خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍اپریل۲۰۲۳ء
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں تقویٰ کی تشریح اور اس کے حصول کی تلقین
٭…جمعےکےدن میں ایسی مبارک گھڑی آتی ہے کہ اُس میں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے
٭… اگر تم اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا چاہتے ہو تو آؤ ! اور آنحضرتﷺ کے اس غلامِ صادق کو قبول کرو
٭… یہ زمانہ خاص طور پر شیطان کے حملوں کا زمانہ ہے اور وہ اپنے تمام حیلوں اور مکروں اور ہتھیاروں سےحملے کر رہا ہے
٭… متبعین میں ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے اندر اتباع کی پوری پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا
٭… تین چار دن یا ہفتے کی دعائیں نہیں بلکہ مستقل دعائیں کریں (پاکستان اور دنیا بھر میں موجود احمدیوں کے لیے دعا کی تلقین)
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍اپریل۲۰۲۳ء بمطابق ۲۱؍شہادت ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۱؍اپریل ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
آج رمضان کا آخری جمعہ ہے،رمضان گزرگیا ،اور بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے رمضان میں عبادت اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنےلیے منصوبےبنائے ہوں گےلیکن وہ ان پر عمل نہیں کرسکے۔
جمعےکےدن میں ایسی مبارک گھڑی آتی ہے کہ
اُس میں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔
سو رمضان کے اس آخری دن میں جو اَب چند گھنٹے باقی ہیں ہم میں سے ہرایک کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں کو مستقل اس طریق پر چلانے والے بن جائیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔
جب ہم خود اپنی زندگیوں کو تقویٰ پر چلاتےہوئےایک جمعے سے دوسرے جمعے تک گزاریں گےاور یوں ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک یہ سلسلہ جاری رہے گا تو یقیناً ہم اپنی نسلوں کو بھی تقویٰ اور دین داری پر قائم کرنے والے ہوں گے اور اس طرح ہم اس حقیقی مقصد کو پانے والے ہوں گے جس کے لیے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا تھا۔
تقویٰ ہی وہ مقصد ہے جس پرحضرت مسیح موعودؑ نے بہت زور دیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ تو بھیجے ہی اس لیے گئے ہیں تاکہ ہمارے تقویٰ کے معیار اونچے ہوں۔ ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا مَیں بھیجاگیا ہوں تاسچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوےاور دلوں میں تقویٰ پیدا ہوسو یہی افعال میرےوجود کی علتِ غائی ہیں۔ پس آپؑ کا زمانہ جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ پر قائم ہوتے ہوئے آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق قیامت تک جاری رہنے والا زمانہ ہے ؛ اس میں آپؑ کے ماننے والے ہی ہیں جنہوں نے سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنی عبادتوں کے اونچے معیار قائم کرنے ہیں اور یہ مقصد صرف ایک مہینے کی عبادتوں یا نیکیوں کی کوششوں سے تو حاصل نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اپنی عبادات پر دوام اختیار کرتے ہوئے قائم ہوجائیں گے تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایا کہ مَیں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں۔ پس اگر ہم اس رنگ میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہوں گے تو ہم اپنے عملوں سے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہوں گے کہ
اگر تم اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا چاہتے ہو تو آؤ ! اور آنحضرتﷺ کے اس غلامِ صادق کو قبول کرو۔
حقیقی تقویٰ کیا ہے اور اس پر چلنے والا کیسا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیا سلوک ہوا کرتا ہے اس حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
حقیقی تقویٰ کے ساتھ جہالت جمع نہیں ہوسکتی۔
حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہےجیسا کہ اللہ جلّ شانہ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لیے اتقا کی صفتِ قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیرمیں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تمہیں ایک نور دیا جاوے گا ، وہ نور تمہارے افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا ، تمہاری عقل میں بھی نور ہوگااور تمہاری اٹکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگااور تمہارے کانوں اور زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر حرکت اور سکون میں نور ہوگا۔پس یہ وہ مقام ہے جو ایک مومن اور متقی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رمضان گزر گیا تو بھی ہم اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس مقام کو حاصل کرلیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ
یہ زمانہ خاص طور پر شیطان کے حملوں کا زمانہ ہے اور وہ اپنے تمام حیلوں اور مکروں اور ہتھیاروں سےحملے کر رہا ہے، ایسے میں ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف پہلے سے زیادہ جھکنے کی ضرورت ہے۔
ٹی وی ہو، سوشل میڈیا ہو یا دوسرے پروگرام ، بچوں کے سکول یا ان کے پروگرام ، ہر جگہ شیطان نے دجال کے ذریعے ایسا جال بُن دیا ہے کہ جس سے اللہ کے فضل کے بغیر بچنا ناممکن ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ فکر تو ہمیں اپنے بچوں کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی ہے۔ اس کے لیے والدین اور جماعتی نظام کو کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے
ہر عاقل بالغ احمدی کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنےہوں گے تب ہی ہم اپنی نسلوں کو شیطان کے ان حملوں سے بچا سکیں گے۔
رمضان کے بعد ہمیں آرام سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے، بلکہ اپنے قرآن کے علم اور دینی علم کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
شیطان کے حیلوں اور مکروں کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ ایک موقعے پر فرماتے ہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دجال اصل میں شیطان کےمظہر کو کہتے ہیں جس کے معنی ہیں راہِ ہدایت سے گمراہ کرنے والا۔ آخری زمانے کے متعلق کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت شیطان کے ساتھ بہت جنگ ہوں گے لیکن آخر کار شیطان مغلوب ہوجائے گا۔گو ہر نبی کے زمانے میں شیطان مغلوب ہوتا رہا ہے لیکن وہ صرف فرضی طور پر تھا حقیقی طور پر اس کا مغلوب ہونا مسیح کےہاتھوں مقدر تھااور خداتعالیٰ نے یہاں تک غلبے کا وعدہ دیا ہے کہ فرمایا کہ تیرے حقیقی تابع داروں کو بھی دوسروں پر قیامت تک ہمیشہ غالب رکھوں گا۔ غرض شیطان اس آخری زمانے میں پورے زور سے جنگ کر رہا ہے مگر آخری فتح ہماری ہی ہوگی۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو قیامت تک میرے منکروں اور مخالفوں پر غلبہ دے گالیکن
غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے اندر اتباع کی پوری پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا۔
فرمایا: واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرلینا کچھ چیز نہیں جب تک دل کی عزیمت اور دعا سے اس پر پورا عمل نہ ہو۔پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہوتا ہے جس کی نسبت خداتعالیٰ کے کلام میں یہ وعدہ ہے کہ اِنّی اُحافظ کلّ مَن فی الدّار۔یعنی ہر ایک جو تیری چاردیواری کے اندر ہے اسے مَیں بچاؤں گا۔
حضورؑ فرماتے ہیں کہ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ شیطان لاحول سے بھاگتا ہے۔ مگر وہ ایسا سادہ لوح نہیں ہے کہ صرف زبانی طور پر لاحول کہنے سے بھاگ جائے۔ اس طرح سے تو خواہ سَو دفعہ لاحول پڑھا جائےشیطان نہیں بھاگے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ
جس کے ذرّے ذرّے میں لاحول سرایت کرجاتا ہے اور جو ہر وقت خداتعالیٰ سے ہی مدد اور استعانت طلب کرتے رہتے ہیں اور اس سے ہی فیض حاصل کرتے رہتے ہیں وہ شیطان سے بچائے جاتے ہیں۔
ایک موقعے پر آپؑ فرماتے ہیں کہ دعا میں مقناطیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتااور اسی کے مطابق عمل درآمد نہیں کرتا تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ
ایک حدیث میں آیا ہے کہ نماز عبادت کا مغز ہے۔ پس جب ہم اس مغز کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو نماز کا بھی اور عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بنیں گے۔
ظاہری نمازیں تو ورنہ کوئی فائدہ نہیں دیتیں بےشمارنمازی ہیں جو مسجدوں میں جاکر نمازیں پڑھ کر پھر ظلم و تعدّی کی انتہا کیے ہوئے ہیں۔یہ دہشت گرد تنظیمیں ، نام نہاد ملّاں اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کیا کیا ظلم نہیں کر رہے۔ ان لوگوں نے دنیا کا امن برباد کیا ہوا ہے۔
ہماری نمازیں کس طرح کی ہونی چاہئیں اس حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
یاد رکھنا چاہیے کہ نماز ہی وہ شئے ہے جس سے تمام مشکلات آسان ہوجاتی ہیں اور سب بلائیں دُور ہوجاتی ہیں۔ مگر نماز سےوہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہوجاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہوتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔ ہم اپنی نسلوں کو ایسی عبادات کی عادت ڈالنے والے بنیں جو ان کی اور آنے والی نسلوں کی بقا کی ضامن بن جائیں۔ دجال نے اس زمانے میں تباہ ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعودؑ سے وعدہ ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہوگی کہ اگر ہم ان لوگوں میں شامل ہوجائیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شمولیت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔یہ حق ادا کرنے کےلیے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک نسخہ گریہ و زاری اور تضرع اور ابتہال کو بھی بیان فرمایا ہے۔
یہ مقام حاصل کرنے کےلیے آپؑ فرماتے ہیں کہ چاہیے کہ تمہارے دن اور رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے۔ پاکستان کے احمدیوں کےلیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں شریروں اور مخالفوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ خود پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی اپنے لیے دعا کریں۔
تین چار دن یا ہفتے کی دعائیں نہیں بلکہ مستقل دعائیں کریں۔
اپنی زندگیوں کو خداتعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کا عہد کریں۔
برکینا فاسو، بنگلہ دیش، الجزائر اور دنیا کے ہرملک کے احمدیوں کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو دشمن کے شر سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے اور دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر ان دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔ آمین