دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی کا جشن اور زمینی حقائق
اس دستور کی آڑ میں جو فیصلے کیے گئے وہ تاریخ کی عدالت میں بھی پیش ہوں گے۔ تاریخ بھی اپنا فیصلہ ساتھ ساتھ لکھ رہی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت تاریخ کے قلم پر اثر انداز ہو سکتی ہے نہ اسے روک سکتی ہے۔ معاملہ جب تاریخ کے سپرد ہو جائے تو پھر فیصلے کا حق بھی تاریخ ہی کے پاس ہوتا ہے۔ وقت کے پیغمبر کے انکار کی ایک قیمت ہے جو چکانا پڑتی ہے
پاکستان کا موجودہ آئین دس اپریل ۱۹۷۳ء کو اُس وقت کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور امسال دس اپریل کو اسلام آباد میں اس دستور کی گولڈن جوبلی کا جشن بڑے اہتمام سے منایا گیا ہے۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں یادگارِ دستور تعمیر کی جائے گی جس کا دس اپریل کو سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا۔پارلیمنٹ ہاؤس میں قومی آئینی کنونشن منعقد ہوا جس میں ممتاز قانون دان اور یونیورسٹیز کے وائس چانسلر صاحبان بھی مدعو تھے۔ اس قومی آئینی کنونشن میں تمام ریاستی اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ ۱۹۷۳ء کے آئین پر مکمل عمل درآمد کریں۔ دس اپریل ۱۹۷۳ء کو جب یہ دستور منظور کیا گیا تو چار اکائیوں پر مشتمل ملک میں متفقہ آئین کی منظوری کو ہر اکائی میں موجود تمام طبقات نے سراہا اور اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد جو دو آئین ملک میں رائج ہوئے وہ ملک میں سیاسی استحکام اور قومی اتحاد پیدا کرنے میں کامیاب نہیں رہے تھے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دستور قوم کی تمناؤں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس کی سوچ و فکر کی عکاسی کرتا ہے۔اس میں جہاں عوام کے بنیادی حقوق، آزادیٔ اظہار اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے وہاں آئین کو قوم کی آزادی کا پروانہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
ہندوستان نے اپنا آئین ۱۹۴۹ء میں بنا لیا تھا اس کے بالمقابل پاکستان نے دستور کے تعاقب میں چھبیس برس صرف کر دیے اور جب دستور بنا لیا تو اس وقت کہا گیا کہ اگر یہ دستور پہلے بن جاتا تو پاکستانی عوام کو ان بہت سے سیاسی مصائب سے نجات مل جاتی جو قیامِ پاکستان کے بعد یہاں آفت بن کر نازل ہوئے۔ کالم میں گنجائش نہیں کہ مَیں دستور پاس ہونے کے زمانے میں کی جانے والی تقاریر کی پھلجھڑیوں کے حوالے یہاں نقل کر سکوں۔ کسی نے اس دستور کوآکاش پر چمکتے ہوئے سورج کی پہلی کرن قرار دیا، کسی نے کہا سیاہ رات کٹ گئی اور نویدِ صبح نو کا آغاز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم نے اس دستور سے نئی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ ان پچاس سالوں میں پُر امید قوم پر کیا گزری، دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں فوجیوں اور سول سوسائٹی کے افراد کا خون، مذہب کے نام پر معصوم افراد کا قتل، قبروں میں لیٹے بےگناہوں کی بے حرمتی، سنتِ ابراہیمی پر عمل کرنے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھےدھکیل دیے جانے والے جری اللہ، مذہبی عبادت گاہوں کا مسمار کیا جانا اور عبادت گاہوں پر قبضہ ایک ہلکی سی تصویر ہے۔ اس دستور کے بعد وقوع پذیر ہونے والے سانحات کی جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ دستور قوم کی آزادی کا پروانہ ہے۔ یہ منظر نامہ ہے اس دستور کا جس کو آکاش پر چمکتے سورج کی پہلی کرن سے تشبیہ دی گئی۔
اخبارات میں رپورٹ ہونے والی قومی آئینی کنونشن کے اجلاس میں کی جانے والی تقاریر سے مجھے ایک دانشور کا قول یاد آگیا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’یہ آپ کا اپنا انتخاب ہے کہ آپ تاریخ میں جینا چاہتے ہیں یا اپنے عہد میں۔ جو لوگ اپنے عہد میں جینے کو ترجیح دیتے ہیں انہیں اس بات سے کم غرض ہوتی ہے کہ تاریخ ان کے بارے میں کیا حکم صادر کرتی ہے۔وہ سامنے کے مفاد پر نظر رکھتے اور اپنا لائحہ عمل متعین کرتے ہیں۔‘‘
پارلیمنٹ ۱۹۷۳ء کی ہو یا ۲۰۲۳ء کی حالات نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ یہ اپنے مفاد پر نظر رکھنے والوں اور تاریخ سے بے خبر رہنے والوں کا اجتماع ہے۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ آٹے کے تھیلے کی خاطر کتنی جانیں قربان ہو گئیں اور ایک سال میں کتنے شہری سیلاب کی لہروں کی نذر ہو گئے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اس کنونشن میں اس بات کا حقیقی تجزیہ پیش کیا جاتا کہ دستور کے پچاس سالوں میں ملک و ملت پر کیا گزری۔ غلطیوں سے سیکھنے کا عہدِ نو باندھا جاتا۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر تیر برسانے کا عمل تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔ دس اپریل کا دن تو کیا کھویا اور کیا پایا کی حقیقت جاننے کا دن تھا۔ بدقسمتی سے دستورِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کا جشن ان ایام میں منایا جا رہا ہے جب مذہب، سیاست، عدالت، معاشرت اور معیشت کا ہر باب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے۔ پاکستان میں جب ۱۹۶۲ء کا آئین لکھا جا رہا تھا انہی دنوں فرانس نے بھی اپنا نیا آئین تیار کیا جو آج بھی نافذالعمل اور ترقی کی ضمانت ہے کیونکہ وہ ترامیم کی بھرمار سے مبرا رہا۔ ہم نے ۱۹۶۲ء کے آئین کو ذاتی مفاد کی خاطر بیک جنبشِ قلم مسترد کر دیا اور جس نئے آئین کی نوید قوم کو دی اس میں ذاتی اغراض و مفادات کی خاطر ترامیم کر کے اس کا ایسا حلیہ بگاڑا کہ نہ دین کے رہے نہ دنیا کے۔
ملک میں ستر سے زائد انتہا پسند مذہبی تنظیموں پر پابندی ہے۔ محرم کا مہینہ آئے تو سینکڑوں علماء کے ایک سے دوسرے صوبہ میں داخلہ پر پابندی لگ جاتی ہے۔ چھ ماہ سے IMF کے آگے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔کوئی پیش نہیں جا رہی۔
اس دستور نے ہمیں کیا دیا اس کا خلاصہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے محترم سینئر جج نے اپنے خطاب کے ایک فقرہ میں بیان کر دیا ہے کہ ’’ہم اتنی دشمن سے نفرت نہیں کرتے جتنی ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔‘‘
یہ نفرت ایک دن میں پروان نہیں چڑھی۔ اس نفرت کی بنیاد دستور کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے کی جانے والی ترمیم نے مہیا کی اور اس کو ضیاء الحق کی طرف سے کی جانے والی شخصی ترامیم نے پروان چڑھایا۔ جن ارکانِ پارلیمنٹ نے ضیاء الحق کی طرف سے کی جانے والی شخصی ترامیم کو آئین کا حصہ بنایا وہ ان نفرتوں کو پھیلانے میں برابر کے حصہ دار ہیں جس کی نشان دہی سپریم کورٹ کے فاضل جج کی طرف سے کی گئی ہے۔
اس دستور کی آڑ میں جو فیصلے کیے گئے وہ تاریخ کی عدالت میں بھی پیش ہوں گے۔ تاریخ بھی اپنا فیصلہ ساتھ ساتھ لکھ رہی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت تاریخ کے قلم پر اثر انداز ہو سکتی ہے نہ اسے روک سکتی ہے۔ معاملہ جب تاریخ کے سپرد ہو جائے تو پھر فیصلے کا حق بھی تاریخ ہی کے پاس ہوتا ہے۔ وقت کے فرستادہ کے انکار کی ایک قیمت ہے جو چکانا پڑتی ہے۔
٭…٭…٭