متفرق مضامین

چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی تین ہزار سال پرانی ہے

(عبدالسمیع خان)

۱۸۹۴ء میں پوری ہونے والی قرآن،حدیث، صحف سابقہ اور اہل اللہ کی پیشگوئیاں مسیح موعود کی ایک عظیم علامت

کسوف و خسوف کا وہ نشان جو سورج اور چاند کی طرح آسمان پر چمک رہا ہو، قرآن نے اسے یوم القیامہ کا نام دے کر مسیح موعود کےعظیم انقلاب کے پیش خیمہ کے طور پر عظمت کے ساتھ پیش کیا ہو،احادیث میں اس کی تفصیل اور انفرادیت کا ذکر ہو،ہزاروں سالوں سے نبیوں کی زبانوں پر جاری ہو،صلحائے امت اس کی گواہی دیتے چلے آ رہے ہوں اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے اسے دو دفعہ زمین کے ہر کرہ پر دکھا دیا ہو،مشرق و مغرب نے اس کا نظارہ کیا ہو، اس کو چند موہوم اعتراضات کے بل پر رد کرنا کسی عقل مند کا کام نہیں

امت محمدیہ میں آنے والے امام مہدی اور مسیح موعود کی علامات میں ایک بہت عظیم الشان علامت رمضان میں سورج اور چاند گرہن کی پیشگوئی ہے۔ یہ پیشگوئی قریباً ۳۰۰۰ سال سے چلتی آ رہی ہے یعنی اس کا سب سے قدیم ماخذ عہد نامہ قدیم میں یوئیل نبی کا بیان ہے جن کا زمانہ ۹۰۰ سال قبل مسیح ہے۔ بہت جگہ استعاروں اور اشاروں کی زبان استعمال ہوئی ہے جو پیشگوئیوں کا خاصہ ہے اور جوں جوں اس کے ظہور کا زمانہ قریب آتا گیا پیشگوئی نسبتاً واضح ہوتی گئی مگر الٰہی سنت کے مطابق پردے حائل رہے اور بہت کم لوگ حقیقت کو پہچان سکے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ خبر قرآن و حدیث کے علاوہ بائبل (توریت و انجیل )نیز ہندو اور سکھ مذہب میں بھی ملتی ہے۔اگر آپ ان پیشگوئیوں پریکجائی نظر ڈالیں گے اورخدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو مد نظر رکھیں گے تو سچائی کو پا لیں گے۔پیشگوئیوں کی اس ترتیب میں قرآن کریم سے آغاز کیا گیا ہے کیونکہ وہی ابدی سچائی اور فیصلہ کن کلام ہے۔

قرآن کریم

۱۔ يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ۔ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔ (القیامۃ: ۷تا۱۰) وہ پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہو گا تو (جواب دے کہ) جب نظر چند ھیا جائے گی اور چاند گہنا جائے گا اور سورج اور چاند اکٹھے کیے جائیں گے۔

عام طور پر قیامت سے مراد اخروی قیامت لی جاتی ہے مگر جب یہ کائنات تمام ستاروں اور سیاروں سمیت فنا ہو جائے گی تو سورج اورچاند کے گرہن کا کیا مطلب ہے۔ دراصل قرآنی اور روحانی اسلوب کے مطابق قیامت اور ساعت سے مراد عظیم روحانی یا سیاسی انقلابات ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اور دوسری پیشگوئیوں کے حوالہ سے یہاں قیامت سے مراد مسیح موعود کا زمانہ ہے اور بَرِقَ الْبَصَرُ سے مراد یہ ہے کہ انسان کی ظاہری آنکھ بہت ترقی کرے گی اور دور تک دیکھنے لگے گی۔ سائنسی ترقی کی وجہ سے انسان کی نظر تیز ہو جائے گی گویا برق رفتار ہوجائے گی۔ یہ وہی محاورہ ہے جسے سائنسی زبان میں روشنی کی رفتار یا Speed of Lightکہتے ہیں دیگر سائنسی ترقیات کے ساتھ ساتھ انسان نے دور بین کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا اور نئی نئی کہکشاؤں کو دریافت کیا۔ آج بھی خلائی دور بین جیمزویب کروڑوں نوری سال دور کی خبریں لا رہی ہے۔ایسا ہی مضمون رسول کریمﷺ نے دجال کے ضمن میں بیان فرمایا کہ اس کی دائیں آنکھ یعنی دین کی آنکھ اندھی ہو گی مگر بائیں آنکھ یعنی دنیا کی آنکھ بہت روشن ہو گی۔فرمایا دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال حدیث نمبر ۶۵۸۹ )اس کی بائیں آنکھ بہت چمکتی ہوئی ہو گی گویا کہ وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ (کنزالعمال جلد۱۴صفحہ۱۳۷ خروج الدجال حدیث ۳۸۷۸۴)

اس آیت میں چاند گرہن کا واضح ذکر ہے اور سورج اور چاند کے جمع ہونے کا مطلب ایک مہینہ یعنی رمضان میں ان دونوں کا گرہن ہے جیسا کہ حدیث میں وضاحت ہے۔

۲۔إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ۔ (التکویر:۲۔۳) جب سورج کو ڈھانپ دیا جائے گا اور ستارے دھندلے پڑ جائیں گے۔

اسلامی اصطلاح میں روحانی دنیا کے سورج رسول کریمﷺ ہیں اور ستاروں سے مراد صحابہ اور بزرگ علما٫ہیں یعنی رسول اللہﷺ اور صحابہ کی اتباع ترک کر دی جائے گی جیسا کہ قرآن و حدیث میں کثرت سے خبریں ہیں۔مسلمانوں کی اس حالت کا نقشہ ظاہری سورج اور چاند کے گرہن کی شکل میں دکھایا جائے گا۔

احادیث رسولﷺ

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىٍّ قَالَ إِنَّ لِمَهْدِيّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ تَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ۔(سنن دار قطنی کتا ب العیدین باب صفة صلوٰة الخسوف حدیث نمبر ۱۷۹۵ مصنف علی بن عمر وفات ۳۸۵ ھ)حضرت محمد بن علی سے روا یت ہے کہ ہمارے مہدی کے لیے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین وآسمان پیدا کیے گئے کبھی ظہور میں نہیں آئے یعنی یہ کہ چاند کو ماہ رمضان میں پہلی تاریخ کو اور سورج کو درمیان والے دن گرہن ہو گا۔ اور جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا یہ دو نشان کبھی ظاہر نہیں ہوئے۔

یاد رکھنا چاہیےکہ سورج اور چاند گرہن تب ہوتے ہیں جب یہ تینوں ایک قطار میں آ جائیں۔سائنسی اور فلکیاتی طور پر یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب چاند کی ۱۳۔۱۴۔۱۵تاریخیں ہوں اور چاند کے ہی حساب سے سورج کی ۲۷۔۲۸۔۲۹ تاریخیں ہوں۔ ان کے علاوہ گرہن ناممکن ہیں۔ پس حدیث سے مراد ہے کہ چاند کی گرہنوں والی تاریخ میں سے پہلی یعنی ۱۳؍رمضان اور سورج کی تاریخوں میں سے درمیانی یعنی ۲۸؍رمضان کو گرہن ہو گا اور مدعی مہدویت موجود ہو گا۔یہ نشان کبھی کسی اور مامور من اللہ کے لیے ظاہر نہیں ہوا۔

یہ روایت بزرگ تابعی ابو جعفر حضرت امام باقر (۵۷ھ تا ۱۱۴ ھ)سے مروی ہے جو حضرت حسین ؓبن علی ؓکے پوتے ہیں۔ آپ اہل تشیع کے پانچویں امام ہیں۔ امت محمدیہ میں یہ بات معروف ہے کہ اہل بیت اپنی روایات عام طور پر رسول اللہﷺ تک نہیں پہنچاتے مگر ان کی پیشگوئیوں کی سند رسول اللہﷺ تک پہنچتی ہے۔ سارا شیعہ لٹریچر اس پر گواہ ہے۔اور خاص طور پر جو پیشگوئی پوری ہو جائے اس کے متعلق عقل عام کا تقاضا ہے کہ اس کی سند جتنی مرضی کمزور ہو وہ حدیث واقعہ میں صحیح کہلائے گی کیونکہ خدا کسی جھوٹے کی بات پوری کرنے کا پابند نہیں ہے بلکہ اس کے الٹ کرتا ہے اور وہ پیشگوئی جو متعدد سندوں اور طریقوں سے مروی ہو اور بہت سے بزرگ اور خدا رسیدہ اس کی گواہی دیتے چلے آئے ہوں اس کی تو سند بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔

تائیدی احادیث

اس مذکورہ حدیث کی تائیدکئی دوسری روایات سے ہوتی ہے۔پہلی روایت میں رسول اللہﷺ کا قو ل ہے اور الفاظ کا معمولی فرق ہے۔

وظهوره يكون بعد أن يكسف القمر في أول ليلة من رمضان، وتنكسف الشمس في النصف منه مثل ذالك لم يوجد منذ خلق اللّٰه السموات والأرض (السیرۃالحلبية۔انسان العيون في سيرة الأمين المأمون جلد ۱ صفحہ ۲۷۹۔ مصنف علی بن ابراہیم وفات ۱۰۴۴ھ)یعنی مہدی کا ظہور کسوف قمر کے بعد ہو گا جو رمضان کی پہلی رات کو ہو گا اور سورج کو نصف رمضان کو گرہن ہو گا ایسا نشان تخلیق ارض و سما کے بعد کبھی نہیں ہوا۔

اما م باقر کی مذکورہ بالا روا یت تھوڑے فرق کے ساتھ شیعہ لٹریچر میں ان الفاظ میں موجود ہے :قال ابو جعفر آیتان تکونان قبل القائم لم یکونا منذ ھبط آدم علیہ السلام الی الارض تنکسف الشمس فی النصف من شہر رمضان والقمر فی آخرہ فقال الرجل یاابن رسول اللّٰہ تنکسف الشمس فی آخر الشہر والقمر فی النصف فقال ابو جعفر انی لاعلم بما تقول ولکنھماآیتان لم یکونا منذ ھبوط آدم (بحار الانوار جلد ۵۲ صفحہ ۲۱۴۔مصنف محمد باقر مجلسی۔۱۰۳۷ھ تا ۱۱۱۵ھ )امام باقر نے کہا دو نشان ہیں جو امام قائم سے پہلے رونما ہوں گے اور وہ آدم کے زمین پر آنے کے بعدکبھی ظاہر نہیں ہوئے سورج کو ماہ رمضان کے نصف میں اور چاند کو آخر رمضان میں گرہن ہو گا اس پر ایک شخص نے کہا اے رسول اللہﷺ کے بیٹے! سورج کو آخر رمضان میں اور چاند کو نصف میں گرہن ہو گا تو امام باقر نے کہا تم جو کہہ رہے ہو میں جانتا ہوں مگر یہ دو ایسے نشان ہیں جو ہبوط آدم سے کبھی واقع نہیں ہوئے۔

دیگر کتب جن میں یہ حدیث موجودہے

دار قطنی والی یہ حدیث کئی علماء نے اپنی کتب میں درج کی ہے مثلاً

٭…الحاوی للفتاویٰ جلد ۲صفحہ۷۸۔کتاب الادب والرقائق۔العرف الوردی فی اخبار المھدی۔از امام جلال الدین سیوطی (المتوفیٰ۹۱۱ھ)

٭…الفتاویٰ الحدیثیہ جلد۱صفحہ۳۰۔از ابن حجرالہیتمی۔(المتوفیٰ ۹۷۴ھ )

٭…مرقاة المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد ۸صفحہ ۳۴۴۸،کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ باب از ملا علی قاری (۹۳۰ھ تا ۱۰۱۴ھ)

٭…التذکرہ فی احوال الموتیٰ صفحہ۶۱۹۔ازعلامہ شمس الدین قرطبی۔(۶۰۰ھ تا۶۷۱ھ)

٭…حجج الکرامہ صفحہ۳۴۴۔نواب صدیق حسن خان(۱۲۴۸ ھ تا۱۳۰۷ بمطابق ۱۸۳۲ء ۱۸۹۰ء)

مزید احادیث

دارقطنی کی حدیث کے علاوہ بہت سی روایات میں تاریخوں کےفرق کے ساتھ چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی موجود ہے۔اور مسلمانوں کے دونوں بڑے فرقوں یعنی سنی اور شیعہ لٹریچر دونوں میں پائی جاتی ہے مثلاً

٭…قَبْلَ خُرُوجِ الْمَهْدِيِّ تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مَرَّتَيْنِ۔مہدی کے خروج سے پہلے رمضان میں سورج کو دو مرتبہ گرہن لگے گا۔(الفتن باب ما یذکر من علامات السما۔جلد ۱ صفحہ ۲۲۹ مصنف نعیم بن حماد وفات ۲۲۸ ھ۔عقد الدرر جلد ۱ صفحہ ۱۷۶ باب ۴ فصل ۳ فی الصوت از یوسف بن یحییٰ متوفی ۶۵۸ھ)

سورج کو دو مرتبہ گرہن سے مراد محاورہ میں سورج اور چاند ہو سکتے ہیں جیسا کہ عربی اور قرآن کے استعمال سے ثابت ہے مثلاً ظہرین سے مراد نماز ظہر وعصر ہیں۔نیز عملاً مشرق و مغرب میں دو مرتبہ گرہن نظر آیا۔

٭ بحارالانوار از علامہ باقر مجلسی کی جلد ۵۲ میں متعدد مقامات پر کسوف و خسوف کی پیشگوئی ہے مثلاً اجتمع الشمس والقمر ( صفحہ ۱۲ ) یہ وہی الفاظ ہیں جو قرآن نے استعمال کیے ہیں وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔یہ بھی ذکر ہے کہ رمضان میں چاند کو ۵؍ اور سورج کو ۵؍ یا ۱۵؍تاریخ کو گرہن ہوگا (صفحہ۲۰۷)یہ بھی روایت ہے کہ سورج کو رمضان کی نصف اور چاند کو آخری تاریخ کو گرہن ہو گا (صفحہ۲۱۴ )ایک روایت میں رمضان میں سورج کی ۱۳؍ یا ۱۴؍ کا ذکر ہے۔ (صفحہ۲۴۳)رمضان میں سورج کو ظہر کے وقت ڈھانپ دیا جائے گا۔(بحار الانوار جلد ۵۳ صفحہ ۸۴)

٭…اکمال الدین صفحہ۶۱۴ ازمحمد بن علی بابویہ القمی (متوفی ۳۸۱ھ)

٭…الفروع من الکافی۔ جلد۸صفحہ۲۱۲۔از محمد بن یعقوب الکلینی( ۲۵۸ھ تا ۳۲۹ھ)

٭…طلع بالمشرق القرن ذو السنين…يكون طلوعه بعد انكساف الشمس والقمر(عقدالدررجلد۱صفحہ۔۱۷۴۔ از یوسف بن یحییٰ متوفی ۶۵۸ھ) امام مہدی کے لیے مشرق میں ستارہ ذوالسنین طلوع ہو گا اور یہ سورج چاند گرہن کے بعد ہو گا۔یہ ستارہ بھی مسیح موعود کے زمانہ میں طلوع ہو چکا ہے۔

٭…تفسیر صافی جلد۲صفحہ۷۶۵۔از محمد بن مرتضیٰ المعروف فیض کاشانی(۱۰۰۷ ھ تا۱۰۹۱ ھ مطابق ۱۵۹۸ء تا ۱۶۸۰ء)

پس تاریخوں کے اختلاف کے باوجود چاند اور سورج کا گرہن مہدی کی ایک اہم علامت مسلم ہے اور عملی وقوع کے اعتبار سے چاند کی ۱۳؍ کا ذکر بھی ہے اور سورج کی نصف یعنی ۲۸؍ کا بھی ہے۔

مزید اشارے

اس کے علاوہ مزید دو طرح سے اس نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

۱۔مہدی کے وقت سورج میں کوئی اہم نشان ظاہر ہو گا جیسے عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَا يَخْرُجُ المهدي حَتَّى تَطْلُعَ مَعَ الشَّمْسِ آيَةٌ ( الحاوی للفتاویٰ جلد ۲صفحہ۷۸۔کتاب الادب والرقائق۔العرف الوردی فی اخبار المھدی۔ بحار الانوار جلد ۵۲ صفحہ ۲۱۷)امام مہدی کے وقت سورج کے ساتھ نشان ظاہر ہو گا۔

۲۔امام مہدی کے وقت رمضان میں کوئی خاص آواز بلند ہو گی عن أبي أمامة، قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: يكون في رمضان صوت قالوا: يا رسول اللّٰه، في أوله أو وسطه أو في آخره؟ قال: بل في النصف من شهر رمضان(عقد الدرر جلد ۱ صفحہ ۱۶۵ باب ۴ فصل ۳ )رسول اللہﷺ نے فرمایا رمضان میں ایک آواز آئے گی۔ صحابہ نے پوچھا آغاز میں یا درمیان میں یا آخر مہینہ میں؟ فرمایا نصف رمضان میں۔

حضرت شہر بن حوشب سے بھی رمضان میں صوت کا ذکر ہے عن شهر بن حوشب، قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: سيكون في رمضان صوت(عقد الدرر جلد ۱ صفحہ ۱۶۸ باب ۴ فصل ۳) قيل له وما الصوت؟ قال: هاد من السماء يوقظ النائم، ويفزع اليقظان، ويخرج الفتاة من خدرها، ويسمع الناس كلهم، فلا يجيء رجل من أفق من الآفاق إلا حدث أنه سمعه. (عقد الدرر جلد ۱ صفحہ ۱۶۹ باب ۴ فصل ۳ )پوچھا گیا صوت کیا ہے تو فرمایا آسمان سے ایک ہادی جو سوئے ہوئے کو جگا دے گا جاگنے والے کو پریشان کر دے گا لڑکی اپنی اوڑھنی سے نکل آئے گی اور سب لوگ سنیں گے اور آفاق عالم میں ہر کوئی اس کے سننے کا ذکر کرے گا،اس میں اس نشان کے عالمی ہونے اور بعد میں مسیح موعود کی جماعت کے عالمی مواصلاتی نظام(MTA) کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے جو گرہنوں کے پورے ۱۰۰ سال بعد ۱۹۹۴ء میں عالمگیر شکل میں ظاہر ہوا۔

ایک روایت میں ہے صیحۃ من السما٫ فی شہر رمضان (بحار الانوار جلد ۵۱ صفحہ ۲۱۸) عبد اللہ بن مسعود کی روایت میں رسول اللہ کے پوچھنے پر صیحہ کا ترجمہ ھدۃ کیا اور اس کے بعد عظیم انقلابات اور زلازل کا ذکر کیا (عقد الدرر جلد ۱ صفحہ ۱۶۷ باب ۴ فصل ۳ ) ایک روایت میں ہے کہ امام مہدی کی پانچ علامات ہیں پہلی یہ ہے کہ اولھن الندا٫ فی شہر رمضان (بحار الانوار جلد ۵۲ صفحہ ۱۱۹)رمضان میں آسمان سے شدید آواز آئے گی۔شہر اللّٰہ تعالیٰ فیہ ینادی باسم صاحبکم واسم ابیہ۔(بحار الانوار جلد ۵۲ صفحہ ۲۷۲)رمضان اللہ کا مہینہ ہے جس میں تمہارے صاحب (مہدی )اور اس کے باپ( رسول اللہﷺ )کے نام کی ندا کی جائے گی۔اس ندا سے مراد گرہن کا نشان ہے جس کی خبر سب کو ہو جائے گی۔

کتب علمائے اسلام
شیخ اکبر ابن عربی
(۵۶۰ھ تا ۶۳۸ھ مطابق ۱۱۶۵ء تا ۱۲۴۰ء)

ظهوره يكون من بعد مضيّ (خ ف ج) من الهجرة۔ امام منتظر کا ظہور ہجرت سے خ ف ج گزرنے کے بعد ہو گا۔ (تاریخ ابن خلدون جلد۱ صفحہ ۴۰۴۔فصل ۵۳۔ فی امر الفاطمی ) خ ف ج کے اعداد بحساب جمل ۶۸۳ ہیں اس عرصہ میں امام مہدی ظاہر نہیں ہوا بعد میں پیشگوئی کا مطلب یہ کھلا کہ اس پیشگوئی کے ۶۸۳ ہجری سال بعدیہ واقعہ ہو گا۔ابن عربی کی وفات ۶۳۸ھ کی ہے اور یہ بات انہوں نےقریباً ۱۰ سال قبل لکھی یعنی ۶۲۸ ھ میں۔اب ۶۲۸ میں ۶۸۳ جمع کریں تو ۱۳۱۱ ھ بنتا ہے اس سے امام مہدی کا زمانہ بھی متعین ہو گیا یہی وہ سال ہجری ہے جب یہ گرہن ہوا اور مدعی مہدویت قادیان میں موجود تھا۔

امام عبدالوہاب شعرانی
(۸۹۷ھ تا ۹۷۳ھ بمطابق ۱۴۹۱ءتا۱۵۶۵ء)

سورج کو رمضان کے مہینہ میں مہدی کے خروج سے پہلے دو مرتبہ گرہن لگے گا۔ (مختصر تذکرہ القرطبی صفحہ۱۴۸ مطبوعہ ۱۹۳۹ء)

علامہ باقر مجلسی۔( ۱۰۳۷ ھ تا ۱۱۱۰ھ)

میں زیادہ بہتر جانتا ہوں تم تو صرف باتیں بناتے ہو حالانکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ایسے نشانات ہیں جو آدم سے لے کر کبھی ظاہر نہیں ہوئے۔ (بحارالانوار جلد ۱۳صفحہ۱۵۸ باب علامات ظہورہ)

شاہ رفیع الدین دہلوی۔( ۱۱۶۳ھ تا ۱۲۳۳ھ بمطابق ۱۷۵۰ء تا ۱۸۱۸ء)

امام مہدی کے واقعہ کی یہ علامت ہو گی کہ اس سے پہلے کے رمضان میں سورج اور چاند گرہن واقعہ ہوں گے۔ (قیامت نامہ صفحہ۴مطبع مجتبائی دہلی)

حضرت سید نورالدین المعروف شاہ نعمت اللہ ولی (۵۶۰ ھ ) اپنے الہامی قصیدہ میں ۱۲ ویں صدی کے بعد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ماہ را روسیاہ می نگرم

مہر را دلفگار می بینم

یعنی میں چاند کاچہرہ سیاہ دیکھ رہا ہوں اور سورج کا دل زخمی دیکھ رہا ہوں۔ (حضرت نعمۃاللہ ولی اور ان کا اصلی قصیدہ۔قمر اسلام پوری۔مکتبہ پاکستان لاہور ۱۹۷۲ء)

مولوی حافظ محمد بن بارک اللہ لکھو کے۔ایک شعر میں لکھتے ہیں :

تیرھویں چن ستہیویں سورج گرہن ہوسی اس سالے

اندرماہ رمضانے لکھیا ہک روایت والے

(احوال الآخرت پنجابی صفحہ۲۳بیان علامات کبریٰ قیامت۔یہ ۱۸۶۰ء کی تصنیف ہے )غلطی سے ۲۸کی بجائے ۲۷کا ذکر کیا ہے۔

علامہ محمد عبدالعزیز پرہاروی ملتانی(۱۷۹۲۔۱۸۲۴ء) ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں پرہار کے نامور اور چشتیہ خاندان کے عالم تھے اور علم ابجد کے بہت ماہر تھے۔ انہوں نے ایک فارسی شعر میں کسوف و خسوف کا سنہ بھی بیان کیا ہے۔

در سنہ غاشی ہجری دو قران خواہد بود…از پئے مہدی ودجال نشان خواہد بود

یعنی سنہ ’’غاشی‘‘ہجری میں دو گرہن ظاہر ہوں گے جو مہدی اور دجال کے ظہور کی علامت ہوں گے غاشی کے اعداد ۱۳۱۱ ہیں۔ (احوال و آثار علامہ عبد العزیز پرہاروی از متین کاشمیری صفحہ ۱۳۳۔نومبر۲۰۱۳ء بہار اسلامی پبلی کیشنز گجر پورہ سکیم لاہور۔اخبار بدر قادیان ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء۔الفضل انٹر نیشنل ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء)

عہد نامہ قدیم۔ جس میں کم از کم پانچ نبیوں کی پیشگوئیاں موجود ہیں
۱۔ یو ئیل نبی ( ۹۰۰ ق م)کی پیشگوئی

وہ رسول کریمﷺ کے دور اول کی بشارت کے بعد آپ کے دوسرے دور کی خبر بھی دیتے ہیں۔میں ہر فرد بشر پر اپنی روح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوت کریں گے تمہارے بوڑھے خواب اور جوان رؤیا دیکھیں گے۔پھر فرمایا: میں آسمان میں اور زمین میں عجائبات ظاہر کروں گا یعنی خون اور آگ اور دھوئیں کا غبار، پیشتر اس کے کہ خداوند کا خوفناک روز عظیم آئے سورج تاریک اور چاند خون بن جائے گا۔ (یوئیل باب ۲آیات ۳۱، ۳۰) اس میں آخری زمانہ میں اللہ کی طرف سے خاص روحانی برکات اور رؤیا،کشوف کی بشارت ہےخون سے مراد قتل و غارت،آگ اور دھوئیں سے مراد عالمی جنگیں ہیں۔اسی تسلسل میں اسلام کے غلبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند کا دن انفصال کی وادی میں آ پہنچا سورج اور چاند تاریک ہو جائیں گے اور ستاروں کا چمکنا بند ہو جائے گا۔ (یوئیل باب ۳آیت ۱۵)ستاروں کے بےنور ہونے سے مراد ستاروں کا گرنا ہے اور یہ بھی زمانہ مسیح موعود کی علامت ہے۔

۲۔عاموس نبی (۷۸۳تا۷۴۳ ق م) کی پیشگوئی

اس روز ایسا ہو گا مالک خداوند کا فرمان ہے کہ میں سورج کو دوپہر ہی کو غروب کردو ں گا اور روز روشن میں ہی زمین کو تاریک کر دوں گا۔(عاموس باب ۸آیت ۹)اس کے بعد عالمی جنگوں کی خبر ہے۔

۳۔یسعیاہ نبی (۷۶۹تا۶۹۳ق م) کی پیشگوئی

خداوند کا دن آ رہا ہے…آسمان کے ستارے اور ان کے کواکب بے نور ہو جائیں گے اور ابھرتا ہوا سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا۔ (یسعیاہ باب۱۳آیت۱۰،۹)

۴۔یرمیاہ نبی ( ۶۲۶ تا ۵۸۸ق م) کی پیشگوئی

اے یروشلم کون تجھ پر رحم کرے گا…اس کے بعد خدا کے عذابوں کی خبر ہے۔ پھر فرمایا:اس (یروشلم) کا سورج دن ہی کو غروب ہو جائے گا۔ (یرمیاہ باب ۱۵آیت ۹)

۵۔حزقیل نبی (۵۹۳تا۵۷۱ق م) کی پیشگوئی

خدا کی ناراضگی کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا: جب میں تجھے نابود کروں گا تو آسمان کو تاریک اور اس کے ستاروں کوبے نور کر دوں گا۔ اور سورج کو بادل سے چھپاؤں گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا۔(حزقیل باب ۳۲آیت ۷)

عہد نامہ جدید۔یعنی اناجیل جس میں بھی پانچ مقامات پر ذکر ہے

متی کی انجیل

اپنی آمد ثانی کی علامات بیان کرتے ہوئے مسیح ؑ نے فرمایا:ابن آدم کا آنا ہو گا…اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعدسورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے۔ اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی تب ابن انسان کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا۔ (متی باب۲۴آیت۳۰،۲۹)

مرقس کی انجیل میں لکھا ہے

قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی… اس مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان کے ستارے گریں گے۔(مرقس باب ۱۳آیت ۸، ۲۵، ۲۴)

لوقا کی انجیل میں ہے

یروشلم غیر قوموں سے پامال ہوتا رہے گا اور سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہوں گے۔ (لوقا باب ۲۱آیت۲۴، ۲۵ )رسولوں کے اعمال میں یوئیل نبی کی پیشگوئی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے۔خون اور آگ اور دھوئیں کا بادل دکھاؤں گا۔سورج تاریک اور چاند خون ہو جائے گا پیشتر اس کے کہ خداوند کا عظیم اور جلیل دن آئے۔ (رسولوں کے اعمال باب ۲آیت ۱۷ تا ۲۰)

یوحنا عارف اپنی ایک طویل رؤیا میں بیان کرتے ہیں

سورج کمل (اونی لباس ) کی مانند کالا اور سارا چاند خون کی طرح ہو گیا اورآسمان کے ستارے اس طرح زمین پر گر پڑے جس طرح انجیر کے درخت سے اس کے کچے پھل گر پڑتے ہیں۔ (مکاشفہ باب ۶آیت ۱۳،۱۲)

ہندو مت کی کتب
بھجن مہاتما سورداس جی کی پیشگوئی

ہندو مذہب میں مہاتما سورداس جی کا مقام خدا رسیدہ لوگوں میں بہت بلند ہے اور ان کے اقوال ہندو قوم کے لیے حجت ہیں۔ وہ شری کرشن جی کی بعثت ثانی کی علامات اپنے شعروں میں یوں بیان کرتے ہیں: چاند اور سورج کو راہو پکڑ کر کھا لے گا۔ اس دور میں موتا موتی بہت ہو گی۔ اس وقت کلکی اوتار شری کرشن جی مبعوث ہو کر لوگوں کی اصلاح کر رہے ہوں گے۔ ایسا یوگ (اجتماع اجرام فلکی وگرہن) ۱۹۰۰ سال بکرمی (۱۸۴۴ء) گزرنے کے بعد واقع ہو گا۔ (سورسا گر مجموعہ کلام مہاتما سورداس جی منقول از چیتاونی صفحہ۱۰۳،۱۰۲)

بھاگوت پران کی پیشگوئی

ہندوؤں کی اہم کتاب شریمد بھاگوت پران میں ہے کہ چاند اور سورج پک نشتر (چاند اور سورج کی خاص منزل) میں جمع ہو جائیں گے تب ست یگ (سنہری دور) شروع ہو گا۔ (بھاگوت پران، اشلوک ۲۴ادھیائے نمبر ۲)

سکھ مت کی کتب
گوروگرنتھ جی کی پیشگوئی

سکھ مذہب کی مقدس کتاب گوروگرنتھ کے ایک اقتباس اور اس کی شرح میں لکھا ہے مہاراجہ کرشن جب منہ کلنک ہو کر تشریف لائیں گے تو اس وقت سورج اور چاند اس کے ساتھ ہوں گے۔ اور اس کی صداقت پر گواہ ہوں گے۔ (گوروگرنتھ صفحہ۱۴۰۳)

پیشگوئیوں کا ماحصل

مندرجہ بالا کثیر پیشگوئیوں پر یکجائی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہےکہ

۱۔امام مہدی کے اس نشان کی جڑیں قرآن شریف میں ہیں۔

۲۔قرآن سے پہلے الہامی صحیفوں توریت و انجیل میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔

۳۔ہندو اور سکھ مذہب میں اس کا اشارہ موجود ہے۔

۴۔اس نشان کی تاریخوں کی تفصیل احادیث رسولﷺ میں پائی جاتی ہے جو قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔

۵۔کچھ روایات رسول اللہﷺ تک پہنچتی ہیں اور کچھ اہل بیت رسولﷺ تک۔جن کے متعلق خیال کیا جا تا ہے کہ وہ بھی رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے۔

۶۔ یہ نشان سنی اور شیعہ لٹریچر دونوں میں موجود ہے کہیں وضاحت سے ہے اور کہیں اشاروں میں۔جیسے سورج میں نشان ہونا۔

۷۔علمائے اسلام نے اس نشان کو اپنی کتب میں کثرت سے بیان کیا ہے اور ہر زمانہ میں کیا ہے بعض نے تو اس کا سنہ ظہور بھی بتا دیا ہے۔

۸۔تاریخوں میں فرق ہے مگرعلما ٫ نشان پر متفق ہیں اور لوگ اس نشان کا انتظار کر رہے تھے۔

۹۔ان سب امور کے ہوتے ہوئے کیا یہ اصرار درست ہے کہ دارقطنی کی روایت ضعیف ہے۔ اصول حدیث کے مطابق بھی اگر کوئی روایت ضعیف راویوں سے مروی ہو لیکن اس کی سندیں متعدد ہوں یا اس کی تائیدی روایات ہوں تو وہ ضعیف نہیں رہتی جیسے ایک بچہ ایک پہلوان کے مقابل کھڑا ہو مگر اس کے ساتھ حمایتی بہت ہوں تو وہ کمزور نہیں رہتا۔

۱۰۔وہ پیشگوئی جو صدیوں بعد پوری ہو جائے اس کی روایت کیسے جھوٹی ہو سکتی ہے تعجب ہے۔

عظیم نشان کا ظہور

حضرت مسیح موعود و مہدی معہود مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے ۱۸۸۲ء میں ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور ۱۸۸۹ء (۱۳۰۶ ھ) میں جماعت کی بنیاد رکھی جس کے پانچ سال بعد یہ نشان ظاہر ہوا اس کی تفصیل یہ ہے۔

۱۔۱۸۹۴ء یا ۱۳۱۱ھ کا رمضان ۹؍ مارچ تا ۷؍اپریل رہا۔ اس دوران ۲۱؍مارچ ۱۸۹۴ء بمطابق ۱۳؍رمضان ۱۳۱۱ھ چاند گرہن ہوا۔

۲۔اور ۶؍اپریل ۱۸۹۴ء بمطابق ۲۸؍رمضان ۱۳۱۱ھ سورج گرہن واقع ہوا۔

۳۔یہ نشان اس طرح بھی پوری ہوا کہ چاند کو رات کے اول حصہ میں گرہن لگا اور سورج کو دن چڑھے۔

۴۔ قادیان جغرافیائی طور پر اس خطہ میں تھا جہاں سے یہ گرہن مکمل اور صاف نظر آ سکتا تھا۔ مدعی مہدویت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اس جگہ موجود تھے۔ انہوں نے خود یہ نشان دیکھا اور ایک جماعت کے ساتھ نماز کسوف پڑھی۔

۵۔امام مہدی نے اس نشان کو اپنی صداقت میں پیش فرمایا۔ اور اس پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دیے۔انہوں نے یہ چیلنج دیا کہ کبھی کسی مامور کے لیے رمضان میں یہ نشان ظاہر ہونا ثابت کیا جائے تو اس کو ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔(نور الحق حصہ دوم،روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۲۱۱)

۶۔ ٫۱۸۹۴ کا گرہن ۳۵ سے زائد ممالک میں دیکھا گیا اور اخبارات و رسائل میں کثرت سے ذکر ہوا۔ آٹھ لاکھ افراد نے تھانیسر میں اکٹھے ہو کر دیکھا۔انٹرنیٹ پر اس نادر گرہن کی ساری تفاصیل موجود ہیں۔

۷۔اس علم کے ماہرین کہتے ہیں کہ گرہنوں کی چار قسمیں ہوتی ہیں۔اور یہ گرہن سب سے نایاب قسم کے تھے۔(الفضل انٹرنیشنل ۳؍جولائی ۲۰۲۰ء)

۸۔اگلے سال ٫۱۸۹۵ میں مغربی کرہ میں یہ دونوں گرہن پھر واقع ہوئے۔ چاند گرہن ۱۱؍مارچ۱۸۹۵ء اور سورج گرہن ۲۶؍مار چ ۱۸۹۵ءکو۹ ممالک میں دیکھا گیا۔اور یہ قادیان میں رمضان کی ۱۳ اور ۲۸ تاریخیں تھیں۔

۹۔ بہت سی سعید روحوں نے اس نشان کی تصدیق کی۔ ان میں سے ایک جنوبی پنجاب میں ہزاروں لوگوں کے پیشوا حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے تھے جنہوں نے فرمایا کہ گرہن حدیث کی مقررہ تاریخوں پر ہوا ہے (اشارات فریدی جلد ۳ صفحہ ۷۱۔آگرہ۔۱۳۰۲ھ)مصری مؤرخ سید محمدحسن نے بھی اپنی کتاب المہدیۃ فی الاسلام میں اس کا ذکر کیا ہے (چودھویں صدی کی غیر معمولی اہمیت از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ ۲۷۱)

۱۰۔بے شمار لوگ اس نشان کے منتظر تھے۔ اہل مکہ کے متعلق بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (نور الحق حصہ دوم،روحانی خزائن جلد ۸صفحہ ۱۹۷)کئی لوگ یہ نشان دیکھ کرمسیح موعود کے پاس پہنچے اور بیعت کی۔پس کسوف و خسوف کا وہ نشان جو سورج اور چاند کی طرح آسمان پر چمک رہا ہو، قرآن نے اسے یوم القیامہ کا نام دے کر مسیح موعود کےعظیم انقلاب کے پیش خیمہ کے طور پر عظمت کے ساتھ پیش کیا ہو،احادیث میں اس کی تفصیل اور انفرادیت کا ذکر ہو،ہزاروں سالوں سے نبیوں کی زبانوں پر جاری ہو،صلحائے امت اس کی گواہی دیتے چلے آ رہے ہوں اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے اسے دو دفعہ زمین کے ہر کرہ پر دکھا دیا ہو،مشرق و مغرب نے اس کا نظارہ کیا ہو، اس کو چند موہوم اعتراضات کے بل پر رد کرنا کسی عقل مند کا کام نہیں۔فتفکروا وتدبروایا اولی الالباب۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button