حضرت مصلح موعود ؓ

ہماری ترقی کاراز ہماری روحانی طاقت میں ہے

یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ مسلمانوں کی ترقی کا ایک اور ایک ہی طریق ہے کہ اس کی بنیاد اسلام پر ہو

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۹؍ستمبر ۱۹۲۷ء بمقام شملہ)

۱۹۲۷ء کے اس خطبہ جمعہ میں حضورؓنے قومی اور مذہبی ترقی میں فرق بیان کیا ہےنیز اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طریق پر مذہبی ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔(ادارہ)

تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

ہر ایک بیماری کا علاج جب تک صحیح طریق پر نہ کیا جائے کبھی بھی پورے طور پر شفاء نہیں ہو سکتی۔ یہی اصل انفرادی اور قومی بیماریوں کے علاج کے لئے ہے۔ اس وقت جو مسلمانوں کے لئے تکلیف اور مصیبت کے دن ہیں۔ ان تکالیف اور مصائب سے نجات ممکن نہیں جب تک صحیح طور پر علاج نہ کیا جائے۔ اور وہ صحیح علاج جو ان کو ہر قسم کے دکھوں سے شفاء دے خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر نہیں ہو سکتا اور جب تک خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے علاج اور طریقہ پر کار بند نہ ہوں گے ان قومی امراض سے شفاء نہیں ہو گی۔

عام طور پر لوگوں کو یہ بھی ٹھو کر لگتی ہے کہ وہ قومی اور مذہبی ترقی میں امتیاز و فرق نہیں کرتے

اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صحیح اصول کو چھوڑ دیتے ہیں اور کامیاب نہیں ہوتے۔ قومی اور مذہبی ترقی کے اصول جداجدا ہیں۔ اسلام کسی قوم کا نہیں بلکہ وہ ایک مذہب ہے اور اس کے اندر بہت سی قومیں ہیں۔ اگر محض قومی اصول کو مد نظر رکھا جائے تو بھی مسلمان ترقی نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ مختلف قوموں کی ترقی کے جدا جدا اسباب ہوتے ہیں۔ ہر ایک قوم کی ترقی کے لئے اس کے حالات اس کی ضروریات اس کی روایات و عادات اور اس کے ماحول پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ان امور کو نظر انداز کر دیا جائے تو بجائے اس قوم کی ترقی کے تنزل ہوتا ہے۔ لیکن جب ان امور پر غور کر لیا جاتا ہے تو ایک نتیجہ نکل آتا ہے اور ترقی کی راہوں کے لئے ایک طریق مستقیم پیش ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اس قوم میں فلاں باتیں خصوصاً پائی جاتی ہیں جو خصوصیات قومی ہوں گی۔ فلاں قومی کمزوریاں ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے کہ بغیر اس کے ترقی نہیں ہو سکتی اور فلاں خوبیاں ہیں جن کی تربیت سے ان میں اور بھی خوبی پیدا ہو کر ترقی کا موجب ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح اس کے ماحول کو دیکھ کر ہم ان اسباب پر نظر کر سکتے ہیں جو اس کی ترقی کے مؤید ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کشمیری اور افغان دو قومیں ہیں۔ ان کے عادات ان کی ضروریات اور قومی خصائص جدا جدا ہیں۔ جس اصول پر کشمیری ترقی کر سکتے ہیں۔ پٹھان اس اصول پر ترقی نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ دونوں قوموں کے ماحول نے ان پر جدا جدا اثر ڈالا ہے۔ پٹھانوں کی ترقی کا سوال جب آئے گا تو ان کی تربیت و اصلاح کے لئے ضروری ہوگا کہ ان کی خشونت اور جلد بازی میں کمی کریں۔ اور جب کشمیریوں کی ترقی کا سوال ہو تو ضروری ہو گا کہ ان میں جرأت،خودداری، بہادری اور صداقت کے بیان کرنے میں دلیری کی قوت پیدا ہو۔ اگر دونوں قوموں کا علاج ایک ہی طریق پر کریں تو دونوں ہی تباہ ہو جائیں گی۔ افغانوں کے لئے الگ نسخہ کی ضرورت ہے اور کشمیریوں کے لئے جد اعلاج درکار ہے۔ پس جب تک یہ اصول مد نظر نہ رکھا جائے گا ہم ترقی نہیں کر سکتے جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اسلام مذہب ہے کوئی قوم نہیں بلکہ وہ مختلف اقوام کو اپنے حلقہ میں رکھتا ہے۔

اسلام مشتمل ہے کشمیریوں پر، افغانوں پر، عربوں، مصریوں، ترکوں، چینیوں پر اور مختلف ممالک کے باشندے اس میں داخل ہیں۔

اب ہر قوم اور ملک کے مسلمانوں کے حالات ان کی ضرورتیں ان کے عادات و ماحول جدا جدا ہیں اس لئے بحیثیت قوم کے ہر قوم کی ترقی کے جدا اسباب ہونگے پس جب کہ کوئی دو قومیں بھی ایسی نہیں ہو سکتیں جو ایک مقرر قانون کے ماتحت ترقی کر سکیں تو ہزاروں کیونکر ترقی کر سکتی ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ مذہبی ترقی مذہب کے اصول پر ہو۔ قومی ترقی ممکن ہے کہ مذہب کے بغیر بھی ہو سکے ایک بنگالی،مدراسی، سندھی، ترک، عرب اپنے حالات اور عادات روایات اور ماحول میں ترقی کر سکتا ہے۔ مگرسب کی سب قومیں ایک ہی اصول پر ترقی کرنا چاہیں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ وہ مذہبی اصول پر ترقی کریں۔ جب وہ مذہبی اصول کو پابندی کے ساتھ مضبوط پکڑلیں تو وہ سب کی سب ترقی کر سکیں گی۔ اس لئے کہ مذہب نے ان کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ قومی اصول پر ایک قوم ترقی کر سکتی ہے۔ بہ ہیئت مجموعی تمام مسلمان نہیں۔ یہ جدا امر ہے کہ بعض امور ان میں ترقی کے لئے مشترک بھی ہوں۔ چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان ترقی کریں۔ اس لئے اس کے لئے ہم کو اس اصول پر کار بند ہونا چاہئے جو مذہبی ترقی کا ہے۔

مذہبی ترقی کے لئے ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے

جس کو دنیا کے مخصوص حالات اپنے اندر احاطہ نہیں کر سکتے اور وہ یقین اور ایمان ہوتا ہے۔ اقوام کی ترقی کے لئے ان اقوام کی مخصوص شکایات اور کمزوریوں کو دورکرنا ہوتا ہے اور مذہب کی ترقی کے لئے ایمان اور یقین کی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جو ہر چیز کو بدل سکتی ہے۔ یاد رکھو کہ ایمان در اصل اکسیر اعظم ہے۔ یہ حقیقی اکسیر کا نام ہے۔ لوگ خیالی اکسیر کی تلاش میں رہتے ہیں جو قلب ماہیت کر دیتی ہے اور وہ ہر مرض کے لئے مفید ہے۔ لیکن میں تمہیں یقینی اکسیر کا پتہ دیتا ہوں۔ اور اسی کی طرف بلاتا ہوں۔ یہ اکسیر اکسیر ایمان ہے۔ اکسیر ایمان وہ قوت اور تاثیر ہے کہ ایک کشمیری کو جو اپنے ماحول اور دوسرے اسباب کے ماتحت دلیری اور جرأت کا محتاج ہو گیا ہے دلیر بنا دے گی۔ اور ایک افغان کی خشونت کو رحم اور ہمدردی سے بدل دے گی۔ یہ ایمانی اکسیر ان تمام کمزوریوں کو دور کر دیتی ہے جو کسی قوم میں پیدا ہو کر اس کی ذلت اور موت کا موجب ہو جاتی ہیں۔ بلکہ اس میں ایسا اثر ہے کہ وہ قوموں کو زندہ کر دیتی ہے۔ یہ یقین کہ ہم ایک ایسی بالا ہستی کو ملنے والے ہیں جو اپنی قوتوں میں بےنظیر اور تمام خوبیوں کو اپنے اندر رکھتی ہے۔ اور وہ ہماری تمام حاجتوں کو پورا کرنے والی ہے تو اس ایمان سے محبت اور اس محبت میں خلوص اور پھر خلوص سے سچی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ اور انسان کے اندر یہ جوش کام کرنے لگتا ہے کہ میں اس کی صفات کے موافق اپنا کیر کٹر بنالوں۔ جب ایمان اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور عملی قوتیں نشو و نما پانے لگتی ہیں۔ تو ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ اسی ایک نسخہ سے سب کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں۔ بخل سخاوت سے بزدلی جرأت سے سختی نرمی سے ظلم عدل و انصاف سے بے رحمی ہمدردی اور باہمی اعانت سے تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور تمام رذائل دور ہو کر اخلاق فاضلہ پیدا ہو جاتے ہیں۔اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام اقوام ایک ہی وقت میں ترقی کر سکتی ہیں۔ پس

مسلمانوں کی ترقی کے لئے جو اصول ضروری ہے وہ ان کی مذہبی ترقی ہے۔

جس قدر ان میں ایمان اور یقین کی قوت ترقی کرے گی۔ اسی قدر وہ ترقی کی طرف جائیں گے۔ اور اس ایک اکسیر سے روئے زمین کے مسلمانوں کی خواہ وہ کسی قوم کے ہوں ترقی ہوگی۔ یہ نسخہ سب کے لئے ہے۔ وہ کشمیری ہوں یا افغان۔ ترک ہوں یا عرب۔ مصری ہوں یا چینی۔ ہندی ہوں یا کوئی اور۔ ایمان ہی ایک اکسیر ہے جو ہر تبدیلی کر سکتی ہے۔ ایمان ہی وہ قوت عطا کرتا ہے جس کی نظیر نہیں۔ مسلمانوں میں اس وقت ایک قسم کی بیداری ہے اور وہ قومی ترقی کے لئے فکر مند ہیں۔ قومی ترقی ہو بھی رہی ہےمگرمذہبی حیثیت سے وہ گر رہے ہیں۔ ترک ترقی کر رہے ہیں لیکن مذہبی حیثیت سے ہر قدم پیچھے جا رہا ہے اور وہ مصریوں اور ہندوستانیوں سے جدا کرتا جاتا ہے۔ اسی طرح پر مصری اور ایرانی اپنے اپنے حلقہ میں ترقی کر رہے ہیں۔ لیکن اسلامی حیثیت سے وہ ایک دو سرے سے دورہو رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ جب تک اسلام کی ترقی نہ ہو اور یقین اور ایمان نہ بڑھے ترقی کا قدم دور لے جارہا ہے۔ پس قومی ترقی کی تدابیر جدا ہیں اور مذہبی ترقی کی جدا اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے ایمان اور یہ کہ ہمارے اعمال کی بنیاد اسلام پر ہو۔ اگر اس راہ کو ہم نے اختیار نہ کیا تو مسلمانوں کی ترقی نہ ہوگی۔ یہ ممکن ہے ایرانیوں ترکوں، یا مصریوں کی ترقی ہو۔ مگر وہ اسلام کی ترقی نہ ہوگی جب تک مذہب کی ترقی نہ ہو۔ اور وہ مذہب اسلام کی عملی روح ہے۔ عیسائیوں کی قومی ترقی نے مذہبی ترقی کو روک دیا ہے۔ جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ مڈل ایجز( middle ages) میں گوان کی دنیوی ترقی ایسی نہ تھی جو آج نظر آتی ہے اگر وہ ایک لائن پر چل رہے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ عیسائیت کے روحانی تنزل کا زمانہ بھی تھا۔ لیکن اسلام کی ابتدائی ترقی نے روحانی اور دنیوی ترقی کا فائدہ پہنچایا۔ اس سے ظاہر اور ثابت ہے کہ

اسلام ایک ایسی قوت ہے جو ایک ہی وقت ہر قسم کی ترقیاں عطا کرتا ہے۔

پس مسلمانوں کی ترقی کاراز اسلام کی ترقی میں ہے۔ وہ خالص اسلام جس کو رسول اللہ ﷺ لائے۔ اور وہ اسلام جس کو قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ وہ اسلام جو ان تمام روایات کے خارج کرنے کے بعد رہتا ہے جو یہود و نصاریٰ اسلام میں آتے وقت اپنے ساتھ لے آئے تھے۔

میں اپنی جماعت کے دوستوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسی جماعت میں داخل ہیں جس نے بیڑا اٹھایا ہے کہ وہ نہ صرف اسلام کو اصل حالت میں لائیں گے اور ترقی دیں گے بلکہ اسے بڑھا ئیں گے۔ وہ لوگوں کو توجہ دلائیں اور مسلمانوں کے ذہن نشین کرائیں کہ ان کی ترقی ایسی حالت میں ہوگی کہ اسلامی ترقی کی روح پیدا ہو۔

مذہب کے جھوٹے نام سے کامیابی نہیں ہوگی۔ اور اگر کوئی شخص قومی اور مذہبی ترقی کو ملائے گا تو اس سے نقصان ہو گا۔ یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ مسلمانوں کی ترقی کا ایک اور ایک ہی طریق ہے کہ اس کی بنیاد اسلام پر ہو۔ پس اس بات کو مد نظر رکھ کر تبلیغ کریں گے تو باتوں میں اثر، کلام میں روحانیت اور قلب میں صفائی پیدا ہوگی۔ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہم قومی ترقی کو اختیار کرتے ہوئے مذہب کی ترقی میں روک نہ ہوں بلکہ ہماری قومی ترقی کی بنیاد اسلام کی ترقی پر ہو۔ آمین

(الفضل ۲۰؍ ستمبر ۱۹۲۷ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button