ہم ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ (جسٹس فائز عیسٰی صاحب کا ایک سوال)
ملک کے موجودہ حالات میں تمام ریاستی ادارے ایک دوسرے کے خلاف صف آراہیں بلکہ حملہ آور ہو چکے ہیں اور ہر ادارے کے اندر شدید تفرقہ ظاہر ہو چکا ہے۔ اور اس تصادم کی وجہ سے ملک کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال ایک بہت اہم سوال ہے
آج سے چند روز قبل پاکستان کے آئین کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی۔اس سلسلہ میں پارلیمنٹ کی عمارت میں ایک کنونشن منعقد ہوا۔اس میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک جج عزت مآب جسٹس فائز عیسیٰ صاحب بھی شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں پاکستان کا آئین ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا :’’اللہ کی کتاب کے سائے کے بعد اس کتاب کا سایہ ہمارے سرپر ہے۔ یہ کتاب ہماری پہچان ہے۔یہ کتاب پاکستان کی پہچان ہے…اس کی جو اہمیت ہے اس کو ہمیں پہچاننا چاہیے اور ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘ اس کے بعد کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد معزز جج صاحب کچھ رک کرجھکتے ہوئے بولے: ’’ہم میں جو…سمجھ نہیں آتا ہم میں جو …ہم کبھی کبھی دشمنوں سے اتنی نفرتیں نہیں کرتے جتنی ایک دوسروں سے کرتے ہیں۔یہ کیوں ہے؟‘‘
ملک کے موجودہ حالات میں تمام ریاستی ادارے ایک دوسرے کے خلاف صف آراہیں بلکہ حملہ آور ہو چکے ہیں اور ہر ادارے کے اندر شدید تفرقہ ظاہر ہو چکا ہے۔ اور اس تصادم کی وجہ سے ملک کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال ایک بہت اہم سوال ہے۔ اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ایک سینیر جج کو اس کی وجہ نہیں سمجھ آرہی ہے تو ملک کے ایک عام شہری کا کیا حال ہوگا؟ اس لیے اس مرحلہ پر پوری قوم کو تمام تعصبات اور اختلافات کو بھلا کر اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔ ایک مضمون میں تمام تفصیلات پر تو بحث نہیں کی جا سکتی لیکن اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ہم ان دو دنوں کا تجزیہ کریں گے جب پاکستان کے موجودہ آئین کو بنانے کے کام کا آغاز ہو رہا تھا۔
ملک دو لخت ہونے کے بعد
آج سے تقریباً اکاون سال قبل ۱۹۷۱ءکے آخر پر پاکستان دو لخت ہو گیا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کربنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوااور پاکستان کے ہزاروں فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور یہ مرحلہ آگ اور خون کے دریا سے گذر کر طے ہوا۔ ملک کا مشرقی حصہ خون میں نہا چکا تھا اور مغربی حصہ کے لوگ صدمہ سے چور تھے۔ ہر ذی ہوش یہ امید کر رہا ہو گا کہ اس سانحہ سے سبق حاصل کر کے باقی ماندہ پاکستان کے سیاسی لیڈر اب کچھ ہوش سے کام لیں گے۔ اور ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ملک میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو اور کسی کو ملک میں انتشار کی فضا پیدا کرنے کی اجازت نہ دی جائےتاکہ کسی طرح باقی ماندہ پاکستان کو بچا کر ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کیا جائے۔
جب جنرل یحییٰ خان صاحب اقتدار سے رخصت ہوئے تو پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ملک کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام سنبھال لیا۔ اس وقت کوئی دستور بھی موجود نہیں تھا جس کے تحت پاکستان کو چلایا جائے۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ مستقل آئین تو بعد میں سوچ بچار کے بعد بنایا جائے گا لیکن فوری طور پر ملک میں ایک عبوری آئین نافذ کر کے ملک کو چلانے کا کام شروع کیا جائے۔ چنانچہ ایک عبوری آئین تیار کیا گیا اور ۱۴؍اپریل ۱۹۷۲ءکو اس قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا۔ اس میں اسمبلی کے صدر کا انتخاب کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو نئی اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا۔ وہ ۲۰؍دسمبر۱۹۷۱ء کو ملک کے نئے صدر کا منصب سنبھال چکے تھے۔جب انہوں نے نئی اسمبلی کے صدر کے انتخاب میں کامیابی حاصل کر لی تو اپوزیشن سمیت تمام ممبران نے متفقہ طور پر ان مشکل حالات میں صدر کا عہدہ سنبھالنے پر ان پراعتماد کا اظہار کیا۔
نورانی صاحب نفرت انگیزی شروع کرتے ہیں
اور اگلے روز یعنی ۱۵؍اپریل ۱۹۷۲ءکو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تا کہ عبوری آئین منظور کیا جائے اور اس کے بعد مستقل آئین کی تیاری کا کام شروع ہو اور اس کام کے لیے ایک کمیٹی کا تقرر کیا جائے۔ عبوری آئین کی منظوری دو دن میں لینی تھی۔امید تو یہ کی جا رہی تھی کہ اس اجلاس میں ملک کی قانون ساز اسمبلی اس بات پر غور کرے گی کہ کس طرح قوم کی شیرازہ بندی کی جائے کیونکہ تین ماہ قبل نئے آئین کے مسئلہ پر اختلاف اتنا بڑھا تھا کہ ملک دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ملک میں اتحاد پیدا ہو اور تفرقہ ختم ہو اور قوم آگے بڑھےاور اس لیے بھی اس اتحاد کی امید کی جا رہی تھی کیونکہ ایک روز قبل پورے ایوان نے صدر مملکت پر متفقہ طور پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔لیکن ابھی یہ اجلاس شروع ہی ہوا تھا کہ جمعیت العلماء پاکستان کے قائد شاہ احمد نورانی صاحب نے اتحاد پیدا کرنے کی بجائے، ان الفاظ میں تفرقہ پیدا کرنا شروع کیا: ’’اس کے ساتھ میں عرض کروں گاکہ جو آئین ہمارے سامنے عمدہ فریم میں سجا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس میں اسلام کو قطعاً کوئی تحفظ نہیں دیا گیا۔ میں اس دستور کو معزز ایوان کے لیے قابل قبول نہیں سمجھتا ہوں اور میں اس دستور کی مخالفت کرتا ہوں۔اگر اس دستور کو نافذ ہی کرنا ہے تو وہ دفعات جو اس کے اندر اسلام کے متعلق موجود ہیں ان دفعات کے متعلق کسی کمیٹی کے سامنے میں بیان دے سکتا ہوں۔ بہت سے علماء یہاں موجود ہیں وہ بھی بیان دیں گے اور اسلام کے مطابق دستور کی دفعات بنانے میں تعاون کریں گے۔اور ان دفعات کی تصحیح کی جائے گی جو اسلام کے خلاف ہیں اور پھر اس interim constitutionمیں amendmentکر دی جائے گی تب یہ قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان کا صدر مسلمان ہو گا۔ مگر مسلمان کی تعریف کوئی نہیں جانتا ہے کہ کیا ہے۔ ہر شخص مسلمان بننے کی کوشش کرتا ہے۔
اس ملک کے اندر اسلام کے بدترین قسم کے دشمن موجود ہیں۔ وہ مسلمان بن کر حکمران بن سکتے ہیں اور چور دروازے سے حکومت کرنے کے لیے وہ یہاں آسکتے ہیں۔ میں مسلمان کی تعریف کروں گا جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت unity of Godپر یقین رکھتا ہو اور حضور انور ﷺ کے آخری نبی ہونے پر یقین رکھتا ہو وہ مسلمان ہے۔ ورنہ مرزائی قادیانی ہے اس قسم کی تعریف اور پابندی اس کے اندر موجود نہیں۔‘‘
اس پرکارروائی میں مداخلت شروع ہوئی اور پھر نورانی صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں عرض کر رہا تھا وہ یہ ہے کہ دستور میں مسلمان کی تعریف نہیں ہے۔آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہ ماننے والا ہمارے نزدیک مسلمان نہیں ہے۔ اور جو لوگ آنحضرت ﷺ کو مسلمان نہیں مانتے ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے وہ ضروریات دین کے منکر ہیں ہم ان کو مسلمان نہیں سمجھتے تو پھر یہ کیسےچور دروازے سے آکر اسلام کے نام پرحکمران بن سکتے ہیں۔اور تباہی کا سامان پیدا کریں میں وزیر قانون کی خدمت میں عرض کروں گا دستور جو ہو وہ اسلام کے مطابق ہو۔یہ آئین وزیر قانون کے نزدیک صحیح ہو سکتا اورمکمل ہو سکتا ہے۔مگر ہم اس میں amendmentکرنے کے بغیر اسے ٹھیک نہیں سمجھتے۔اسے بڑا خوشنما بنا کر ہمارے سامنے سجا کر رکھا گیا ہے۔اس میں صرف خوشنمائی ہی ہے۔مگر کام کی بات نہیں رکھی گئی اور اس کے اندر اسلامی روح موجود نہیں ہے بلکہ اسلام کی روح کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
نورانی صاحب احمدیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ وہ نہ صرف یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ آئین میں ’’مسلمان‘‘ کی ایسی من مانی تعریف داخل کی جائے جس کے نتیجہ میں احمدیوں کو اپنے خیال میں غیر مسلم قرار دیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ کہہ کر کہ اس آئین میں اسلام کو تحفظ نہیں دیا گیا اور اسلامی روح کو مسخ کیا گیا ہےکیونکہ اس آئین کی آڑ میں احمدی بھی ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں اور وہ تو اسلام کے بد ترین دشمن ہیں (نعوذُ باللہ) ممبران کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسلام کو شدید خطرہ ہے۔اور شدت پسندی کے جذبات ابھارنے کا نفسیاتی طریق یہی ہوتا ہے کہ اپنے گروہ کا تعین کر کے جو اس گروہ سے باہر ہوں، ان کے بارے میں جارحانہ جذبات ابھار کر اپنے گروہ کو یہ خوف دلایا جا ئے کہ اگر کچھ نہ کیا گیا تو تم شدیدخطرے میں ہو۔
حکومتی اراکین جواب دیتے ہیں
اس مرحلہ پر ابھی حکومتی اراکین اس سازش کا حصہ نہیں بنے تھے چنانچہ انہوں نے نورانی صاحب کو جواب دینا شروع کیا۔نوارانی صاحب کی تقریر کے بعد ایک اور ممبر ڈاکٹر ایس محمود بخاری صاحب نے نورانی صاحب کی تقریر پر یہ تبصرہ کیا
’’میں اپنے فاضل دوست جناب مولانا نورانی سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ مجھے قرآن و سنت کی رو سے یہ بتلائیں کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے۔ جب کہ مسلمانوں میں ۷۲فرقے ہیں۔ ہر فرقہ کاconceptعلیحدہ علیحدہ ہے۔ان کی کتابیں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ان کی تفسیریں علیحدہ ہیں۔ ان کی تاویل علیحدہ ہے۔ اگر۷۲فرقوں کے مطابق اگر ہم مولانا کی تاویل قبول کر لیں تو پھر کوئی مسلمان باقی نہیں رہتا۔ قرآن کریم میں مومن اور متقی کی تو تشریح موجود ہے لیکن مسلمان کی تشریح نہیں ہے۔ مولانا ہم نے صبر کے ساتھ آپ کی بات سنی ہے۔‘‘
چونکہ اکثر علماء کی طرح انتخابات کے دوران شاہ احمد نورانی صاحب بھی اپنے سیاسی مخالفین پر کفر کے فتوے لگاتے رہے تھے اور ان کا انتخابی نشان چابی تھا۔چنانچہ بعض ممبران اسمبلی نے انہیں ماضی قریب یاد کرانے کی کوشش کی۔ وفاقی وزیر عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب نے کہا: ’’الیکشن کے زمانے میں ہم نے یہ سنا تھا کہ جنت کی چابی کس کے ہاتھ میں ہے اور ووٹ مسلمان کسے دیتے ہیں، مسلمان کون ہے اور کون نہیں ہے۔‘‘
اس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و اوقاف اور حج کوثر نیازی صاحب نے اپنی تقریر میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے: ’’جناب والا! پاکستان پیپلز پارٹی کے الیکشن کے زمانے میں کچھ فتویٰ صادر کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اسلام کے بھی خلاف ہے اور اسلامی آئین کے بھی مخالف ہے۔ ان حضرات نےاپنے بنائے ہوئے قانون کے اندر اسلام کو محصور کرنے کی کوشش کی تھی اور خود ساختہ آئین کو اسلام کا نام دے دیا تھا مگر آج کے دن محترم وزیر قانون نے عبوری دستور کا جو مسودہ اس معزز ایوان کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام نہ تو کسی کی اجارہ داری ہے اور نہ کسی کی جا گیر ہے اسلام ان چند لوگوں کی ملکیت نہیں ہے۔ یہ سب کا ہے اور سارے کے سارے لوگ اس سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح انہیں اسلام سے محبت کے دعوے ہیں…۔
جنہوں نے یحیٰ خان کے زمانے میں اس سے آدھ گھنٹہ بات کرنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ صدر یحییٰ خان جو آئین مستقبل میں پیش کرنے والے ہیں وہ اسلامی ہوگا۔جنہوں نے یحییٰ خان پر اس قدر اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ ایک آدھ گھنٹے کی نشست کے بعد ان سے چند باتیں سننے کے بعد اس آئین کے لیےاسلامی ہونے کا فتویٰ صادر کر دیا جو ابھی معرض مستقبل میں تھا۔ وہ آج ہمارے ساتھ لین دین کے لیے دوسرے باٹ استعمال کر رہے ہیں۔ یحیٰ خان کے لیے جو رعایات ان کے پاس تھیں ان کا عشر عشیر بھی ہمارے لیے مناسب نہیں جانتے۔‘‘
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
اس کے بعد ’’مسلمان‘‘ کی تعریف کے بارے میں کوثر نیازی صاحب نے ان تاریخی حقائق کی نشاندہی کی: ’’علماء میں جو اختلافات موجود ہیں ان کی بنا پر ایک عالم دوسرے عالم سے مسلمان کی تعریف میں متفق نہیں ہے۔میں علماء کا قدر دان ہوں۔ میں مولانا ہزاروی کا قدردان ہوں۔ میں مولانا مفتی محمود کا قدر دان ہوں۔منیر انکوائری رپورٹ آپ کے سامنے ہے۔ وہاں علماء کرام نے جس طرح مسلمان کی تاویل پیش کی اور جس طرح ان میں باہمی تضاد تھا۔ اختلاف تھا اور تصادم تھا اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ میں اس وقت بھی یہاں چیلنج کرتا ہوں کہ علماء مسلمان کی کوئی متفقہ تعریف اس ایوان کے سامنے پیش کریں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس ملک کے علماء مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جمعیت العلماء پاکستان کو ہی لے لیجئے کوئی نورانی گروپ ہے کوئی سیالوی گروپ۔ میں ان کو چیلنج کرتا ہوں ان کے جتنے ارکان یہاں بیٹھے ہیں وہ باہم مل کر مسلمان کی کوئی ایک تعریف ہمارے سامنے پیش کریں ہم انہیں پندرہ منٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ایک ساتھ بیٹھ جائیں اور مسلمان کی کسی ایک تعریف پر متحد ہو جائیں۔ ہم اسےacceptکرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آج بھی ان کے اندر باہمی اختلاف ہوگا اور وہ صحیح طور سے مسلمان کی کوئی ایک تعریف نہیں کر سکیں گے…
مثال کے طور پرمولانا نورانی صاحب نے فرمایا ہےکہ توحید کے بارے میں جو نظریہ ہےاس پر ہم متفق ہیں۔وہ ہونا چاہیے ہم سب موحدین ہیں ہم سب اسلام کو مانتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مولانا صاحب کی توحید میں اور دوسرے علماء کی توحید میں بہت بڑا فاصلہ ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ میرے ساتھ جو محترم ممبر بیٹھے ہیں وہ تعزیہ داری کو توحید کے منافی نہیں سمجھتے لیکن مولانا موصوف اور ان کے ساتھی تعزیہ داری کو شرک سمجھتے ہیں۔کیا ایسا نہیں ہے کہ اس ملک کے عوام میں ایسے لوگ موجود ہیں جوحضرت داتا گنج بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دینے اور نذریں گذارنے کو اسلام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے لیے سعادت جانتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ملک میں موجود ہیں جو اسلام کے دعویدار ہیں جو چوبیس پچیس سال سے صالحین کے امیر ہیں، جنہیں پچیس سال میں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر فاتحہ خوانی کر سکیں۔ اس لیے وہ اس چیز کو صحیح نہیں سمجھتے۔ یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری ان علماء سو پر ہے جنہوں نے سرمایہ داری کو تحفظ دینے کے لیے اسلام کو آڑ بنایا۔ اور جنہوں نے ہم پر، مزدوروں پر اور کسانوں پر کفر کے فتوے لگائے۔ یہاں وہ ایک سو تیرہ علماء بھی موجود ہیں جنہوں نے ذاتی ملکیت کو نصف قرآن ٹھہرایا ہے اور اسلامی سوشلزم کو ماننے والوں کو کافر قرار دیا ہے۔یقیناََ مولانا نورانی صاحب اور ان کے ساتھی اس فتوے پر قائم ہوں گے لیکن یہ روز روشن کی طرح واضح حقیقت ہے کہ پوری ملت کے علماء نے اس فتوے کو ٹھکرا دیا ہے اور اس کی دھجیاں ہوا میں بکھیر دی ہیں۔اس لیے ہم مولانا نورانی اور ان کے چند ساتھیوں کویہ اجارہ داری نہیں دے سکتے کہ وہ جنت کی چابی جس کو چاہیں دیں اور جس سے چاہیں واپس لے لیں۔ ہم مولانا صاحب کو یہ یاد کرانا چاہتے ہیں کہ جنت پر ان کا ٹھیکہ نہیں ہے یہ بات قطعاََ ان کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ جسے چاہیں جنتی ہونے کا پروانہ عطا کریں اور جس کو چاہیں جنت کے ناقابل ٹھہرائیں۔‘‘
اس مرحلہ تک کوثر نیازی صاحب نے علمی انداز میں اس خطرے کی نشاندہی کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی اسمبلی میں لوگوں کے مذہب کے بارے میں فیصلے شروع کر دیے تو اس کے کیا خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اگر صرف یہ نکتہ پیش نظر رکھا جائے کہ کم از کم توحید پر ایمان تو مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہےلیکن جن اعمال کو ایک فرقہ اپنے لیے نہایت ضروری قرار دیتا ہے، دوسرا فرقہ انہی اعمال کو شرک قرار دیتا ہے۔ اس طرح دوسرا فرقہ پہلے والے کو غیر مسلم قرار دے گا اور یوں یہ طوفان بد تمیزی صرف احمدیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ایک کےبعد دوسرا فرقہ اس کی لپیٹ میں آتا جائے گا۔ اس مرحلہ پر اس اسمبلی میں موجود مولوی حضرات کو ایک معین چیلنج دے دیا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر کسی کو غیر مسلم قرار دینا ہے تو کم از کم ’’مسلمان‘‘ کی کوئی جامع اور مانع تعریف تو کرنی چاہیے اور اس تعریف کو قرآن اور سنت رسول ﷺ سے ثابت کر ناچاہیے۔جیسا کہ ہم بعد میں جائزہ پیش کریں گے کہ اس کارروائی کے دوران علماء نے یہ دعویٰ تو کیا کہ ہم نے اس چیلنج کو تو قبول کیا کہ ہم ایسا کر کے دکھائیں گے لیکن نہ توانہوں نے مل کر ’مسلمان‘ کی کوئی تعریف پیش کی جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ یہ ہم سب نے متفقہ طور پر تیار کی ہے اور نہ ہی یہ ثابت کیا کہ اس تعریف کی بنیاد قرآن اور سنت رسول ﷺ ہے۔
تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ءمیں کیا ہوا تھا؟
جیسا کہ کوثر نیازی صاحب نے کہا تھا کہ ۱۹۵۳ءمیں تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے دوران تمام علماء مل کر ’’مسلمان‘‘ کی کوئی متفقہ تعریف نہیں پیش کر سکے تھے۔اس واقعہ کی تفصیلات لٹریچر میں بار بار بیان کی گئی ہیں۔ تمام علماء نے عدالت کے سامنے ’’مسلمان‘‘ کی مختلف تعریفیں پیش کی تھیں۔ اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ شاہ احمد نورانی صاحب جمعیت العلماء پاکستان کے قائد تھے۔ لیکن ۱۹۵۳ءمیں اسی جماعت کے صدر ابوالحسنات محمد احمد قادری صاحب نے ’’مسلمان‘‘ کی جو تعریف بیان کی تھی وہ اس تعریف سے مختلف تھی جو کہ شاہ احمد نورانی صاحب نے اب پیش کی تھی۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء میں لکھا ہے: ’’ان متعدد تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں۔پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرہ کی ضرورت ہے ؟بجز اس کے کہ دین کے کوئی بھی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف اس تعریف سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۳۱تا ۲۳۶)اور اس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ علماء نے یہ بیانات دیے تھے کہ ان کےنزدیک مرتد کی سزا موت ہے اور وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں لکھا ہے ’’اگر کوئی سنی اپنا عقیدہ بدل کر شیعوں کا ہم خیال ہوجائے۔ تو وہ آیا اس ارتداد کا مرتکب ہوگا جس کی سزا موت ہے۔ شیعوں کے نزدیک تمام سنی کافر ہیں۔ اور اہل قرآن جو حدیث کو غیر معتبر سمجھتے ہیں اور واجب التعمیل نہیں مانتے ہیںمتفقہ طور پر کافر ہیں۔اور یہی حال تمام آزاد مفکرین کا ہے۔ اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ شیعہ، سنی، دیوبندی بریلوی لوگوں میں سے کوئی بھی مسلم نہیں۔ اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کافر سمجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدہ کو بدل کر دوسرا اختیار کرے گا۔ اس کو اسلامی مملکت میں لازماً موت کی سزا دی جائے گی۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ءصفحہ ۲۳۶و ۲۳۷)
پیپلز پارٹی پر کفر کے فتوے
اس بحث کے دوران پیپلز پارٹی کے ایک اَور رکن اسمبلی میر علی بخش خان صاحب کو یاد آیا کہ انتخابات کے دوران نورانی صاحب پیپلز پارٹی والوں کو بھی کافر قرار دیتے رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’Election campaignکے دوران مولانا صاحب نے پیپلز پارٹی والوں کو غیر اسلامی اور کافر کہا تھا کیا اب بھی ہم مولانا صاحب کے نزدیک غیر مسلم ہیں اور اب بھی ہم اس قابل نہیں کہ ہم اس ملک کے اندر کچھ کام کر سکیں۔‘‘
اسی طرح وفاقی وزیر شیخ محمد رشید صاحب نے کہا: ’’یہ علماء حضرات عوامی حکومت اور پیپلز پارٹی کے خلاف کفر کا فتویٰ دیتے ہیں۔‘‘ اب یہ واضح تھا کہ تکفیر کا پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے۔اس کے بعد جماعت احمدیہ کے ایک اَور مخالف عبد المصطفیٰ الازہری صاحب نے کہا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ اجمالی طور پر اور اختصار کے طور پر مسلمان کی تعریف اس آئین میں آجائے تا کہ جو لوگ اس لفظ مسلم سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ لفظ اسلام کی تعریف میں نہیں آتے ہیں ان کے لیے اس لفظ سے استفادہ کرنے کا سد باب ہوجائے۔‘‘
اس کے بعد ایک اور مرتبہ تبصرہ کرتے ہوئے انہی صاحب نے کہا: ’’میں عرض کر رہا تھا کہ اجتماعی طور پر تحقیقی تفصیلات کی ضرورت نہیں ہے۔آپ اس سلسلہ میں مفتی محمود صاحب سے دریافت کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعریف کے سلسلہ میں علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد کے زمانے میں علماء نے متفقہ طور پر بائیس نکات پیش کر دیئے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علماء میں اختلاف نہیں تھا۔‘‘
عبد المصطفیٰ الازہری صاحب جوشاہ احمد نورانی صاحب کی جمعیت العلماء پاکستان کے رکن تھے اور شاہ احمد نورانی صاحب کی طرح بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔شاہ احمدنورانی صاحب کے والد علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی، اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی کے خلیفہ مجاز تھے۔اور عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب نے بھی احمد رضا خان صاحب بریلوی صاحب کی بیعت کی تھی۔اور کہا جاتا ہے کہ ان کا نام بھی احمد رضا خان بریلوی صاحب نے رکھا تھا۔آج عبد المصطفیٰ الازہری صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ مفتی محمود صاحب سے دریافت کرلیں کہ ہمارے درمیان مسلمان کی تعریف کے معاملہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کیا ان کے علم میں نہیں تھا کہ ان کے اور نورانی صاحب کے مرشد احمد رضا خان صاحب بریلوی نے اپنی کتاب حسام الحرمین میں نہ صرف احمدیوں پر بلکہ وہابیوں اور دیوبندیوں پر بھی نہ صرف کفر کا فتوی ٰ لگایا تھابلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ دیوبندی بھی ختم نبوت کے منکر ہیں۔ اور یقینی طور پر ان دونوں ممبران کو اس بات کا علم ہوگا کہ مفتی محمود صاحب دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس بیان سے لگتا ہے کہ عبد المصطفیٰ الازہری صاحب کسی وجہ سے تفصیلات سے گریز کر رہے تھے۔ اور جہاں تک ان بائیس نکات کا تعلق ہے تو ان میں مسلمان کی تعریف شامل نہیں تھی اور اس کے بعد عدالتی کارروائی میں نہ صرف علماء مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے دوسرے فرقوں کے خلاف کفر کے فتوے بھی لگانے شروع کر دیے تھے۔اور جیسا کہ اس مضمون میں بھی ذکر کیا جائے گا کہ ۱۹۷۲ءمیں اسمبلی کی دو دن کی کارروائی کے دوران بھی یہ علماء مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں ہو سکے تھے۔بہر حال جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان اس بات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ کسی طرح فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جائے اور ممبران کو خوف دلایا جائے کہ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو دیکھ لینا ایک دن احمدی اعلیٰ عہدوں پر مقرر ہوکر تمہارے پر مسلط ہوجائیں گے۔
دیوبندی علماء کا موقف
اس کے بعد دیوبندی علماء نے جماعت احمدیہ کے خلاف تقاریر میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔جمعیت العلماء اسلام کے غلام غوث ہزاروی صاحب نےتقریر شروع کی۔ وہ ماضی میں مجلس احرار میں شامل ہو کر جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات میں حصہ لیتے رہے تھے۔انہوں نے مسلمان کی تعریف کے متعلق کہا: ’’اس ایوان میں مسلمان کی تعریف پر بھی بات ہوئی ہے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں کچھ روشنی ڈالوں کسی شخص کے یہ کہہ دینے سے کہ مجھے دو تین چار آدمیوں کے بیانات مسلمان کی تعریف میں تضاد موجود ہے اس طرح کہنے سے لازم نہیں آتا کہ مسلمان کی کوئی تعریف صحیح نہ ہو یا یہ بھی لازم نہیں آتا کہ آئین میں مسلمان کی تعریف نہ کی جائے۔جب آئین میں دستور میں یہ آیا ہےکہ صدر مسلمان ہوگا تو یہ لازم ہوگیا ہے کہ ہم مسلمان کی تعریف کریں اور اس کی تشریح کریں کہ مسلمان کسے کہتے ہیں اگر یہ تشریح نہ ہو گی تو جس طرح بعض معزز ممبران نے کہا ہے تو تمام چور دروازے سے آکر بہت سے لوگ ہم پر مسلط ہوجائیں گے اور وہ قطعاََ غلط ہوگا اس سے مراد ہماری کوئی فرقہ وارانہ بات نہیں لیکن ہم قطعاََ نہیں چاہتے کہ جو فرقہ حضور ﷺ کے بعد ہزاروں نبیوں کو مان سکتا ہو یا خدا کا منکر ہو کمیونسٹ یا مرزائی ہمارا صدر ہوگا۔‘‘
ہزاروی صاحب کے بیان سے یہ واضح تھا کہ وہ اس طرز پر احمدیوں کے خلاف جذبات بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح عبوری آئین کے مرحلہ پر ہی اپنے زعم میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے اور اس کے ساتھ ان کے حقوق سلب کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔لیکن یہ بیان یہ بھی ظاہر کر رہا تھا کہ یہ سلسلہ صرف احمدیوں تک محدود نہیں رہے گا کیونکہ انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ اگر کوئی مسلمان کمیونسٹ بھی ہو گا تو ان کے نزدیک اسے مسلمان نہیں شمار کرنا چاہیے۔جس طرح اسی بحث کے دوران نورانی صاحب نے بھی اشارہ کر دیا تھا کہ ’’مسلمانوں میں اہل سنت اور دوسرے شیعہ۔ان کے علاوہ کوئی فرقہ نہیں۔‘‘ اس کے بعد یہ سوال اٹھتا تھا کہ اہل قرآن جیسے اور دوسرے فرقے جو کہ ان دونوں میں شامل نہیں ہوتے، کیا انہیں بھی غیر مسلم قرار دیا جائے گا۔
بہر حال ۱۵؍اپریل کو اسمبلی میں کئی علماء یہ یقین دلا رہے تھے کہ ’’مسلمان‘‘ کی تعریف کے مسئلہ پر ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ خوف دلاتے رہے تھے کہ اگر ہماری بات نہ مانی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی احمدی اقتدار پر قبضہ کر لے۔ اور بریلوی مسلک کے شاہ احمد نورانی صاحب نے اپنی طرف سے ’مسلمان‘ کی ایک تعریف بھی پیش کی تھی اور باقی علماء کہہ رہے تھے اس مسئلہ پر ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ وفاقی وزیر کوثر نیازی صاحب نے یہ چیلنج دے دیا تھا کہ تمام علماء مل کر ’’مسلمان‘‘ کی متفقہ تعریف پیش کر دیں تو وہ اسے منظور کر لیں گے اور اپوزیشن کے ممبران نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں کیا گیا اور متفقہ تعریف کے نعرے بھی زیادہ دیر نہ چلے۔
۱۷؍اپریل ۱۹۷۲ءکی کارروائی
ایک دن کے وقفہ کے بعد جب ۱۷؍اپریل کو کارروائی شروع ہوئی تو دیوبندی مسلک کے مولوی عبد الحق صاحب نے ’’مسلمان ‘‘ کی بالکل مختلف تعریف پیش کر دی اور سابقہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ان کی پیش کردہ تعریف یہ تھی ’’عربی میں ایمان اور اسلام کی تعریف یہ ہے کہ التصدیق بجمیع ما جاء بہ النبی ﷺ اور اردو میں تعریف ان لوازمات کو شامل ہے اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنا اور کتاب و سنت اور قرآن مجید احادیث اور ضروریات دین اور پیغمبر کے تمام مجیئات پر یقین کرنا اور حضور اقدس ﷺ کو آخری نبی ماننا بایں معنی کہ حضرت محمد ﷺ آخرالزمان نبی ہیں۔ اور وہ جو کچھ لائے ہیں اس پر ایمان لانا اور ان کے بعد کسی کو نہ ظلی نہ بروزی نہ طبعی نہ مستقل نہ کسی اور قسم کا نبی ماننا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے مذہبی بحثیں شروع کردیں جس کا مقصد احمدیوں پر حملہ کرنا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ دیوبندی عالم کی پیش کردہ تعریف اس تعریف سے بالکل مختلف تھی جو کہ ایک بریلوی عالم نے پیش کی تھی۔ علماء ایک مرتبہ پھر اس کام میں ناکام رہے تھے کہ مسلمان کی متفقہ تعریف پیش کر سکیں۔جب مستقل آئین بنا اورجب ۱۹۷۴ءمیں احمدیوں کے خلاف آئین میں ترمیم کی گئی اس وقت بھی ’’مسلمان‘‘ کی تعریف پیش نہ کی جا سکی۔ اس شرمندگی سے تنگ آکر جنرل ضیاء صاحب کے دور میں مارشل لاء کے حکم کے تحت آئین میں ’’مسلمان‘‘ کی ایسی تعریف شامل کی گئی جو کہ قرآن مجید یا احادیث نبوی میں نہیں پائی جاتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ جب اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ اسمبلی میں اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے اور کسی قسم کی نفرت انگیزی نہ کی جائے تاکہ ملک کو اس بحران سے نکالا جائے تو احمدیوں کی مخالفت کی آڑ لے کر تفرقہ اور نفرت کی فضاپیدا کی گئی اور یہ فتوے صرف احمدیوں تک محدود نہ رہے۔ یہ ذکر بھی کیا گیا کہ پیپلز پارٹی والوں پر بھی کفر کے فتوے لگے ہیں اور یہ اشارے بھی کیے گئے کہ ہم کمیونسٹ خیالات کے لوگوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔اور یہ سب کچھ دو روز کی کارروائی کے دوران ہو گیا۔لیکن کیا یہ تفرقہ صرف مذہبی فتووں تک محدود رہا؟ نہیں! افسوس ایسا نہیں ہوا۔ پوری قوم اسمبلی کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہاں سے اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام آئے گا۔لیکن ان علماء نےاحمدیوں کی مخالفت کی آڑ لے کر اتنی مہارت سے نفرت کی فضا پیدا کی تھی کہ چند گھنٹوں میں ہی مختلف علاقوں کے ممبران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے اور پھبتیاں کس رہے تھے اور مختلف بہانوں سے ملک کا اتحادپارہ پارہ کیا جا رہا تھا اور اسی مقصد کے لیے یہ ڈرامہ شروع کیا گیا تھا۔اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے
پہلے روز یعنی ۱۵؍اپریل کی کارروائی کے دوران نورانی صاحب نے یہ مطالبہ کیا کہ سینما بند کیے جائیں۔ ملاحظہ ہو کہ تین چار ماہ قبل ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔نوے ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں تھے۔ بچے ہوئے پاکستان کی سالمیت خطرہ میں تھی اور پہلی مرتبہ اسمبلی کا اجلاس ہوا کہ کم از کم کوئی عارضی آئین بنایا جائے تا کہ جب تک مستقل آئین نہیں بنتا ملک کو چلایا جا سکے اور نورانی صاحب کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کسی طرح سینما بند کر دیے جائیں۔حکومتی اراکین کب خاموش رہنے والے تھے۔ نورانی صاحب پان سے شوق فرماتے تھے۔ ایک حکومتی ممبر نے یہ مطالبہ پیش کر دیا کہ پان پر پابندی لگا دی جائے۔ اور کہا کہ کیا آئین میں پان کو تحفظ دیا گیا ہے؟ اور نورانی صاحب پر یہ جملہ کسا کہ ہم یہاں خطبہ سننے نہیں آئے۔
اس کے بعد حکومتی وزرا میدان میں آئے۔ وفاقی وزیر کی حیثیت سے کوثر نیازی صاحب نے اپنے مخالف مولوی صاحبان کو ’’علماء سو‘‘ کے خطاب سے نوازا اور کہا کہ یہ علماء اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اور نورانی صاحب پر یہ جملہ کسا کہ ہم انہیں ایک بورڈ کا ممبر بنا کر ہزار پندرہ سو کی تنخواہ بھی دے دیں گے۔اور یہ الزام لگایا کہ یہ علماء ان زمینداروں کی حفاظت کر رہے ہیں جنہوں نے مزارعوں کی عصمت دری بھی کی ہے۔ انہوں نےاپنے مخالف صحافیوں پر یحیی خان صاحب کی حکومت سے رشوت لینے کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ وہ اس کا ثبوت دینے کو تیار ہیں۔ اپنے مخالف مولویوں پر زکوٰۃ کی رقم کھا جانے کا الزام لگانے کے بعد کہا کہ ان مخالف علماءکے نزدیک جھوٹ بولنا جائز ہے۔اور اس کے بعد ان ممبران کو غنڈہ قرار دے دیا۔
مذہبی جماعتوں کی مالی بد عنوانی
کوثر نیازی صاحب نے معین الزام لگایا کہ جو مذہبی طبقہ اس تکفیر کی آگ کو بھڑکا رہاہے وہ یہ کارنامہ ملک کے باہر سے مالی مدد لے کر سرانجام دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’آپ کے امیر کے اثاثے سے کویت میں یا دوسرے ملکوں میں دوسرے ناموں سے جو روپیہ موجود ہے وہ سب کچھ انہیں ظاہر کرنا ہوگا۔ میں جانتا ہوں۔مجھ سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہاں کہاں سے آپ کو روپیہ آیا ہے۔ میں آپ کے سارے راز کھول دوں گا۔ قبلہ یہ آرام باغ نہیں ہے۔ موچی دروازہ نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہاں کہاں سے آپ نے روپیہ لیا ہے۔ کیا کیا وصول کیا ہے۔‘‘
اس تو تڑاخ کے بعد جماعت کے ایک اور اشد مخالف مولانا عبد المصطفٰے الازہری صاحب نے یہ اعتراف کیا کہ اس وقت یہ معزز ایوان موچی دروازے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اور حکومتی وزرا کو ’’ظلماتی‘‘ قرار دے کر ان پر الزام لگایا کہ وہ سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر پیپلز پارٹی کے ایک رکن اسمبلی نے طنز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
دین غازی فی سبیل اللہ جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
اس بھیانک آغاز کے بعد چند منٹوں میں ہی علاقائی مسائل پر توتکار شروع ہو گئی۔ بہاولپور کے ایک ممبر نے یہ الزام لگایا کہ ہمیشہ سے بہاولپور سے زیادتی کی جا رہی ہے۔ اور کہا کہ ہم پنجاب کا حصہ نہیں ہیں۔ ہمیں علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ اس پر فوری طور پر جھگڑا شروع ہو گیا اور کئی ممبران نے اس کے خلاف تقاریر کیں۔اور پھر اس موضوع کی آڑ میں دشنام طرازی شروع ہو گئی۔ایک ممبر نے کھڑے ہو کر کہا کہ اس طرح ہم اس اسمبلی کے وقار کو مجروح کر رہے ہیں کیونکہ اس وقت ایسے الفاظ استعمال کیے جا رہے تھے جنہیں کارروائی سے حذف کرنا پڑرہا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ اس اسمبلی کے پاس صرف دو دن تھے جس میں اس نے عبوری آئین کو منظور کرنا تھا اور مستقل آئین کو بنانے کے لیے کمیٹی کا تقرر کرنا تھا۔ شاید ہی کسی اسمبلی نے اتنی کم مدت میں یہ کام کیا ہو۔ مگر جب احمدیوں کی مخالفت کی آڑ لے کر انتشار پیدا کر دیا گیا تھا تو آئین کے علاوہ ہر موضوع پر دشنام طرازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
جب ۱۷؍اپریل کی کارروائی شروع ہوئی تو کونسل مسلم لیگ کے ممتاز دولتانہ صاحب نے اس بات پر احتجاج شروع کر دیا کہ سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز نے میرے متعلق غلط خبر شائع کی ہے اور اس پر بحث اور جھگڑا شروع ہو گیا۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کی چچی جینیفر جہاں زیبا موسیٰ خان صاحبہ بھی اس اسمبلی کی ممبر تھیں۔ انہوں نے بھی شکایت کی کہ ان کے متعلق بھی غلط خبر شائع کی گئی ہے۔
بانی پاکستان پر الزام تراشی
اس کے بعد اپوزیشن کی نیشنل عوامی پارٹی کے صدر خان عبد الولی خانصاحب نے اپنی تقریر میں ماضی کی غلطیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ الزام لگایا کہ ان انتخابات میں فوج کے افسروں نے ایک سیاسی جماعت کو مالی وسائل مہیا کیے تھے۔پھر انہوں نے الزام لگایا کہ آزادی کے فوری بعد بانی پاکستان نے ان کے صوبہ میں اکثریتی حکومت کو برطرف کر کے ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ اتفاق سے وہ شخص یعنی خان عبد القیوم خان صاحب بھی اس اسمبلی میں موجود تھے انہوں نے کھڑے ہوکر ان کے اس دعوے کو جھٹلایا۔
اس کے بعد اس قسم کے الزامات کا سلسلہ شروع ہوا۔خان عبد الولی خان صاحب نے یہ الزام لگایا کہ بعض قوانین کی آڑ لے کر ان کے صوبہ میں اتنے مظالم کیے جا رہے ہیں کہ پولیس نے ایک نو بیاہتا عورت کے اموال لوٹنے کے بعد اس کے کپڑے اتارنے کی دھمکی بھی دی تھی۔اس پر غصہ میں آکر خان عبد القیوم خان صاحب نے کہا کہ ولی خان صاحب بے بنیاد الزامات لگا رہے تھے کہ ایسا وزیر اعلیٰ کے حکم پر کیا گیا تھا۔
جب جمعیت العلماء اسلام کے قائد مفتی محمود صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو انہوں نے چھوٹتے ہی یہ الزام لگایا کہ حکومتِ اسلام سے انحراف کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس بات پر زور دیا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والے کو سزائے موت دی جائے۔ حکومتی وزرا ء جماعت اسلامی کے بانی پر مالی الزام لگا چکے تھے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر پروفیسر غفور صاحب جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور اس بات کی تردید کی کہ جماعت اسلامی کے بانی کا جینیوا میں کوئی اکائونٹ ہے۔اور آئین پر بات کرنے کی بجائے اپنی جماعت پر لگے ہوئے الزامات کی تردید کرتے رہے۔
اب حکومتی وزیر صاحب کی باری تھی۔ کوثر نیازی صاحب نے کھڑے ہو کر جماعت اسلامی کے بارے میں کہا: ’’انہوں نے پچھلے مارشل لاء کے زمانہ میں اپنے سرپرست خاص نواب زادہ شیر علی خان صاحب سے مل کر مجھ غریب کو مارشل لاء کے تحت پانچ سال کی سزا دلائی۔مگر پھر بھی ان کا جی نہیں بھرا‘‘
(شیر علی صاحب یحییٰ خان صاحب کے وزیر تھے اور وہ مذہبی جماعتوں کو غیر قانونی مالی وسائل مہیا کرتے تھے تا کہ وہ اپنی مہم چلا سکیں )
اور پھر پروفیسر غفور صاحب پر طنز کیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا، میں نے تو جینیوا میں اکائونٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ مودودی صاحب کا تو لندن میں ’’اسلامک مشن لندن‘‘ کے نام سے اکائونٹ موجود ہے جسے وہ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔حتیٰ کہ لندن میں اس ہسپتال سے علاج کراتے ہیں جس میں ڈیوک آف ایڈنبرا علاج کراتے ہیں۔
اخلاق سے گرے ہوئے الزامات
یہ سب کچھ کیا کم تھا کہ بلوچستان کے غوث بخش بزنجو صاحب نے الزام لگایا کہ کل گورنر پنجاب لڑکیوں کے ایک کالج میں گئے تھے وہاں ان کے ساتھ ایک مشیر شراب کے نشہ میں تھا اور اس نے وہاں لڑکیوں کو چھیڑا ہے۔اس پر تحقیقات کی جائیں۔ اس کے بعدکچھ دیر اس پر جھگڑا ہوا۔پھر ایک ممبر صاحب کے بیٹے کی ملازمت سے برطرفی پر تنازعہ ہوا۔ایک وفاقی وزیر نے نورانی صاحب پر طنز کیا کہ وہ اپنی پوشاک پر کم کپڑا لگائیں تو لوگوں کا بھلا ہوگا۔
لسانی تنازعہ شروع ہوا۔ ایک ممبر صاحب نے اصرار کیا کہ میں صرف پشتو میں تقریر کروں گا۔ اور یہ مطالبہ کیا کہ ملک میں چار قومی زبانیں ہونی چاہئیں۔اس طرح جو سلسلہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کی آڑ میں شروع کیا گیا تھا اسے بہت کامیابی سے بڑھا کراس نازک موڑ پر ملک کی قانون ساز اسمبلی میں مکمل انتشار پیدا کر دیا گیا۔ اور نفرت کا ایسا ماحول پیدا کیا کہ صرف دو روز میں تمام اسمبلی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو چکی تھی اور گرے ہوئے انداز میں ایک دوسرے پر رکیک حملے کیے جا رہے تھے۔ اور بہت کامیابی سے علاقائی، لسانی، سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر اختلافات بھڑکائے جا رہےتھے اور یہ کارنامہ صرف دو روز کی کارروائی کے دوران سرانجام دیا گیا تھا۔نئے آئین پر تو برائے نام بحث ہوئی تمام ممبران اس انداز میں ایک دوسرے کی تذلیل کرتے رہے۔
اس وقت ان اجلاسات کی صدارت فضل الٰہی چودھری صاحب کر رہے تھے جو کہ بعد میں ملک کے صدر بنے۔ وہ بار بار التجا کرتے رہے کہ یہ سلسلہ بند کیا جائے لیکن اسمبلی ان کے قابو سے باہر ہوچکی تھی۔ انہوں نے کہا
’’میں یہ عرض کروں گا کہ جہاں تک ممکن ہو ذاتی حملوں سے ممبران گریز کریں۔ کیونکہ اگر یہ رسم پڑ گئی تو انجام تو اچھا نظر نہیں آتا۔‘‘
اور واقعی انجام اچھا نہیں ہوا۔ایک اور موقع پر انہوں نے ان الفاظ میں اپنی بے بسی ظاہر کی :
’’آپ مجھے مجبور کریں گے کہ میں وہ کارروائی کروں جو میں دل سے نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ کوئی طریقہ ہے کہ نیشنل اسمبلی میں بیٹھیں اور اس قسم کی باتیں کی جائیں۔‘‘
مضمون کے آخر میں ہم محترم جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں ہم ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ چونکہ انہوں نے آئین کو ہاتھ میں پکڑ کر یہ سوال اٹھایا تھا، اس لیے اس مضمون میں ان دو دنوں کی مثال دی گئی ہے جب اس آئین کو بنانے کا کام شروع ہو رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ المیہ پاکستان کی تاریخ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ملک میں احمدیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے اور اس نفرت انگیزی کو اس انداز میں آگے بڑھایا جاتا ہے کہ بالآخر پورے پاکستان کا اتحاد اور امن برباد کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب پاکستان کا معاشرہ اس بری طرح تقسیم ہو چکا ہے کہ ریاستی ادارے بھی ایک دوسرے سے دست و گریبان نظر آتے ہیں۔ اگر اس مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس بیماری کی جڑ کو ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ آئین کے پچاس سال مکمل ہونے کی تقریب تو منعقد ہوگئی لیکن فراز نے کیا خوب کہا تھا:
اب کس کا جشن مناتے ہو، اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو، اس تن من کا جو دونیم ہوا
اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا
اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی
اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہیں
ان نوحہ گروں کا جس نے ہمیں خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دم ساز ہوئے، ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں
ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سر بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں
یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے
یا ان بے بس لاچاروں کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے
اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو، کیا رکھا ہے اس قصے میں
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو، ہونٹوں میں وفا کے بول لیے
اس جشن میں مَیں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرا کشکول لیے
(پاکستان کی قومی اسمبلی کےان دو دنوں کی کارروائی نیشنل اسمبلی آف پاکستان کی سائٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے)
٭…٭…٭