حضرت مصلح موعودؓ کا قرآن مجید سے عشق
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ حضورؓ کے بارے میں تحریر فرماتی ہیں:
’’قرآن مجید سے آپؓ کو جو عشق تھا اور جس طرح آپ نے اس کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے۔ خدا تعالیٰ کی آپؓ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ جن دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہو گئی اور لکھتے چلے گئے۔ تفسیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کے پہلے حملہ کے بعد یعنی 1956ء میں طبیعت کافی کمزور ہو چکی تھی۔ گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہو چکی تھی۔ مگر پھر بھی کمزوری باقی تھی ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں فکر نہ کریں زیادہ محنت نہ کریں۔ لیکن آپؓ کو ایک دھن تھی کہ قرآن کے ترجمہ کا کام ختم ہو جائے۔ بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے۔ کبھی مجھ سے املا کرواتے۔ مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہے۔ آخری سورتیں لکھوا رہے تھے غالباً انتیسواں سپارہ تھا یا آخری شروع ہو چکا تھا ( ہم لوگ نخلہ میں تھے وہیں تفسیر صغیر مکمل ہوئی تھی) کہ مجھے بہت تیز بخار ہو گیا میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دن سے مجھے ہی ترجمہ لکھوا رہے ہیں میرے ہاتھوں ہی یہ مقدس کام ختم ہو۔ میں بخار سے مجبور تھی ان سے کہا کہ میں نے دوائی کھا لی ہے آج یا کل بخار اتر جائے گا۔ دو دن آپ بھی آرام کر لیں آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا میں ثواب حاصل کر سکوں۔ نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔ تمہارے بخاراترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آ جائے تو؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیر صغیر کا کام ختم ہو گیا۔
بے شک تفسیر کبیر مکمل قرآن مجید کی نہیں لکھی گئی مگر جو علوم کا خزانہ ان جلدوں میں آپؓ چھوڑ گئے ہیں وہ اتنا زیادہ ہے کہ ہماری جماعت کے احباب ان کو پڑھیں ان سے فائدہ اٹھا ئیں تو بڑے سے بڑا عالم ان کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے۔‘‘ (خطابات مریم جلد اول صفحہ 67)
(مرسلہ: فوزیہ شکور۔ جرمنی)