روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے
انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور اُن کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوقِ عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآنِ شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۰۹۔۲۱۰)
اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔ جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پا سکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچا سکتے۔ حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔ انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کر کے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا۔ تقویٰ سے سب شٔے ہے۔ قرآن نے ابتداء اسی سے کی ہے۔إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ (الفاتحہ:5) سے مراد بھی تقویٰ ہے۔ کہ انسان اگرچہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۵۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)