ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز
’’اس شہرکی چابی اب محفوظ ہاتھوں میں ہے‘‘
اپنے خطاب کے اختتام پر حضورِانور ایدہ اللہ نے دونوں مہمانان؛ کانگریس مین راجہ کرشنا مورتی کاسرکاری طور پر Congressional recordکے ذریعہ خوش آمدید کہنے پراور زائن کے میئر کا شہر کی چابی پیش کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ حضورِانور نے نہایت خوبصورت الفاظ میں فرمایا:’’میں جناب میئر صاحب اور راجہ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔مجھے پورا نام یاد نہیں ورنہ آپ کہیں گے کہ میں نے آپ کے نام کا تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اسی طرح مَیں میئر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس شہر کی چابی پیش کی اور مجھے یقین ہے کہ اس شہر کی چابی اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔‘‘
حضورِانور ایدہ اللہ کے اس بے ساختہ تبصرے نے سامعین کو حضورِانور کی شفقت اور حس مزاح سے لطف اندوز ہونے کا موقع بہم پہنچایا۔
جہاں حضورِانور راجہ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے وہاں ساتھ ہی حضور نے ہلکے پھلکے انداز میں ان کی تقریر کی طرف اشارہ کیا جس میں انہوں نے ذکر کیا تھا کہ کس طرح اکثر لوگ ان کا نام غلط تلفظ کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اس بات سے کانگریس مین اور سامعین دونوں لطف اندوز ہوئے اور سامعین نے سن کربے ساختہ قہقہہ لگایا۔
حضورِ انور کا یہ تبصرہ کہ اس شہر کی چابیاں ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہیں، بالکل درست اور نہایت پُر حکمت تھا۔ ماضی میں حضورِ انور کی خدمت میں اس سے بڑے شہروں کی چابیاں پیش ہوتی رہی ہیں۔تاہم زائن وہ شہر تھا جس کی چابی ملنے پر حضور نے نہ صرف میئر کا شکریہ ادا کیا بلکہ یہ تبصرہ بھی فرمایا کہ اب یہ شہرمحفوظ ہاتھوں میں ہے۔
میں اور دیگر کئی احمدی احباب حضورِانور کے اس تبصرے پر غورو خوض بھی کرتے رہے۔ حضورِانور کی خدمت میں اس شہر کی چابی پیش کی گئی تھی جو اس خواہش کے تحت بنایا گیا تھا کہ اسلام کو نیست و نابود کر دیا جائے اور اس شہر کے بانی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں نہایت حقارت انگیز الفاظ استعمال کیے تھے۔ تاہم ایک صدی سے کچھ زائد عرصہ گزرنے کےبعد اب وہی شہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ کا کھلی بانہوں سے استقبال کر رہا تھا۔ لہٰذا اس کی چابی ملنے پر حضورِانور نے نہایت خوبصورت انداز میں اس بات کا اظہار فرمایا کہ اب یہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
حضورِانور کے ساتھ چند لمحات
دعا کے بعد، جس دوران اکثر مہمان کھانا تناول کررہے تھے، میں نے دیکھا کہ حضورِانور سٹیج سے میری طرف دیکھ رہے ہیں اور مجھے بلا رہے ہیں۔ چنانچہ میں تیزی سے حضورِانور کی جانب روانہ ہوا مگر آدھے راستے میں مجھے احساس ہوا کہ میں نے عشائیہ کے لیے اپنا ماسک اتار دیا تھا۔
چونکہ میں حضورِانور کی خدمت میں بغیر ماسک پہنے نہیں جانا چاہتا تھااس لیے میں اپنی جیبوں کو ٹٹولنے لگا لیکن کوئی ماسک نہ مل سکا۔ میں نے دیکھا کہ حضورِانور یہ نظارہ دیکھتے ہوئے تبسم فرما رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ جلد ہی ڈیوٹی پر موجود ایک خادم نے مجھے ماسک دے دیا جسے پہن کرمیں حضورِانورکی خدمت میں حاضر ہوگیا۔
حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ کیا فلو کی کیفیت خطاب پر اثر انداز تو نہیں ہوئی؟
مَیں نے عرض کی کہ تقریب سے قبل مہمانوں سےملاقات کے دوران تو کچھ اثر محسوس ہو رہا تھا تاہم خطاب کے دوران اس کا احساس بالکل نہیں ہوا۔ الحمدللہ حضورِانور کا خطاب نہایت احسن طریق سے مکمل ہوا۔
حضورِانور ایدہ اللہ نے فرمایا :’’میں امید کرتا ہوں کہ جو بات میں بیان کر رہا تھا اسےمہمان اچھی طرح سن اور سمجھ رہے تھے۔‘‘
اس کے جواب میں مَیں نے عرض کیا کہ ابھی میری ایک مہمان سے بات ہوئی ہے جو حضور کے خطاب سے اس قدر متاثر ہیں کہ انہوں نے فوری طور پر خطاب کا متن مہیا کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ وہ اس کے اقتباس اپنے آئندہ پیش آنے والے بعض کاموں میں استعمال کرسکیں۔
حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’زائن کے میئر نے مجھے کہا ہے کہ میری حسِ مزاح بہت اچھی ہے۔ وہ راجہ صاحب کے متعلق میرے لطیفے اور اس شہر کی چابی کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے والی بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔اس کے جواب میںمَیں نے انہیں کہا کہ ایسا اس لیے ہے کہ مَیں ملّاں نہیں ہوں !‘‘
شیف (Chef)کے لیے تعریفی کلمات
ہال سےرخصت ہوتے وقت حضورِانور کا دو احمدی بھائیوں سے تعارف کروایا گیا جن کا نام ذیشان حامد اور نعمان حامد ہے۔ ان دونوں بھائیوں نے اس استقبالیہ تقریب کے شیف (Chef) کے طور پر خدمات سرانجام دی تھیں۔ ان کا خاندان پاکستانی پکوان نیز ریستوران وغیرہ چلانے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ نعمان صاحب نے حضورِانور سے کھانے کی پسندیدگی کے حوالے سے دریافت کیا جس پر حضورِانور نے فرمایا: ’’میں نے مچھلی اور چاول کھائے تھے اور دونوں چیزیں ہی بہت مزیدارتھیں۔‘‘
بعد ازاں ذیشان صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ اور ان کا بھائی کس قدر خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایسے موقع کے لیےکھانے کا انتظام کرنے کی توفیق ملی اور اس کی بدولت حضورِانور کی شفقتوں سے حصہ ملا ۔
ذیشان صاحب نے بتایا کہ میرے لیے ایسے تاریخی موقع پر حضورِانور ایدہ اللہ اور زائن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لیے بھی کھانا تیار کرنا ایک منفرد تجربہ تھا جسے میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ جب سے ہم حضور سے ملے ہیں میرے آنسو تھم نہیں رہے ۔اس وقت بھی میرے لیے جذبات پر قابو پانا ممکن نہیں۔ میرا بھائی نعمان بھی جذبات سے مغلوب ہے۔ حضورِانور کے محبت بھرے الفاظ نے ایک نئی توانائی بخشی ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں۔
عرب مہمانوں کی حضورِانور سے ملاقات
مارکی کے باہر مکرم شریف عودہ صاحب (امیر جماعت کبابیر)نے بعض عرب مہمانوں کا حضورِانور سے تعارف کروایا ۔یہ تمام مہمان حضورِانورکے اسلامی تعلیمات کے پرچار کرنے کے طریقہ کار کے مداح اور اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔
ایک فلسطینی مہمان نے کہا کہ ’’الحمدللہ، میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے بارے علم حاصل کر رہا ہوں ا ور اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ایسے موقع پر موجود ہونا میرے اور میری اہلیہ کے لیے باعث برکت ہے ۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ شریف عودہ صاحب احمدیت کا پیغام پہنچانے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے استفسار فرمایا کہ ’’پھر آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘انہوں نے عرض کی کہ ’’ہم ہمیشہ الحمدللہ کہتے ہیں۔‘‘
حضورِانور ایدہ اللہ نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ ’’الحمدللہ کہنے کا وقت تب آئے گا جب آپ احمدیت قبول کریں گے!‘‘
حضورِانور کے اس تبصرے سے یہ مہمان خوب لطف اندوز ہوئے اور کہنے لگے:’’ان شاءاللہ ایک دن ہم (قبول )کریں گے!ہم نے اس حوالے سے دعائیں کرنی شروع کر دی ہیں اور ہم ا حمدیت کے بارے مزید علم حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
لبنان سے تعلق رکھنے والے ایک مہمان ڈاکٹر نے بتایا کہ کس طرح وہ احمدیت کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا:’’ میرا خیال ہے کہ یہ (یعنی شریف عودہ صاحب) آپ کے ساتھ رابطے میں رہیں گے اور ایک دن آپ کو احمدیت کی آغوش میں لے آئیں گے۔ ان شاءاللہ‘‘
جواب میں محترم لبنانی ڈاکٹر صاحب اور ان کی اہلیہ نے کہا :’’آمین ان شاءاللہ۔‘‘
اس موقع پر ڈاکٹر فارس حرب البنانی بھی موجود تھے جنہوں نے حضورِانور سے ملاقات کے بعد کہا کہ دوران ملاقات ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے خدا آسمان سے اتر آیا ہے۔(حضور کی موجودگی میں)میری دعاؤں اور عبادت کی کیفیت ہی کچھ اَور تھی۔مجھے اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی توانائی محسوس ہو رہی تھی اور حضورِانور سے ملنے کے بعد اپنی دعاؤں میں توجہ، اطمینان اور عاجزی کی کیفیت ایک بہت ہی خاص رنگ اختیار کر گئی ہے۔
الحمدللہ جملہ حاضرین،خواہ وہ احمدی ہوں یا باہر سے آئے ہوئے مہمان ،اس تاریخی موقع پر موجود ہونے کو اپنی خوش قسمتی گردانتے تھے اور اس اعزاز پر خوش تھے۔
یہ استقبالیہ تقریب حضورِانور کے دورۂ امریکہ کے پہلے حصے کا بہترین اختتام تھی۔ نہ صرف زائن شہر کی چابی اب محفوظ ہاتھوں میں تھی بلکہ اب یہ شہر ہمیشہ کے لیےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی سچائی اور روحانی فتح عظیم کی یادگار بن چکا تھا۔
سیکرٹری جائیداد کے تاثرات
اس تقریب کے بعد میں نے ایک خادم نیاز بٹ صاحب سے بات کی جو حال ہی میں بطور نیشنل سیکرٹری جائیداد جماعت احمدیہ امریکہ منتخب ہوئے تھے۔ موصوف زائن مسجد کمیٹی کے ممبر بھی تھے جس کے ذمہ اس مسجد کی تعمیر کی نگرانی کا کام تھا۔کمیٹی کے ممبران کو زائن میں حضورِانور سے شرف ملاقات بھی حاصل ہوا۔
ملاقات کے حوالے سے نیاز صاحب نے مزید مساجد کےتعمیراتی منصوبوں میں حصہ لینے کے جذبہ کا اظہار کرتے ہوئےبتایا کہ ’’میں دو مساجد کے تعمیر اتی منصوبوں میں شامل رہا ہوں۔ ایک Philadelphiaکی مسجد جس کا افتتاح حضورِانور نے ۲۰۱۸ء میں فرمایا تھا اور دوسری یہ زائن کی مسجد ہے۔ میرا یہ ذاتی ہدف اور خواہش ہے کہ پچاس مساجد کی تعمیر میں خدمت بجا لا سکوں ۔دو مواقع مل چکے ہیں اب 48 باقی ہیں!‘‘
نیاز صاحب نے مزید کہا کہ ’’حضورِانور کو زائن میں دیکھنا ایک بہت ہی ایمان افروز نظارہ تھا اور بطور ممبرمسجد کمیٹی آپ سے ملاقات ہمارے لیے ایک عظیم سعادت تھی ۔جب ہم حضورِانور سے ملے تو حضور کی طبیعت نزلہ زکام کی وجہ سے ناساز تھی ، اس کے باوجود ملاقات کے دوران حضورِانور کے چہرے پر ایک خوبصورت اورروشن مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔‘‘
نیاز صاحب نے مزید بتایا کہ ’’یہ میری زندگی کا دوسرا موقع تھا کہ میں نےحضورِانور کو اتنا خوش پایا۔پہلا موقع اس وقت تھا جب ہماری فیملی ملاقات ہوئی اور میری بیٹی چار یا پانچ سال کی تھی۔ اس نے حضورِانور سے پوچھا کہ وہ خدا کو کیسے محسوس کرسکتے ہیں۔‘‘
حضورِانور نے ان کی بیٹی کے سوال کا جو جواب عطا فرمایا اس کے بارے انہوں نے بتایا کہ ’’اس کا سوال سننے پر حضور بہت خوش ہوئےاوراس طریق پر اس کو جواب دیا جسے وہ (اپنی عمر کے مطابق )سمجھ سکے ۔حضورِانور نے فرمایا کہ جب ہم دعا کرتے ہیں اور وہ ہماری دعاؤں کو قبول کرتا ہے اس وقت ہم خدا تعالیٰ کی موجودگی محسوس کر سکتے ہیں۔‘‘(حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ امریکہ ستمبر۔اکتوبر 2022ءحصہ دوم)
(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت مظفرہ ثروت)