وقف کا ایک تقاضا اپنے اندر قربانی کی حقیقی روح پیدا کرنا ہے(سالانہ اجتماع واقفینِ نَو (یوکے) سے حضورِ انور کا اختتامی خطاب)
مورخہ ۳۰؍اپریل ۲۰۲۳ء بروز اتوارجماعت احمدیہ برطانیہ کے واقفینِ نَو کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا۔ اس روز بھی امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس تشریف لائے اور اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب فرمایا۔
اجتماع کی اختتامی کارروائی سے قبل حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد بیت الفتوح تشریف لائے اور ساڑھے چار بجے کے قریب نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔
اختتامی اجلاس کی کارروائی
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ پانچ بج کر چھ منٹ پر طاہر ہال میں تشریف لائے اور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما کر کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہوئے۔
اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ عزیزم احسان احمد نے سورۃ الصّٰفّٰت کی آیت ۱۰۰ تا ۱۱۲ کی تلاوت کی اوران آیات کا اردو ترجمہ عزیزم مظفر احمد جبکہ انگریزی ترجمہ عزیزم مشہود احمد کو پیش کرنے کی سعادت ملی۔ اس کے بعد عزیزم صہیب احمد نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے منظوم کلام؎
تری محبت میں میرے پیارے ہر اک مصیبت اٹھائیں گے ہم
مگر نہ چھوڑیں گے تجھ کو ہرگز نہ تیرے در پر سے جائیں گے ہم
میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔ ان اشعار کا انگریزی ترجمہ عزیزم مبرور فرخ نے پیش کیا۔
بعد ازاں انس رانا صاحب سیکرٹری وقفِ نو جماعت یوکے نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔ موصوف نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضورِ انور کی دعاؤں کے طفیل ہمیں چار سال بعد واقفین نو کا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق ملی ہے۔ امسال واقفین نو کو عمر کے اعتبار سے پانچ گروپس میں تقسیم کر کے مزید بیس گروپس میں تقسیم کیا گیا اور ہر گروپ کا ایک نگران مقرر ہوا۔ امسال نصاب کا امتحان نہیں تھا تاہم گروپ لیڈرز مختلف activitiesکے دوران واقفین کا جائزہ لیتے رہے۔ اجتماع کا افتتاحی اجلاس مکرم لقمان احمد کشور صاحب (انچارج شعبہ وقف نو مرکزیہ) کی زیر صدارت ہوا۔ علمی مقابلہ جات کے علاوہ مختلف ورکشاپس اور پریزنٹیشنز منعقد ہوئیں۔ اسی طرح محترم امیر صاحب جماعت یوکے کے ساتھ ایک خصوصی نشست منعقد کی گئی جس میں امیر صاحب نے خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ چند یادوں کا تذکرہ کیا۔
حاضری کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ امسال اجتماع میں واقفین نو کی حاضری ۱۵۵۲؍تھی جبکہ مہمانوں سمیت کُل حاضری ۱۷۳۷؍ رہی۔
خطاب حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
پانچ بج کر پچیس منٹ پر حضورِ انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرما کر خطاب کا آغاز فرمایا۔ حضورِ انور نے یہ خطاب انگریزی زبان میں ارشاد فرمایا۔تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
خدا تعالیٰ کے فضل سے آج شعبہ وقفِ نو برطانیہ کو اپنا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اس اجتماع کا مقصد یہی ہے کہ تمام واقفینِ نو اکٹھے ہو کر تحریکِ وقفِ نَو کے اغراض و مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دینی اور اخلاقی معیاروں کو بلند کرنے کی مشترکہ کوشش کریں۔ خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مزید گہرا کرنے کے لیے کوشش کریں۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آپ کے والدین نے آپ کی پیدائش سے پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی ہونے والی اولاد کو خدا اور اس کے دین کی خاطر پیش کریں گے۔ لیکن ہر واقفِ نو پر یہ لازم نہیں کہ وہ خود بھی ضرور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرے بلکہ وہ اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، کئی ہیں جو شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہیں اور یوں اپنے والدین پر انحصار کرنے کی بجائے اب خود مختار ہیں۔ پس آپ سب اپنے اس عہد کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ کا یہ عہد کسی معمولی انسان سے کیا گیا عہد نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ سے کیا گیا عہد ہے۔ آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ آپ اپنی زندگیاں صرف خدا اور اس کے دین کی خدمت میں بسر کریں گے۔ آج مَیں اسی حوالے سے کچھ بات کروں گا کہ یہ وقف آپ سے کیا تقاضا کرتا ہے اور قربانی کی کیا روح ہے جو آپ میں ہونی چاہیے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنے عقیدے، اپنے عمل اور اپنے کردار میں بہترین بن کر دکھائیں۔ آپ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگیاں بسر کرنے والے ہوں۔ آپ ہمیشہ خدا کی محبت کے حصول میں مشغول رہیں کیونکہ اسی طرح آپ اپنے حقِ بیعت کو ادا کرسکتے ہیں۔
آپ کا عہد یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ آپ ہر قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ خدا سے ہمیشہ وفا کا تعلق نبھانے والے ہوں۔ وفا کے مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی روشنی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دی ہے۔ جہاں قرآن کریم نے فرمایا کہ ابراہیم وہ ہے کہ جس نے وفا کا حق ادا کردیا۔ گویا قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفا کی شہادت دی ہے۔ پس آپ کا عہد بھی ایسی ہی وفا کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ نے اپنے آخری سانس تک اس عہد کو نبھانا ہے۔ اگر ہر واقف نو اپنے عہد کو نبھانے والا بن جائے تو یقیناً ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوجائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسان خدا کی خاطر کامل سچائی پر قائم رہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق وفا ایک موت مانگتی ہے۔ انسان اپنی نفسانی خواہشات اور دنیا کی رنگینیوں سے منہ موڑ کر ہی خدا سے وفا کا حق ادا کرسکتا ہے۔
یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ ایک دشوار گزار راستہ ہے۔ یہ کوئی آسان راہ گزر نہیں۔ ہر وہ چیز جو خدا سے دور لے جانے والی ہے اسے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرک قرار دیا ہے۔ پس ان پوشیدہ اور مخفی شرک کی راہوں سے بچ کر ہی ہم وفا کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ اس بات کا زبانی اقرار کرنا تو آسان ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کا فرمانبردار ہوں، اور اس کی راہ میں ہر قربانی کے لیے تیار ہوں لیکن اس کا صحیح علم تو امتحان کے وقت ہی ہوتا ہے۔ جب انسان سے قربانی مانگی جائے تو اس وقت پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے عہد میں کتنا سچا ہے۔ ایسے قربانی کرنے والے جو خدا پر توکل کرتے ہوئے، مشکلات کا مقابلہ صبر اور حوصلے کے ساتھ کرتے ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں بڑی خوش خبری دی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا کی خاطر ہم و غم برداشت کرتا ہے خدا خود اسے ہم و غم سے نجات عطا فرماتا ہے۔ دیکھو حضرت ابرہیم علیہ السلام خدا کی خاطر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے تو خدا نے آپ علیہ السلام کو ہر پریشانی اور ابتلا سے خود ہی بچالیا یہاں تک کہ آگ تک آپ علیہ السلام کو نقصان نہ پہنچا سکی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی ہر طرح کی قربانی کے لیے خود کو پیش کیا۔ انہوں نے اپنی خواہشات اور اپنی پسند کو خدا کی خاطر قربان کردیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اپنی تعلیم کو دنیا کمانے کی بجائے دین کی خدمت کی خاطر استعمال کیا۔
ان صحابہ کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے عہدوں کو نبھانے والے ہوں۔ اس مقصد کے لیے سب سے بڑھ کر جو بات اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنی عبادات کے معیار بلند کرنے والے ہوں۔ اپنی پنجوقتہ نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ پوری توجہ اور مطالب کو سمجھتے ہوئے دعا کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ تیز تیز اور جلد نماز ادا کرنے کی بجائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے مطابق نماز کو سنوار کر ادا کرنے والے ہوں۔ ہر واقفِ نو کو اپنی نمازوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ سجدہ میں تضرع کے ساتھ دعائیں کرے۔ پس ہمیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نماز ادا کرنی چاہیے۔ ایک واقف نَو کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے وفا کا اعلیٰ معیار حاصل کرے۔بطور وقف نَو آپ کوچاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت ترجمہ کے ساتھ کریں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفائے کرام کی تفاسیر کا مطالعہ کریں۔ اگر آپ ان تفاسیر کونہیں پڑھیں گے تو کس طرح آپ ان تعلیمات کو دنیا تک پہنچائیں گے۔
ہر وقف نَو کا فرض ہے کہ اپنی اخلاقی حالت کو بہتر بنائے اور روزمرّہ کی زندگی میں اپنے اردگرد کے تمام لوگوں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ ہمیشہ سچ بولیں، لوگوں سے محبت کے ساتھ پیش آئیں اور اپنے تقویٰ کے معیار کوبڑھائیں۔ جن کی شادیاں ہونے والی ہیں وہ بھی تقویٰ کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنی شریک حیات کا انتخاب کریں۔ شادی کے بعد اپنی بیویوں سے محبت کے ساتھ پیش آئیں اور اپنے بچوں کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں اور ان کے لیے نمونہ بنیں۔ اس طرح آپ آئندہ نسلوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ یہ نصائح عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کےلیے بھی ہیں۔
حیا مردوں کے لیے بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح عورتوں کےلیے ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ جب وہ باہر نکلیں تو غض بصر سے کام لیں۔ سوشل میڈیا کے بُرے اثرات سے بھی بچنے کی کوشش کریں۔ گندی فلمیں اخلاق کےلیے سخت نقصان دہ ہیں لہٰذا اس سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی بچے خاص طور پر واقفین نو کے لیے لازم ہے کہ حیا کو اپنا شیوہ بنائیں۔
اگر آپ خدام الاحمدیہ میں ہیں تو ان کے اجتماعات میں بھرپور شرکت کریں اور اپنی ذیلی تنظیم کی طرف سے مفوضہ ڈیوٹیوں کو بھی مستعدی سے ادا کریں۔ ہمیشہ کوشش کریں کہ اجتماعات کے تمام پروگرامز میں شامل ہوں ۔ اپنی دینی تعلیمی استعداد بڑھا کر دوسروں کےلیے ایک نمونہ بنیں تاکہ آپ میں اور دوسروں میں ایک واضح فرق نظر آئے۔ اگر آپ یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے افضال حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اسی طرح تبلیغ کرنا بھی آپ کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے تاکہ اسلام کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو دُور کرکے دنیا کو حقیقی اسلامی تعلیم سے رُوشناس کروائیں اور یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب آپ اپنے دینی علم کو بڑھائیں گے۔اس کے لیے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل سے ہمیشہ عاجزی کا اظہار ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم عاجزی اور انکساری کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلیں تاکہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے والے بنیں۔
دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنی بھی ضروری ہے۔ اس لیے واقفین نوکو چاہیے کہ اپنے دینی علم کے علاوہ دنیاوی تعلیم میں بھی اضافہ کریں۔ جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنے دنیاوی علم کو بڑھانے کی کوشش کریں تاکہ انہیں علم ہو کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ ایسے واقفین نو جو ملازمت کررہے ہیں یا تحقیق کے شعبہ میں ہیں وہ بھی اپنے علم کو بڑھائیں۔ جب آپ اپنے علم کو بڑھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کےفضل سے آپ دنیا کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی عظمت کو بتانے والے ہوں گے۔اللہ کرے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے وفا کا تعلق بڑھانے والے ہوں اور آپ کا اخلاقی و روحانی معیار بڑھے اور آپ دلوں کو فتح کرنے والےبنیں۔
اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور تمام حاضرین کو ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کا تحفہ عطا فرما کر طاہر ہال سے تشریف لے گئے۔
٭…٭…٭