مکرم ملک ضیاء الحق صاحب ساکن دوالمیال ضلع چکوال درویشِ قادیان
مکرم انوارالحق ولدملک ضیاء الحق صاحب کی قلمبند اپنے والد محترم کی حالاتِ زندگی کی داستان ان کے اپنے ہی الفاظ میں قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔
مکرم انوارالحق صاحب لکھتے ہیں: ہمارے دادا مکرم ملک بہاؤالحق صحابی حضرت مسیح موعود ؑکے ہاں یکے بعد دیگرے دو بیٹے وفات پا گئے۔مشہور تھا کہ ہمارے پڑدادا ملک شیر محمد صاحب کی نظر لگی تھی۔ اسی وجہ سے خاکسار کے والد مکرم ملک ضیاء الحق صاحب کی پیدائش کے بعد ان کو پڑدادا صاحب سے چھپا کر رکھا گیا۔ ان کی پرورش بڑے نازو نعم سے ہوئی۔ والدین اور خاندان میں بڑے لاڈلے تھے۔ لا ابالی طبیعت کی وجہ ایک دفعہ بارڈر پولیس میں بھرتی ہو گئے تو ان کے والد مکرم بہاؤالحق صاحب بیمار رہنے لگے جس کی وجہ سے نام کٹوا کر آ گئے۔ احمدیت سے شروع ہی سے حد درجہ لگاؤ تھا۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی طرف سے تحریک درویشِ قادیان کی گئی تو والد صاحب نے فوراََ اس تحریک پر لبیک کہا اور دادا صاحب نے بھی مزاحمت نہ کی۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۲ سال تھی اور شادی شدہ تھے۔ ان کا ایک بیٹا خاکسار انوارالحق ۶ماہ کا تھا۔ والد صاحب کے بیان کے مطابق ابتدائی تین ماہ انتہائی تکلیف دہ اور ہر قسم کی تنگی کے حالات تھے۔ انڈین آرمی مختلف قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیت دیتی ۔ یہاں تک اذیت ناک ٹارچر کیا جاتا کہ ہم سمجھتے تھے کہ شاید آج ہمارا آخری دن ہے۔ رفتہ رفتہ حالات میں بہتری آتی گئی۔ ڈیوٹیز کے علاوہ عبادات میں لطف وسرور دو بالا ہو گئے۔آپ کو جوانی میں اس قدر عبادت کا شغف تھا کہ قرآنِ مجید تین روز میں ختم کر لیتے تھے۔ لمبی فرض نمازوں کے علاوہ تہجد میں بھی باقاعدگی تھی۔ جماعتی کتب کا مطالعہ کثرت سے کرتے تھے۔ اصحابِ احمد کی جلد نمبر ۱ اور جلد نمبر ۲ کے پیش لفظ میں آپ کا ذکر ہے کہ آپ مکرم صلاح الدین صاحب کو حوالے تلاش کر کے مدد دیا کرتے تھے۔گو آپ کی تعلیم معمولی تھی لیکن اردو پڑھنے اور لکھنے میں کافی مہارت رکھتے تھے اور اس کی وجہ آپ کا سلسلہ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں کا مطالعہ تھا۔آپ جسمانی طور پر کافی مضبوط بلکہ شہ زور تھے۔سکھوں کے ساتھ کبڈی اور مونگیری (منگلی) پھیرنے کے اکثر مقابلے ہوتے تھے جن میں اکثر آپ کامیاب رہتے۔ گاؤں میں بھی وزنی پتھر اٹھانے اور مونگیری(منگلی) پھیرنے میں کامیاب ترین رہے۔
تقریباََ ساڑھے سات سال بعد قادیان سے واپسی پر آپ کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا ۔میری عمر اس وقت ۸ سال تھی۔ والد صاحب کہتے تھے کہ ہر چیز تلاش کرنے سے مل جاتی ہے اس لیے میں اللہ تعالیٰ کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ آپ کو اللہ پر مکمل یقین تھا اور دعاؤں پر بھی۔ آپ نے گھر کا سازو سامان برتن بستر وغیرہ لنگر خانہ حضرت مسیح موعود ؑ میںدے دیے بھائی کے ساتھ زمین کی تقسیم بہت احسن رنگ میں کی اور اس کے بعد جو زمین اپنے پاس تھی وہ بھی اپنے بھائی کے ہاتھ احسن طریقے سے اللہ پر توکل رکھتے ہوئے بیچ دی۔ یہ ان کے توکل علی اللہ کے سودے تھے۔زمین بیچ کر اپنے چندے ادا کیے تاکہ کل اللہ کا قرض دار نہ رہوں۔ اور آپ مجھے کہتے تھے کہ انوار بیٹے میرے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودے ہیں یہ میں آپ کے لیے وہ بیج بو رہا ہوں جس کی انشاءاللہ تم فصل کاٹو گے۔ فیملی میں عمومی تاثر تھا کہ درویش صاحب نے بچوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑاجب کہ اس کے بھائی نے بچوں کے لیے بہت کچھ بنا لیا ہے لیکن آپ کو اپنے اللہ پر توکل کامل تھا کہ وہی سب کا رازق ہے۔
گاؤں میں ایک بزرگ بابا انار کے نام سے جانے جاتے تھے جو دودھ اور دانے خرید کر بلیوں، کتوں اور پرندوں کو ڈالا کرتے تھے۔آپ بھی ان کے ساتھ اکثر ہولیتے اور جنگلوں اور ویرانوں میں ان کے ساتھ عبادتیں کرنا اور اللہ کے حضور زاریاں کرنا کافی عرصہ ان کا دستور رہا۔ آپ نے ان بزرگ کے ساتھ کافی عرصہ گزارا۔ لیکن آپ کا پختہ عقیدہ تھا کہ اگر کو ئی مذہب ہے تو یقیناََ جماعتِ احمدیہ ہی سچی ہے۔ والد صاحب کو دنیاوی رسم و رواج سے سخت نفرت تھی اور حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات سے پیار تھا۔ کسی رسم و رواج میں شامل نہیں ہوتے تھے خواہ وہ ان کا قریبی رشتہ دار یا دوست ہی کیوں نہ ہو۔ غرباء اور مساکین سے دوستی تھی ان کے کام آیا کرتے تھے۔ خدمتِ خلق آپ کی نس نس میں بسی تھی اور خدمتِ خلق کا کو ئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
آپ کی ایک صفت مہمان نوازی کی بھی تھی۔ آپ اپنے مہمان کی حد درجہ خدمت کرتے تھے۔ ایک دفعہ خانہ بدوشوں کو گھر لے آئے، ان کی خوب خاطر مدارت کی اور ان کو رات بسر کرنے کے لیے بستر وغیرہ بھی دیے۔ حیوانات کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور حیوانات پر رحم کا یہ عالم تھا کہ گاؤں والے جب کبھی کتوں کو جنگلی درندوں سے لڑا تے اور وہ درندے جب زخمی اور لہو لہان ہو جاتے تھے اور جنگلوں میں کراہ رہے ہوتے تو جنگلوں میں جا کر ان درندوں کے زخموں پر مرہم لگاتے اور انہیں پانی پلاتے۔
ان کی وفات پرتعزیت کےلیے آئے ہوئے ایک غیراز جماعت نے بتایا کہ بازار میں ایک کتیا مر گئی تو اس کے پلوں(بچوں) کو درویش صاحب صبح شام دودھ پلایا کرتے تھے۔ والد صاحب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کی سچائی کا معیار بہت اعلیٰ تھا جس کے اپنے اور غیر از جماعت بھی قائل تھے۔ آپ کے بھائی کے ساتھ ایک غیر از جماعت کا مقدمہ چل رہا تھا۔کافی گواہوں سے ان کی تسلی نہ ہوئی تومخالف فریق نے عدالت میں کہا کہ اگر درویش صاحب گواہی دے دیں تو ہم مقدمے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ انہیں یقین تھا کہ درویش صاحب غلط بیانی سے کام نہیں لیں گے اور ہمیشہ سچ بولیں گے۔تقریباََ سارے گاؤں میں آپ کی صاف گوئی اور سچائی کا شہرہ تھا۔ عموماََ خاندان میں یہ تاثر تھا کہ درویش نے اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑا لیکن آپ نے ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑا سب سے بڑی نعمت احمدیت کی ہمیں ان سے ملی ہے۔ آج درویش صاحب کی اولاد احمدیت کے نور سے منور ہے اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار افضال ان پر ہیں ایک بیٹا نصیرالحق نیویارک امریکہ میں اور دوسرا بیٹا بقاء الحق لندن میں خوش وخرم احمدیت کی دل میں لگن لیے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ خاکسار (انوارالحق) بھی لاہور میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے سائے تلے دلی تسکین لیے شکر گزار ہے۔احمدیہ دارالذکر کے ۲۸؍ مئی کے واقعہ والے دن بھی خاکسار احمدیہ دارالذکر میں تھا اور زخمی ہوا تھا ۔ دل میں موت کا کوئی خوف نہیں کیونکہ میری تربیت ایک درویش نے کی ہے۔ یقیناََ والدین کی نیکیاں پھل لاتی ہیں۔
۱۹۸۰ء میں والد صاحب بھائی کے پاس جرمنی چلے گئے وہاں کافی عرصہ رہے۔ ساری زندگی اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ پیار کاسلوک رکھا۔ اکثر آپ کی زبان پر حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر ہوتا تھا۔
جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک شرطِ بیعت کہ ’’میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا ‘‘میں ساری زندگی سب کچھ لٹا کر بھی اس ایک شرط پر پورا نہ اتر سکا۔حالانکہ آپ عملی تصویر بنے رہے۔جہاں بھی رہے اور جو کچھ کمایا تو وہیں خرچ کیا۔ استعمال کی اشیاء بستر وغیرہ وہیں چھوڑ دیا۔
آپ نے ایک کتاب ’’قانونِ قدرت ‘‘کے عنوان سے لکھی جس میں اللہ تعالیٰ کے عرفان اور جلوے جو مشاہدہ کیے نیز اللہ تعالیٰ کی ہستی کے دلائل دیے۔ اس کے بعد آپ کو کافی اشارات ملے جس سے آپ عملی طور پر اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ازحد قائل ہو گئے اور اس کے افضال سے کافی حصہ پایا۔ ان کی اولاد بھی اللہ کے فضلوں کی وارث بنی یہ آپ کی دعاؤں کا اثر ہے۔ ۲۰۰۳ء میں پاکستان واپس آ گئے۔گاؤں میں رہائش رکھی، خود داری یہاں تک تھی کہ اگر رات کو پیاس محسوس کی تو کسی کو نہیں کہا بلکہ خود اٹھ کر پانی پیا۔
جب آپ کو محسوس ہوا یا اشارہ ہوا کہ وقت قریب ہے تو آخری چھ ماہ خاکسار کے پاس لاہور رہے اور خاکسار نے اپنی ہمت اور طاقت کے موافق آپ کی خدمت کی۔ بالآخر ۲۵؍مارچ ۲۰۰۵ء کویہ درویشِ قادیان اور درویش صفت انسان اس دارِ فانی سے ملک عدم کو کوچ کر گیا۔ ۲۵؍مارچ ۲۰۰۵ء کوآپ کا جنازہ ظہر کے وقت لاہور میں بیت الحمد میں ادا کیا گیا۔ اور مورخہ ۲۶؍ مارچ۲۰۰۵ء ظہر کے بعد دوالمیال احمدیہ جنازہ گاہ میں آپ کی نمازجنازہ ادا کی گئی جس میں کافی غیر از جماعت بھی شامل ہوئے۔ تدفین آبائی قبرستان دوالمیال میں ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے اور غریقِ رحمت کرے نیز ان کی اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے اور احمدیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭