نماز ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مومن، مومن نہیں کہلا سکتا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍ مارچ ۲۰۰۶ء)
نماز ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مومن مومن نہیں کہلا سکتا۔ اور پھر یہ کہ نماز پڑھنی کس طرح ہے۔ سنوار کر ادا کرنی ہے۔ نماز کو جلدی جلدی اس لئے ادا نہیں کرنا کہ مَیں نے اس کے بعد اپنے دنیاوی جھمیلوں کو نمٹانا ہے۔ نماز سنوار کر پڑھنے میں بہت سے لوازمات شامل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے اپنی جسمانی صفائی کا خیال رکھا جائے اور سستی اور کسل کو دور کیا جائے۔ اس لئے ہمیں حکم ہے کہ وضو کرکے نماز پڑھیں۔ جن گھروں میں نماز کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ان کے بچوں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ صرف بچپنے میں ہی نہیں بلکہ بڑے ہو کر بھی، جوانی میں بھی اور اس کے بعد بھی، کہ ایک تو نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور اگر کبھی کسی دوست کے ساتھ یا ویسے ہی مسجد میں آگئے تو بغیر اس بات کا خیال رکھے کہ وضو قائم ہے یا نہیں، اگر نماز کھڑی دیکھیں گے تو اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ظاہری اور باطنی صفائی کے لئے وضو ضروری ہےاور یہ نماز سنوار کر پڑھنے کی پہلی شرط ہے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر اس بارے میں ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَاَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَاَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ (المائدۃ:7) کہ اے مومنو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ بھی اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ بھی دھو لیا کرو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں بھی دھو لیا کرو۔ تو اس حکم سے واضح ہو گیا کہ اگر پانی کی موجودگی ہے، اسلام اتنا سخت مذہب بھی نہیں، یہ وضو کی ساری شرط پانی کی موجودگی کے ساتھ ہے، تو وضو کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ جہاں یہ صفائی کے لئے ضروری ہے وہاں نماز میں توجہ قائم کرنے کے لئے پوری طرح ہوشیار کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ اور وضو کرنے کے اہتمام سے نمازسے پہلے ہی یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ مَیں اللہ کے حضور جانے لگا ہوں اور دنیاداری کو جھٹک کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے یا اس طرح پاک ہو کر حاضر ہونے کی کوشش کرنی ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مسلمان اور مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا منہ دھوتا ہے تو پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کی وہ تمام بدیاں دھل جاتی ہیں جن کا ارتکاب اس کی آنکھوں نے کیا ہو۔ پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کی وہ تمام غلطیاں دُھل جاتی ہیں۔ جو اس کے دونوں ہاتھوں نے کی ہوں۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک اور صاف ہو کر نکلتا ہے۔ پھر جب وہ پاؤں دھوتا ہے تو اس کی وہ تمام غلطیاں پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دھل جاتی ہیں جن کا اس کے پاؤں نے ارتکاب کیا ہو۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک اور صاف ہوکر نکلتا ہے۔ (مسلم کتاب الطھارۃ باب خروج الخطاء مع ما ء الوضوء حدیث نمبر 465)
تو یہ ہے وضو کی اہمیت۔ لیکن اس سے یہ بھی مطلب نہیں لے لینا چاہئے کہ جان بوجھ کر غلطیاں کرتے رہو، بدنظریاں کرتے رہو، دوسروں کے حقوق مارتے رہو، اپنے مفاد کے لئے دوسروں کو دھوکہ دیتے رہو اور پھر وضو کر لوتو پاک ہو گئے۔ یہ بڑا واضح حکم ہے کہ اگر تم رحمن کے بندے ہو تو پھر اس کا خوف بھی دل میں رکھو۔ تو جو اللہ کا خوف دل میں رکھنے والا ہو گا وہ عادی مجرم نہیں ہو گا بلکہ انجانے میں جو غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں اور ان پر وہ فکر مند رہتا ہے ان سے انسان پاک ہو جاتا ہے۔
پھر نماز کو سنوار کر ادا کرنے کے سلسلے میں ایک اہم بات وقت پر نماز پڑھنا ہے۔ یہ وقت پر نماز پڑھنے کا احساس اور عادت ہی اس وصف کو نمایاں کرنے والی ہو گی کہ یہ انسان یا مومن بندہ نماز سنوار کر پڑھنے کی عادت اور خواہش رکھتا ہے اور اس کو عادت بھی ہے۔
نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا (النّسآء:104) یعنی نماز یقیناً مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے اور یہ نمازوں کے اوقات پانچ مقرر کئے گئے ہیں اور بر وقت نماز کی ایک اہمیت ہے۔
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی حقیقت سے ہمیں آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہروقت جو نماز کا حکم ہمارے لئے مقرر فرمایاہے وہ اپنے اندر کیا اہمیت رکھتا ہے۔ ہر نماز کی اہمیت آپؑ نے بڑی تفصیل سے بیان فرمائی۔ اس وقت اس تفصیل میں تو جانا ممکن نہیں ہے تاہم مختصر یہ کہ انسان کی زندگی مستقل بلاؤں اور مصیبتوں میں گھری ہوئی ہے اور شیطان ہر وقت حملے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ پھر انسان کی زندگی میں مختلف کیفیات اور حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان بلاؤں اور مصیبتوں سے بچنے کے لئے اور شیطان کے حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے اور ان مختلف کیفیات اور حالات کے مطابق جو صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہ فرض کیا ہے کہ دن کے پانچ حصوں میں اللہ کے حضور حاضر ہوا جائے اور جہاں انسان وقت پر نماز پڑھنے کی وجہ سے ان حملوں سے محفوظ رہے گا وہاں روحانیت میں ترقی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا بھی ہو گا۔ پس ہر احمدی کو وقت پر نماز ادا کرنے کی پابندی کرنی چاہئے اس کی اہمیت پر توجہ دینی چاہئے۔
اس زمانے میں جب ہرطرف مادیت کا دَور دَورہ ہے اس طرف توجہ دینا اَور زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ شیطان نت نئے طریقوں سے حملے کرکے انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دل میں یہ وسوسے پیدا کرتا ہے کہ اگر تم نے اس و قت اپنا فلاں دنیاوی کام نہ کیا تو نقصان اٹھاؤ گے اس لئے پہلے اس کام کو نمٹا لو، نماز کا وقت تو ہے لیکن بعد میں اسے جمع کرکے پڑھ لینا۔ اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ ہر زمانے میں شیطان نے مختلف طریقوں سے حملے کرنے ہیں، ہر زمانے میں انسان کی مصروفیات مختلف ہونی ہیں، اس لئے فرمایا کہ ایسی نمازیں جو تمہاری سستیوں اور جو تمہاری دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے وقت پر ادا نہ ہونے کا احتمال ہو یا وہ احتمال رکھتی ہوں ان کی خاص طور پر حفاظت کرو۔ کیونکہ پھر ایک نماز سے لاپرواہی آہستہ آہستہ باقی نمازوں سے بھی غافل کر دیتی ہے۔ اس لئے فرمایاحٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی (البقرۃ:239) یعنی تم تمام نمازوں کا اور خصوصاً درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو۔