قرآن کریم کے محاسن،عظمت و خصوصیات
(از تحریرات حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ قرآن ان تمام کمالات کا جامع ہے جن کی انسان کو تکمیل نفس کے لیے حاجت ہے‘‘
جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
خدا تعالیٰ کی قدیم سے سنت ہے کہ وہ انسان کی راہنمائی کے لیے مختلف ادوار میں اپنے مقربین کے ذریعہ اپنے احکامات لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ان مقربین کی روح اس مقصد کے لیے بےچین رہتی ہے اور جب جسم کے فانی قویٰ روح کا ساتھ دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو واپس بلا لیتا ہے اور اس کے بعد ان کے نمائندوں سے یہ کام لیتا ہے اور یہ سلسلہ نور اور تاریکیوں کے راستے سے ہوتا ہوا اپنی منزل کی طرف جاری و ساری رہتا ہے۔ اسی سلسلہ میں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آخری کتاب قرآن مجید کے ساتھ مبعوث ہوئے اور اسی کتاب کو قیامت تک کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت قرآن کریم کو ایک کامل اور مکمل صورت میں ہمارے پیارے آقا سیدالاولین سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ؐپر نازل فرما کر اپنے بندوں کے لیے نجات ابدی کا سامان مہیا کیا ہے اور اس کلام پاک کو ایک عظیم الشان کلام قرار دیا ہے۔ اس کو کسی قوم اور نہ ہی کسی معاشرہ سے مخصوص کیا ہے بلکہ اس کے فیضان اور برکات تمام بنی نوع انسان اور تمام اقوام پر حاوی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: یَاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً (الاعراف:۱۵۹)اے ہمارے پیارے رسول تو لوگوں کے سامنے اس کی منادی اور تبلیغ کر اور ان کو تعلیم دے کہ اے لوگو میں کسی مخصوص قوم کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی میری شریعت کسی خاص زمانے اور خاص وقت کے لیے ہے بلکہ یہ زندگی بخش فیضان اور برکات قیامت تک کے لیےہیں۔قرآن کریم نے ایسے عمدہ اصول اور قوانین بیان کیے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ابدی نجات حاصل ہو تی ہے۔
حامل وحیِ قرآن حضرت محمد مصطفیٰ ؐنے فرمایا کہ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَ عَلَّمَہٗ(مشکاۃ المصابیح )تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھتا اور سکھاتا ہےاور لَوْ كَانَ الْإِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ(صحیح بخاری)یعنی اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا جائے تو اہلِ فارس میں سے ایک نوجوان اس کو واپس لے آئے گا۔اس سلسلہ میں آنحضورؐ کی وفات کے چودہ سو سال بعدجب آنحضورؐ کی حدیث مبارکہ کے مطابق کہ ’’قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے‘‘ کا زمانہ آیا تو آپؐ کے عاشقِ صادق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ؑ نےخدائے عزوجل کے اذن سے قرآن پاک کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے اور قرآن پاک کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور آج اس نفسا نفسی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت ہی احسن رنگ میں قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے پر گامزن ہے۔
قرآن پاک کے نزول کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’قرآن کے نزول کی ضرورتوں میں سے ایک یہ تھی کہ تامردہ طبع یہودیوں کو زندہ توحید سکھائے اور دوسرے یہ کہ تا ان کی غلطیوں پر ان کو متنبہ کرے۔اور تیسرے یہ کہ تا وہ مسائل کہ جو توریت میں محض اشارہ کی طرح بیان ہوئے تھے جیسا کہ مسئلہ حشر اجساد اور مسئلہ بقاء روح اور مسئلہ بہشت اور دوزخ ان کے مفصل حالات سے آگہی بخشے… اور منجملہ قرآن کی ضرورتوں کے ایک یہ امر بھی تھا کہ جو اختلاف حضرت مسیح کی نسبت یہود اور نصاریٰ میں واقع تھا اس کو دور کرے۔سو قرآن شریف نے ان سب جھگڑوں کا فیصلہ کیا۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب،روحانی خزائن جلد ۱۲صفحہ۳۵۲-۳۵۳)
قرآن پاک کے نزول کا مقصد بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآن شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بناوے اور انسان سے با اخلاق انسان بناوے اور بااخلاق انسان سے باخدا انسان بناوے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ۳۲۹)
قرآن پاک کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لیے خدا نے تمہیں دی ہیں۔سب سے اول قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے۔جیسا کہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسٰی بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اس کا رفع نہیں ہوا اسی طرح قرآن میں منع کیا گیا ہے کہ بجز خدا کے تم کسی چیز کی عبادت کرو نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اورنہ کسی اور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی۔سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سوتم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِکہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پرمقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۶-۲۷)
قرآن پاک کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔نوع انسان کے لیے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۱۳)
قرآن پاک کی بلند شان اور حاکمیت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’قرآن کی وہ اعلیٰ شان ہے کہ ہر ایک شان سے بلند ہے اور وہ حکم ہے یعنی فیصلہ کرنیوالا اور وہ مہیمن ہے یعنی تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے اس نے تمام دلیلیں جمع کر دیں اور دشمنوں کی جمعیت کو تتر بتر کر دیا۔ اور وہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میںآئندہ اور گذشتہ کی خبریں موجود ہیں اور باطل کو اس کی طرف راہ نہیںہے نہ آگے سے نہ پیچھے سے اور وہ خداتعالیٰ کا نور ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ،روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ۱۰۳)
قرآن پاک کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’قرآن مجید ایک ایسا لعل تاباں اور مہر درخشاں ہے کہ اس کی سچائی کی کرنیں اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی چمکیں نہ کسی ایک یا دو پہلو سے بلکہ ہزار ہا پہلوؤں سے ظاہر ہو رہی ہیں اور جس قدر مخالف دین متین کوشش کر رہے ہیں کہ اس ربانی نور کو بجھاویں اُسی قدر وہ زور سے ظاہر ہوتا اور اپنے حسن اور جمال سے ہر یک اہل بصیرت کے دل کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔‘‘(منن الرحمٰن،روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ۱۲۸)
قرآن پاک کی فصاحت و بلاغت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ’’قرآن کریم بلاغت فصاحت کا اعجاز لے کر آیا کیونکہ دنیا کو سخت حاجت تھی کہ زبان کی اصل وضع کا علم حاصل ہو۔پس قرآن کریم نے ہر یک لفظ کو اس کے محل پر رکھ کر دکھلا دیا اور بلاغت اور فصاحت کو ایسے طور سے کھول دیا کہ وہ بلاغت اور فصاحت دین کی دو آنکھیں بن گئیں۔‘‘(منن الرحمٰن،روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۵۹)
قرآن مجید کی اعجازی خاصیت کہ دعویٰ کرکے دلیل دینے کے بارہ میں آپؑ فرماتے ہیں :’’اس میں یہ ایک عظیم الشان خاصیت ہے کہ وہ اپنی تمام ہدایات اور کمالات کی نسبت آپ ہی دعویٰ کرتا اور آپ ہی اس دعویٰ کا ثبوت دیتا ہے اور یہ عظمت کسی اور کتاب کو نصیب نہیں۔‘‘ (منن الرحمن،روحانی خزائن جلد ۹صفحہ۱۲۸)
قرآن مجید کی اعلیٰ و ارفع کتاب ہونے کی خاصیت کا ذکرکرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’الٰہی کتابوں میں سے اعلیٰ اور ارفع اور اتم اور اکمل اور خاتم الکتب صرف قرآن کریم ہی ہے اور وہی ام الکتب ہے جیسا کہ عربی ام الالسنہ ہے۔‘‘(منن الرحمٰن،روحانی خزائن جلد ۹صفحہ۱۳۰)
قرآن مجید کےتمام کمالات کی جامعیت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ قرآن ان تمام کمالات کا جامع ہے جن کی انسان کو تکمیل نفس کے لیے حاجت ہے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب،روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ۳۶۱)
قرآن مجید کا کامل وجود جمعہ کو کمال تک پہنچا اس بارہ میں آپؑ فرماتے ہیں ’’قرآن شریف بھی گو آہستہ آہستہ پہلے سے نازل ہو رہا تھا مگر اس کا کامل وجود بھی چھٹے دن ہی بروز جمعہ اپنے کمال کو پہنچا اور آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ نازل ہوئی۔‘‘(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۰)
قرآن مجید کے ذریعہ اصلاح نفس اور تزکیہ کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ’’ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن اصلاح کامل اور تزکیہ اتم اورا کمل کے لیے آیا ہے اور وہ خود دعوی کرتا ہے کہ تمام کامل سچائیاں اس کے اندر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ۔‘‘ (سراج منیر،روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ۴۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے تمام احکامات پر کماحقہ عمل کرنے اوراس کی عظمت و خصوصیت سمجھنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔آمین