یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۵ء)
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے حلقے میں دنیا کو یہ پیغام دیں اور سمجھائیں کہ غلط ردّ عمل صرف فساد کو جنم دیں گے، اَور کچھ نہیں ہو گا۔ اور جو موجودہ حالات ہیں دنیا کے ان میں پھر بھڑک کر ایک آگ لگ جائے گی اور یہ آگ پھر چاروں طرف پھیلنے والی آگ بن جائے گی جس کی دنیا اس وقت متحمّل نہیں ہو سکتی۔ پس غلط ردّعمل سے نہ لوگوں کو انگیخت کرو، نہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دو۔ خداتعالیٰ دنیا کو عقل دے۔
لیکن اس کے ساتھ ایک احمدی کا ایک بہت بڑا کام اس طریق پر چلنا بھی ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس نبی پر درود اور سلام ایک جوش کے ساتھ بھیجو۔ گو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر ایک مومن کو حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور کیوں یا کس لئے کا سوال نہیں اٹھانا چاہئے۔ ظاہر ہے عموماً اٹھاتا بھی نہیں۔ جُوں جُوں کسی کا ایمان اور دینی معاملات کا علم اور دعاؤں کا فہم بڑھتا ہے حکم کی حکمت اور فوائد بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں یا سمجھ آ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ علم حاصل کر کے سیکھنا بھی اسلامی تعلیم کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ علم حاصل کرو اور سیکھو بھی اور یہ فہم اور ادراک حاصل کرنے کی کوشش بھی کرو۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بھی بڑھاؤ۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یہ سیکھو تاکہ حکمت جلد سے جلد سمجھ آ جائے۔ نہ کہ اس انتظار میں رہو کہ آہستہ آہستہ سیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا فہم اور ادراک بھی حاصل ہو جائے اور پھر یہ فہم اور ادراک حاصل ہونے کی وجہ سے بہتر رنگ میں اس پر عمل ہو سکے۔
…ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبّت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس محبت کے تقاضے کی وجہ سے ہمارے دل اُس وقت چھلنی ہوتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی نازیبا الفاظ کہے جائیں یا کسی بھی طرح غلط رنگ میں آپ کی طرف کوئی بات منسوب کی جائے۔ لیکن اس محبت کا حقیقی اظہار اور اس کا فائدہ کس طرح ہو گا، اس بارے میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔ (سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ …حدیث نمبر484)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا اظہار جس کے نتیجے میں آپؐ کا قرب ملے درود شریف پڑھنے سے ہی ہے۔
پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اس دن کے خطرات سے اور ہولناک مواقع سے تم میں سے سب سے زیادہ محفوظ اور نجات یافتہ وہ شخص ہو گا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔ فرمایا کہ میرے لئے تو اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا درود ہی کافی تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ثواب پانے کا ایک موقع بخشا ہے کہ تم درود بھیجو۔(کنزالعمال جزء اول صفحہ 254 کتاب الاذکار / قسم الاقوال حدیث نمبر 2225 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
پھر دعا کرنے کے صحیح طریق کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور دعا کرتے ہوئے کہا۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تُو نے جلدی کی۔ چاہئے کہ جب تُو نماز پڑھے اور بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثنا کرے۔ پھر مجھ پر درود بھیجے۔ پھر جو بھی دعا وہ چاہتا ہے مانگے۔ راوی کہتے ہیں پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَیُّھَا الْمُصَلِّی اُدْعُ تُجَبْ۔ کہ اے نماز پڑھنے والے دعا کر، قبول کی جائے گی۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی جامع الصلوات عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر3476)
درود پڑھنے کے لئے کس طرح کوشش ہونی چاہئے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مرید کو لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں … اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو (ذاتی غرض کوئی نہ ہو)۔ اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 534-535 مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر18شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
… پس درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کی آواز پر ہم لبّیک کہنے والے ہوں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے پر پورے اترنے والے ہوں۔ صرف نعروں اور جلوسوں سے یہ محبت کا حق ادا نہیں ہو گا جو غیر از جماعت مسلمان کرتے رہتے ہیں۔ اس محبّت کا حق ادا کرنے کے لئے آج ہر احمدی کروڑوں کروڑ درود اور سلام اپنے دل کے درد کے ساتھ ملا کر عرش پر پہنچائے۔ یہ درود بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ دشمن کے خاتمے میں کام آئے گا۔