکم کی اہمیت کے پیش نظر اصل مقصد یہ ہے کہ تم نے اصلاح کرنی ہے نہ کہ انتقام لینا ہے۔