بچے کے لیے ماں کا سب سے اچھا ورثہ تقویٰ ہے
یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آئے وقت میری واپسی کا
بچے اللہ رب العزت کا نہایت ہی قیمتی انعام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی میں رونق بیان کیا ہے لیکن یہ رونق و بہار اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث اس وقت ہیں جب اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے بچپن سے ہی ان کی صحیح نشو ونما ،دینی و اخلاقی تربیت کی جائے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے بچے کے لیے اس کے ماں باپ رول ماڈل ہوتے ہیں بچے وہی کام کرتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے اپنے بچوں کو صحیح اسلامی عقائد سکھائیں اعلیٰ اخلاق اپنانے اور عمدہ اعمال بجا لانے کی تلقین کرتے رہیں اور اپنے عملی نمونہ سے اس رنگ میں ان کی تربیت کریں کہ ان کا اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ مضبوط اور پختہ تعلق قائم ہو جائے۔
تقویٰ ہی وہ بنیاد ہے جس سے ہر بدی کو دور کیا جا سکتا ہے ایک بچے کے لیے ماں کا سب سے اچھا ورثہ تقویٰ ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤاور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو… وہ کام کرو جو اولاد کے لئے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لئےضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گے۔ اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۴۴۴-۴۴۵ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نےلجنہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آج کے دور میں پیدا ہونے والے بچوں پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آئندہ نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے۔ کثرت کے ساتھ لوگ داخل ہو رہے ہیں۔ صرف زبان کی بات نہیں ہے۔ اپنے اعمال سے، اپنی تنظیم اور نظم و ضبط کے ذریعے احمدیوں کو ایسے نمونے بنانے پڑیں گے جن کے نتیجے میں ہر دیکھنے والا ان نمونوں سے متاثر ہو اور ان کے ساتھ رہنا ہی ان کی تربیت کا موجب بن جائے۔ پس ایسے اچھے بچے پیدا کرنے کے لئے آپ کو اچھی ماں بننا ہو گا۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ اچھی مائیں نہ بنیں اور اپنےبچوں کے لئے دعائیں کرتی رہیں اور دعائیں منگواتی رہیں کہ ان کو خدا اچھا بنا دے۔ ایسی مائیں جو دنیا کی ہو چکی ہوتی ہیں جن کی تمنائیں دنیا کے لئے وقف ہو جاتی ہیں، جن کی خواہشات دنیا کی زندگی کے لیے ہو جاتی ہیںبعض دفعہ ان کے دل میں بھی دین کی محبت ہوتی ہے اور پہلی منزل پر وہ نہیں سمجھتیں کہ ہمارا رخ کس طرف ہے۔ دل میں بچپن سے یہ بات داخل کی جا چکی ہے اور جا گزیں کی جا چکی ہے کہ دین دنیا پر غالب رہنا چاہیے چنانچہ وہ اپنے بچوں کے لئے دین ہی مانگتی ہیں اور دین کی دعائیں کرتی ہیں اور جب بھی موقع ملے وہ لکھتی بھی ہیں لیکن خود وہ دنیا کی ہوچکی ہوتی ہیں۔ ایسی ماؤں کے بچے بالآخر ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ بچوں کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ ذہانت رکھی ہے کہ اپنے ماں باپ کے اصل مدعا کو پہچان لیتے ہیں۔ اگر ماں باپ ان کو کہیں کہ اچھے بنو، سچے بنو، نیک بنواور خود جھوٹ بول رہے ہوں، خود وقت ضائع کر رہے ہوں، خود خواہشات دنیا کی ہوں، تو بچے خاموش بھی رہیں گے تو دل ان کا بتا رہا ہو گا کہ ماں باپ گپیں مارتے ہیں۔ ان کو دنیا زیادہ اچھی لگتی ہے دین نسبتاً کم اچھا لگتا ہے اگر ماں باپ کے دل میں دین کی گہری محبت ہو تو وہ خاموش بھی ہوں تو ان کے بچوں پر بہت نیک اثرات پڑتے ہیں۔ ہم نے ایسی جاہل مائیں بھی دیکھی ہیں جو دنیا کے لحاظ سے جاہل لیکن دل میں نیکی اور الله اور رسول کی محبت جاگزیں تھی سادہ سےلوگ تھے۔ پرانے زمانوں کے لوگ لیکن ان کی اولادیں سب کی سب خدا کے فضل سے دیندار بنیں۔ اور جب آپ ان سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ تو ہماری ماں کا احسان ہے، اس نے دودھ میں ہمیں اللہ کی محبت پلائی۔ پس یہ جو دودھ پلانے کا محاورہ ہے اس میں بہت گہری حکمت کی بات ہے۔ دودھ میں محبت پلانے کا مطلب یہ ہے کہ ان ماؤں کے خون میں وہ محبت رچی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ دودھ پلائیں تو دودھ کے ذریعہ وہ محبت بچوں میں جاتی ہے۔ وہ باتیں کریں تو باتوں کے ذریعہ وہ محبت جاتی ہے۔لوریاں دیں تو تب بھی وہ محبت ان کے دلوں میں جاتی ہے۔ وہ ان کو جب پیار کی نظروں سے دیکھتی ہیں تو بسم اللہ کہتی ہیں اور دعائیں کرتی جاتی ہیں کہ اللہ ان کو نیک بنائے اللہ ان کو نیکی پر پروان چڑھائے ایسی سادہ مائیں جو خود عالم نہ بھی ہوں دین کا کوئی خاص علم نہ بھی رکھتی ہوں لیکن تقویٰ رکھتی ہیں اور سب سے اچھا ورثہ جو ماں کسی بچے کو دے سکتی ہے وہ تقویٰ کا ورثہ ہے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کےزائل ہونے کا خوف، یہ تقویٰ ہے جو مائیں اپنے بچوں کو عطا کر سکتی ہیں۔ ان چیزوں کی طرف توجہ کریں اور یہ کام بچپن میں ہونے چاہئیں۔‘‘ (حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ صفحہ ۱۴۴-۱۴۵)
آج کل کے حالات کے پیش نظر ہمیں پہلے سے بڑھ کر خود اپنے تقویٰ کے معیار بلند کرنے ہوں گے خلیفہ وقت کے ہر ارشاد پر عمل کرنا ہو گا تاکہ ہمارے بچے بھی ہم سے اچھے اخلاق سیکھیں تا ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ رہیں۔
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی الله عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’یہ زمانہ ایسا نہیں جس میں ہم ذرا بھی غفلت برتیں اور سستی سے کام لیں۔ اس لئے ہمارایہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال لیں، ان کی بہترین رنگ میں تربیت کریں۔‘‘ (مشعل راہ جلد دوم صفحہ ۴۰۵)
اللہ تعالیٰ ہم سب ماؤں کو توفیق دے کہ ہم اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند کریں تا ہماری نسلیں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہوں نیز خلیفہ وقت کے ہر ارشاد پر عمل کرنے والی ہوں۔ آمین ثم آمین
٭…٭…٭