بے شک اللہ تعالیٰ متقیوں کی ہی عبادت کو قبول فرماتا ہے
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم ایمان لانے والوں میں شامل ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تو پھر سنو کہ ایمان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور پھر فرمایا کہ تقویٰ کیا ہے؟ پھر اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔ اب اگر ہم جائزہ لیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمیں اپنے جائزہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ کیا ہم تقویٰ کا حق ادا کرتے ہوئے حقوق اللہ کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ کیا ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کر رہے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ بات کہ تقویٰ کیا ہے اس وقت تک پتہ نہیں چل سکتی جب تک ان باتوں کا مکمل علم نہ ہو۔ علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ بغیر علم کے کوئی چیز حاصل ہی نہیں ہو سکتی، اس کو آدمی پا ہی نہیں سکتا۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ علم حاصل کرنے کے لیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے حق ہیں؟ کیا بندوں کے حق ہیں؟ کن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے؟ کن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کے لیے بار بار قرآن شریف کو پڑھو۔ فرمایا اور تمہیں چاہیے کہ جب قرآن شریف پڑھ رہے ہو تو بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہو گا… آپؑ نے اس بات کو بڑے زور سے بیان فرمایا کہ جب تک انسان متقی نہیں بنتا اس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(المائدہ:28) یعنی بےشک اللہ تعالیٰ متقیوں کی ہی عبادت کو قبول فرماتا ہے۔ فرمایا یہ سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں کا ہی قبول ہوتا ہے۔ پھر اس کا جواب دیا کہ عبادات کی قبولیت کیا ہے؟ اور اس سے مراد کیا ہے؟ قبولیت کیا چیز ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں، فرمایا اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں… آپؑ نے فرمایا کہ عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا ہی رہا تو تم ہی بتاؤ کہ اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اس کی برائیاں اور بدیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہو جاتیں اور نماز اس کے لیے ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ فرمایا پس پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لیے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پرہیز کرے اور اس کا نام تقویٰ ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد۸ صفحہ۳۷۴ تا ۳۷۷ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
(خطبہ جمعہ ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍ مئی ۲۰۲۲ء)