السلام علیکم کی دعا اسلام کے شعائر میں سے ہے
اس زمانہ میں اسلام کے اکثر امراء کا حال سب سے بدتر ہے وہ گویا یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف کھانے پینے اور فسق و فجور کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ دین سے وہ بالکل بے خبر اور تقویٰ سے خالی اور تکبر اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگر ایک غریب ان کو السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا اپنے لئے عار سمجھتے ہیں۔ بلکہ غریب کے منہ سے اس کلمہ کو ایک گستاخی کا کلمہ اور بے باکی کی حرکت خیال کرتے ہیں حالانکہ پہلے زمانہ کے اسلام کے بڑے بڑے بادشاہ السلام علیکم میں کوئی اپنی کسر شان نہیں سمجھتے تھے مگر یہ لوگ تو بادشاہ بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی بے جا تکبر نے ان کی نظر میں ایسا پیاراکلمہ جو السلام علیکم ہے جو سلامت رہنے کے لئے ایک دعا ہے حقیر کرکے دکھایا ہے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ زمانہ کس قدربدل گیا ہے کہ ہر ایک شعار اسلام کا تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
(چشمہٴ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ۳۲۷)
قاضی محمد یوسف صاحب نے مجھ سےبیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سلام کا اس قدر خیال تھا کہ حضورؑ اگر چند لمحوں کے لئے بھی جماعت سے اٹھ کر گھرجاتے اور پھر واپس تشریف لاتے تو ہر بار جاتے بھی اور آتے بھی السلام علیکم کہتے۔
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۵۲۷)
حافظ محمدابراہیم صاحب محلہ دارالفضل قادیان نے…بیان کیا کہ… اکثر حضور علیہ السلام، السلام علیکم پہلے کہا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۶۱۸)