قبولیت دعا کی ایک شرط، اپنے اعمال کو قرآن کے مطابق کرنا
قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے نزول کے بارے میں بھی بتا کر ہمیں یہ بتایا کہ اس کا پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے لیے ہدایت اور ایمان میں مضبوطی کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیم کو سمجھنے کا بھی ذریعہ ہے۔ اور پھر ہمیں یہ خوشخبری دی کہ میرے بندوں کو بتا دے کہ اے نبیؐ ! مَیں ان کے قریب ہوں۔ دعاؤں کو سنتا ہوں۔ قبول کرتا ہوں۔ اور رمضان کے مہینے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آ جاتا ہےیعنی اپنے بندوں کی دعاؤں کو بہت زیادہ سنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری دعائیں سنوں تو پھر تمہیں بھی میری باتوں کو ماننا ہو گا۔ مَیں نے جو احکامات دیے ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ ان نیکیوں کو مستقل زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پس قبولیت دعا کے لیے بھی بعض شرائط ہیں۔ پس ہم جب ان شرائط کے مطابق اپنی دعاؤں میں حسن پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے قریب اور دعاؤں کو سننے والا پائیں گے۔
…ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سطحی طور پر دعا کر کے پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول نہیں کیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو ہم نے ایک کام کہا جس کو اسے ماننا چاہیے تھا۔ یعنی نعوذباللہ اللہ تعالیٰ ان کے حکموں کا پابند ہے۔ جو چاہیں وہ کہیں، جس طرح چاہیں وہ کہیں، جو چاہیں ان کے عمل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ پابند ہے کہ ہماری باتیں سنے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا یہ نہیں ہو گا۔ پہلے تمہیں میری باتیں ماننی ہوں گی۔ اپنے عملوں کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ رمضان کے مہینے میں جب نیکیوں کا ماحول بنا ہے۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے تو میری ہدایات اور احکامات کو دیکھو، غور کرو، سنو اور ان پر عمل کرو۔ اپنے ایمانوں کا جائزہ لو کہ کتنے مضبوط ایمان ہیں تمہارے۔ کسی مشکل میں پڑنے پر، ابتلا آنے پر ایمان متزلزل تو نہیں ہو رہے؟ بہرحال یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں قدم بندے نے ہی پہلے اٹھانا ہے اور جب اس کی انتہا ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت جوش میں آتی ہے، اس کا فضل جوش میں آتا ہے۔ پس اس بات کو سمجھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔
( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍ اپریل ۲۰۲۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍مئی ۲۰۲۱ء)