متفرق مضامینیادِ رفتگاں

چودھری حمید اللہ صاحب مرحوم (وکیل اعلیٰ تحریک جدید) سے چند ملاقاتیں

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

جمعرات ۱۶؍ستمبر۲۰۰۴ء خاکسار کا جامعہ میں پہلا دن تھا۔ جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن میں ہر جمعرات کو ہفتہ وار علمی لیکچرز کا سلسلہ جاری تھا۔اس دن مکرم چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ انجمن تحریک جدید کا لیکچر وقفِ زندگی کی برکات کے موضوع پر تھا۔ یہ وہ پہلا دن تھا کہ میں نے آپ کو بالمشافہ دیکھا تھا۔ اس سے قبل کسی جماعتی رسالہ سے آپ کی تصویر دیکھ کر آپ سے چہرہ شناسی تھی۔

اس کے بعد تو ربوہ میں رہتے ہوئے گاہے بگاہے سرِراہ آپ سےملاقات ہوتی رہتی۔ کبھی مسجد مبارک میں، کبھی مسجد بلال میں، کبھی جامعہ کے کسی پروگرام یا تقریب میں، کبھی انصار اللہ کے لیکچرز یا مشاعروں میںیا کبھی یونہی تحریک جدید دفاتر کے احاطہ میں۔ جلسہ سالانہ قادیان کی ڈیوٹیز کی ہدایات کے موقع پر یا کبھی لنگر خانہ نمبر تین کے معائنہ کے موقع پر لیکن یہ ملاقاتیں السلام علیکم تک ہی محدود ہوتیں۔

لنگر خانے کی ڈیوٹیز کے حوالہ سے آپ باریک در باریک امور کا خیال فرماتے کیونکہ آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر خلفائے کرام سے براہ راست جلسہ کے حوالہ سے تربیت پائی۔ آپ افسر جلسہ سالانہ کی حیثیت سے لنگر خانہ کی میٹنگز پر بھی تشریف لاتے۔ ۲۰۰۷ء یا ۲۰۰۸ء میں لنگر خانہ نمبر۳ میں روٹی پکوائی اور سالن بنانے اور تقسیم کی ریہرسل تھی۔ آپ خود بھی تشریف لائے اور روٹی سالن چکھ کر ہدایات دیتے رہے۔

ایک بار لنگر خانہ نمبر تین میں کام کرنے والوںکی میٹنگ دفتر جلسہ سالانہ میں عصر کے بعد تھی۔ ظہر کے بعد سے ہی بارش ہو رہی تھی۔ بارش کی وجہ سے صرف چند لوگ ہی پہنچ پائے۔ آپ بھی تشریف لائے۔ حاضری کی کمی کا بظاہر سبب بارش ہی تھا لیکن آپ نے متعلقہ افسر صاحب کو فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اطلاع میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہو۔ اطلاع اچھی طرح کیا کریں۔ ورنہ اتنی کم حاضری نہیں ہو سکتی۔ یعنی احباب پر حسنِ ظن رکھااور عہدیداران کو توجہ دلائی کہ شاید ہماری سستی کی وجہ سے اطلاع نہیں ہو سکی اور وہ میٹنگ میں شامل نہ ہوسکے۔

جولائی ۲۰۱۱ء میں جامعہ سے فارغ التحصیل ہوئے تو آپ نے ایک مختصر نشست میں ہدایات سے نوازا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک واقف زندگی اور مربی کو مطالعہ کی عادت جاری رکھنی چاہیے اور فرمایا کہ آپ خلیفہ وقت کے نمائندہ ہیں اس لیے جماعت کے وقار کو قائم رکھنا ہے۔

پھر ستمبر ۲۰۱۱ء میں ہی چودھری صاحب سے اگلی ملاقات تخصص کے انٹرویو کے وقت ہوئی۔ خاکسار کا تقرر ککی نو ضلع جھنگ میں ہوا وہاں صرف ایک ماہ رمضان کا ہی گزارا تھا کہ انٹرویو کی کال آگئی۔ دورانِ انٹرویو آپ نے جھنگ کے جغرافیہ اور جماعتی تاریخ سے متعلق دریافت کیا۔ خاکسار کے پاس ابھی کہنے کو کچھ نہ تھا کیونکہ جامعہ سے فارغ ہوتے ہی دس روز میں پوسٹنگ ہو گئی تھی اور رمضان کے سبب باہر نکلنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ فرمایا کہ کسی جگہ جانے سے پہلے اس کے متعلق معلوم کر لیا کریں کہ اس جماعت میں احمدیت کیسے آئی، ابتدائی احمدی کون ہیں، ان کی قربانیاں کیا کیا ہیں۔ پھر اگلی نسل کو بتا کر انہیں جگائیں۔

تخصص کے انتخاب کے لیے پہلے وکالت تعلیم میں پرچہ ہوتا تھا اور پھر آپ کی صدارت میں ایک کمیٹی انٹرویو لیتی تھی۔ آپ کے سامنے خاکسار کا تخصص کا حل شدہ پرچہ پڑا تھا۔ پہلے صفحہ سے ہی سوال کیا کہ یہ ہرقل کہاں کا بادشاہ تھا۔ عرض کی روم کا۔ تو فرمانے لگے کس روم کا؟

سوال کو ابھی سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ میرے چہرہ پر ناسمجھی کے آثار دیکھ کر عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے میری آسانی کے لیے فرمایا۔ یہ بتائیں کہ موجودہ روم جو ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی یہی روم تھا؟

جواباً ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ وہ روم تو ایک empire تھا جس میں موجودہ کئی ملک شامل تھے۔

فرمانے لگے کہ ٹھیک، اب جو روم ہے وہ تو ایک شہر سے بھی چھوٹا ہے لیکن ملک بھی ہے۔ ساتھ ہی فرمایا۔ اس الماری سے atlas نکالیں۔ دوسری rowکی پہلی کتاب۔ میں کھڑا ہوا اور کتاب تلاش کرنے لگا۔ دس سیکنڈ بمشکل گزرے کہ فرمایا اتنا وقت لگا دیا۔ عرض کی یہاں نہیں ہے۔ فرمایا پھر دیکھیں! دیکھا تو پھر نہیں ملی۔ الماری کے دوسری جانب دیکھنے لگا تو فرمایا یہاں کہاں دیکھ رہے ہیں۔ دوسری row کی پہلی کتاب دیکھیں۔ لیکن ساتھ ہی خود بھی سرسری نظر ڈالی۔ کتاب نہ پا کر فرمایا:معذرت! لگتا ہے کسی نے اٹھائی ہوئی ہے۔

معذرت کا لفظ کسی اچنبھے سے کم نہ تھاکہ کس بات پر معذرت؟ در اصل آپ نے ذرا تیز آواز میں دوسرا جملہ ادا کیا تھا۔ اس لیے شایدیہ سوچ کر کہ دلآزاری کا باعث نہ بن جائے فوری معذرت بھی کر لی۔ پھر آپ نے از خود روم کا محل وقوع اور ویٹیکن سٹی اور اٹلی سے اس کا تعلق سمجھایا۔

شعبہ تخصص میں چودھری صاحب اکثر تشریف لاتے۔ مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب مرحوم نے روزانہ صبح ایک لیکچر کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا جس میں ترتیب سے ایک متخصص کسی نہ کسی موضوع پر لیکچر دیتا اور پھر دیگرمتخصصین سوال و جواب کرتے۔ مولانا اکسیر صاحب روزانہ اگلے روز کے متخصص سے عنوان پوچھ کر تیاری کا پتا کرتے اور اگر کوئی ٹھوس علمی یا کوئی نیا موضوع ہوتا تو چودھری صاحب کو اطلاع بھجوا دیتےاور آپ ضرور تشریف لاتے۔ پھر چودھری صاحب کے ایما پر روحانی خزائن کی کتب کے مضامین کے تعارف پر لیکچرز کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا جو تقریباً چار ماہ میں مکمل ہو گیا۔

چودھری صاحب کی علم دوستی کا اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے حضور انور ایدہ اللہ کی منظوری سے دو نئے مضامین میں بھی تخصص جاری کیے اور خود ہی دو مربیان کا ان مضامین میں تخصص کے لیے انتخاب کیا۔ ان مضامین میں ایک ’’تاریخ مذاہبِ عالم‘‘ اور دوسرا ’’بائبل‘‘ میں تخصص شامل ہے بلکہ تاریخ مذاہبِ عالم کے نگران متخصص بھی آپ خود ہی بنے اور اپنی نگرانی میں تین سال کا عرصہ مکمل کروایا۔ نیز متخصص کے مقالہ کی تیاری، مواد کی ترتیب اورکتب کی دستیابی کو اپنی زیر نگرانی مکمل کروایا۔

بائبل کے متخصص سے اکثر دریافت فرماتے کہ کتنی بائبل حفظ کر لی ہے۔ اسی طرح آپ کو عربی زبان سے شغف تھا۔ مئۃ عواملاور عربی اشعار سے متعلق دریافت فرماتے اور عربی اشعار سے متعلق لازماً پوچھتےکہ قصیدہ (یاعین فیض اللّٰہ) کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور عرب ادباء کے اشعار یاد ہیں؟

تخصص کے ایام میں آپ کی جانب سے کئی موضوعات پر تحقیق کروائی گئی۔ ارضیات ہو یافلکیات، علم الکلام یا موازنہ۔ متنوع قسم کے عناوین پر آپ کو مواد فراہم کیا گیا جس میں خاکسار کو بھی شامل ہونے کا موقع ملا۔ جو مواد ہم نکالتے سارا آپ کو بھجوا دیا جاتا۔ آپ اس میںسے گزر کر پھر مزید کسی پہلو پر مواد تلاش کرنے کا ارشاد فرماتے۔

ہر ماہ آخری عشرہ میں ماہانہ علمی مجلس منعقد ہوتی جس میں بذاتِ خود تشریف لاتے۔ دو متخصصین مخصوص علمی موضوعات پر تحقیقی مقالہ پیش کرتے۔ آپ نے اس مجلس کا فارمیٹ یہ تجویز فرمایا کہ ہر متخصص ایک سال کی تاریخ احمدیت تاریخ وار نکال کر پیش کرے گا حالانکہ یہ کام آپ نے پہلے کروایا ہوا تھا۔ ساتھ ساتھ مختلف امور کی وضاحت فرماتے جاتے۔ ایک بار کوئی زائد بات آپ کو محسوس ہوئی تو فوراً اپنا رجسٹر منگوایا اور تصحیح کروائی۔ پھر جب کوئی متخصص لیکچر دے رہا ہوتا تو بعض امور کی آپ ساتھ ساتھ تشریح بھی کر دیتے۔ یہ سلسلہ بھی مولانا اعظم اکسیر صاحب کی وفات تک جاری رہا۔

پھر چودھری صاحب سے اگلی ملاقات ۲۰۱۵ء میں تخصص کی مقالہ کمیٹی کے سامنے ہوئی۔ خاکسار کے مقالہ میں ایک حوالہ فارسی کتاب کے اقتباس کا تھا جس کا اردو ترجمہ ویکیپیڈیا سے تھا۔ کتاب کا اردو ترجمہ لائبریری کے کیٹلاگ میں موجود تھا لیکن لائبریری سے نہ ملا۔ اس لیے ویکیپیڈیا کا حوالہ شامل کیا۔ ایک دوست نے کہا چودھری صاحب پہلے بھی ویکیپیڈیا کے حوالے کے متعلق کہہ چکے ہیں کہ وہ مستند نہیں ہے۔ اس لیے یا حوالہ نکال دیں یا کوئی اور حوالہ دیں۔ لیکن خاکسار کو کوئی دوسرا حوالہ نہیں ملا اسی لیے وہی رہنے دیا۔ ممتحن مقالہ نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی۔ سو آپ نے دورانِ انٹرویو دریافت فرمایا کہ ویکیپیڈیا تو کوئی sourceنہیں۔ خاکسار نے پیش آمدہ مشکل عرض کی اور کہا کتاب فارسی میں لائبریری میں موجود ہے۔ اردو میں ترجمہ فی الحال موجود نہیں۔ اردو ترجمہ انہی کا دینا مقصود تھا۔ اس لیے بحوالہ ویکیپیڈیا دے دیا۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے! تلاش جاری رکھیں۔

اسی طرح متخصصین کی حوصلہ افزائی کے لیے آپ افطار ڈنر اور آخری سال کے متخصصین کی الوداعی دعوت میں تشریف لاتے اور گروپ فوٹو میں بھی شامل ہوتے۔

۲۰۱۶ء میں اگلی ملاقات پھرایک مختصر انٹرویو کی صورت میں ہوئی۔ خاکسار دفتر الفضل میں خدمت بجا لا رہا تھا کہ ایک وکالت کو دورہ جات کے سلسلہ میں مربیان کی ضرورت تھی۔ خاکسار کا نام بھی زیرِ تجویز تھا۔ وکالت میں مختصر انٹرویو کے بعد چودھری صاحب نے انٹرویو لیا۔ تفصیلاً تعارف دریافت کرنے کے بعد پوچھا۔ عربی کا مطالعہ کیا کرتے ہیں؟ عرض کیا کہ اب اتنا وقت نہیں ملتا۔ لیکن پھر بھی رسالہ التقویٰ یا عربی مضامین پڑھ لیتا ہوں۔ فرمایا کہ عربی میں مطالعہ جاری رکھیں۔ پھر فرمایا کہ الفضل میں کیا کرتے ہیں؟ مختصراً آفس روٹین عرض کی۔ آپ نے پھر فرمایا کہ وہاں تو ہر کسی کے ذمہ کوئی خاص کام بھی ہوتا ہے۔ آپ کے پاس کیا خاص کام ہے؟ عرض کیا کہ اہم ذمہ داری خطبہ جمعہ حضور انور ایدہ اللہ کا خلاصہ بنانا ہے۔ فرمایا تو اس طرح بتائیں ناں۔ بہت مختصر خلاصہ بناتے ہیں لیکن آپ کی بھی مجبوری ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ آپ نے نہ صرف مختلف دفاتر کے نظام کو بھی یاد رکھا ہوا تھا بلکہ دفاتر کی مجبوریوں سے بھی واقف تھے۔

ایک مرتبہ اطفال الاحمدیہ مقامی کی طرف سے مسجد محمود میں جلسہ یومِ والدین کا پروگرام تھا۔ عموماً ایسے مواقع پر سینئر ممبر کو بھجوایا جاتا تھا لیکن کسی سبب مجھے وہاں جانا پڑا۔ ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہ تھا کہ چودھری صاحب بھی وہاں نمازیں ادا کرتے ہیں۔ میں تو وہاں پہلے ہی اساتذہ کرام کے موجود ہونے کا سوچ کر متذبذب تھا۔ سردی کے ایام تھے، پروگرام کے مطابق نمازیں جمع ہونی تھیں کیونکہ دن چھوٹے تھے۔ میں نے دیا گیا مواد پڑھنے پر ہی اکتفا کیا کہ خدانخواستہ کوئی غلطی نہ کر بیٹھوں۔ پروگرام کے بعد آپ نے بلایا اور فرمایا کہ گو میرے بچے تو اطفال نہیں مگر پھر بھی میں اس پروگرام میں شامل ہوا کیونکہ نمازیں جمع ہو گئی تھیں۔ پھر تلقین کی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کا جو اقتباس اولاد کے قتل والا ہے وہ لازماً لوگوں کو بتاتے رہیں۔ وہ اقتباس یہ تھا ’’بڑا آدمی اگرخود باجماعت نماز نہیں پڑھتا تو وہ منافق ہے مگر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ ان کے خونی اور قاتل ہیں۔ اگر ماں باپ بچوں کو نماز باجماعت کی عادت ڈالیں تو کبھی ان پر ایسا وقت نہیں آسکتا کہ یہ کہا جا سکے کہ ان کی اصلاح ناممکن ہے اور وہ قابلِ علاج نہیں رہے۔‘‘ (الازھار لذوات الخمار جلد اوّل صفحہ۱۶۸)

پھر اگلی ملاقات مجلس نصرت جہاں کے تحت سیرالیون تقرر کے سلسلہ میں انٹرویو میں ہوئی۔ پچھلے انٹرویوز کا ماحصل یہ تھا کہ سیرالیون کا جغرافیہ تو پوچھا جانا ہی ہے اس لیے خوب تیاری کی اور گوگل میپ سے مغربی افریقہ کے ممالک کی ترتیب اور سیرالیون کے اوپر نیچےکے ممالک ازبر کیے، دائیں بائیں کا جغرافیہ دیکھا۔لیکن اس بار آپ نے جغرافیہ نہیں پوچھا بلکہ مختصر تعارف اور تعلیمی کوائف دیکھنے کے بعد فرمایا کہ وہاں انگریزی میں پڑھانا ہے ابھی سے اپنی انگریزی بہتر کرنے لگ جائیں۔

پھر چودھری صاحب سے اگلی ملاقات دسمبر ۲۰۱۹ء میں روٹی پلانٹ دار الرحمت (راجیکی) میں ہوئی۔اس دن روٹی پلانٹ پر کام کچھ دیر سے شروع ہوا۔ آٹے میں خمیر اور چینی کے تناسب کا کوئی تجربہ کرنا مقصود تھا۔ بارش کے باعث سخت سردی کے باوجود آپ کام مکمل ہونے تک وہاں موجودرہے۔بار بار مشین کے پاس جا کر ان سے تجربہ کی تفصیل دریافت کرتے۔ لنگر خانے کا مکمل جائزہ بھی لیا۔ خاکسار کے بچے بھی ہمراہ تھے جو دوسرے بچوں کے ساتھ شور مچاتے رہے اور گھومتے پھرتے رہے۔ بعدازاں بچوں نے روٹیوں کی ترتیب بھی لگائی تو آپ ان کو دیکھ کر مسکراتے رہے اور پھر آپ نے بچوں کے ساتھ تصویر بنانے کی درخواست بھی قبول کی۔ اور فرمایا: ان کو روٹی بھی کھلائیں اور بتائیں کہ یہ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کا لنگر ہے۔

بیرون ملک روانہ ہونے والے مربیان سے آخری ملاقات

پھر اگلی ملاقات ۴؍ جنوری ۲۰۲۱ء کو طے تھی۔ آپ بیرون ملک متعین مربیان، اساتذہ اور ڈاکٹرز کی آمد اور ان کی روانگی پر ضرور ان سے ملاقات کرتے۔

۶؍جنوری ۲۰۲۱ء کو ہماری متوقع روانگی تھی۔ ۴؍ جنوری ۲۰۲۱ء کو ہم تین مربیان سے پینتالیس منٹ الوداعی ملاقات ہوئی۔ یہ آپ کی بیرون ملک جانے والے مربیان سے آخری ملاقات تھی۔آپ کی میز پر تین طرف بڑا سا شیشہ لگا ہوا تھا۔ دفتر کی کرسیاں فاصلے پر تھیں۔ شیشے کے کارنرز کے سبب چہرے نظر نہیں آ رہے تھے تو فرمایا کہ چہرے تو واضح کریں۔ ہم نے کرسیاں ایسے سیٹ کر لیں کہ درمیانی فاصلہ کم ہو گیا۔ آپ نے فرمایا کہ SOP’s کا خیال رکھیں اور فاصلہ برقرار رکھیں۔

آپ کے سامنے ہم تین مربیان کے مختصر کوائف علیحدہ علیحدہ صفحات پر موجود تھے۔ پھر بھی ہر ایک سے تفصیلی تعارف پوچھ کر لکھتے رہے اور نگران صاحب کو فرمایا کہ تفصیل سے درج کیا کریں۔ اس ملاقات کی چند باتیں حسب ذیل ہیں:

آپ نے ہم سے میٹرک، انٹر، بی اےاور ایم اے کے مضامین اور حاصل کردہ نمبرز دریافت کیے۔ تینوں نے کچھ ٹھیک اور کچھ اندازاً بتائے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے تو نمبرز کیا رول نمبرز بھی یاد ہیں۔ پھر آپ نے اپنے رول نمبرز کے ساتھ میٹرک، انٹر، بیچلرز اور ماسٹرز کے حاصل کردہ مارکس بتائے۔

ہمارے تقرر کے سکولز یا شہروں کی تعیین سیرالیون آ کر ہونا تھی۔ آپ نے نگران صاحب کو فرمایا کہ آپ کو مجوزہ تو معلوم ہونے چاہئیں۔ پھر سیرالیون کے متعلق فرمایا کہ میں بھی بہت پہلے وہاں گیا تھا۔ جہاں بھی جائیں وہاں کے حالات اچھی طرح معلوم کر لیں۔ وہاں کی تاریخ بھی دیکھیں۔ اگر آپ کو وہاں کی تاریخ معلوم نہیں تو آپ کام کیسے کر سکتے ہیں۔

یہ قریباً وہی بات تھی جو آپ نے خاکسار کے پہلے تقرر کے وقت کہی تھی۔

اسی کے ساتھ آپ نے مطالعہ کا طریق بتایا کہ جو پڑھیں تو اس کے لوازمات بھی ساتھ ساتھ دیکھیں مثلاً آپ نے پوچھا کہ حضور انور ایدہ للہ تعالیٰ اس وقت بدری صحابہؓ پر خطبات ارشاد فرما رہے ہیں۔ بتائیں بدر کا میدان کہاں ہے؟ عرض کیا گیا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان۔ تو فرمایا ایسے نہیں۔ یوں بتائیں کہ مکہ کے شمال اور مدینہ کے جنوب میں ہے۔ میدان کے مغرب میں سمندر ہے۔ پھر دیکھیں قرآن کریم نے کیا فرمایا ہے۔ عدوۃ الدنیا کہاں ہے عدوۃ القصوی کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرف سے داخل ہوئے؟ کہاں پڑاؤ کیا؟ وغیرہ

افریقہ کے متعلق فرمایا کہ وہاں اچھا نمونہ پیش کریں۔ مقامی لوگوں سے ہمدردی، شفقت اور نرمی سے پیش آئیں۔

فرمایا کہ ڈائری لازماً لکھتے رہیں۔ خلیفة المسیح کو دعا کے لیے لکھتے رہیں۔

ذوقی نکتہ۔ جماعت احمدیہ کا پہلا انتظامی شعبہ

آخر میں آپ نے سب سے دریافت کیا کہ خدام الاحمدیہ میں کیا کیا خدمت کر رہے ہیں۔ خاکسار نے جن شعبہ جات کا بتایا ان میں ایک سیکرٹری تجنید مجلس اطفال الاحمدیہ مقامی بھی تھا۔

یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ شعبہ تجنید ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرا ایک ذوقی نکتہ ہے ہو سکتا ہے کہ کسی کو اختلاف ہو۔ ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے پہلی بیعت لی تو آپ نے فرمایا ایک رجسٹر تیار کیا جائے اور اس میں احباب کے نام ولدیت پتا اور پیشہ درج کیا جائے۔ اس رجسٹر کا نام رجسٹر ’’بیعت توبہ برائے تقویٰ و طہارت‘‘ درج تھا۔ تو ذوقی نکتہ یہ ہے کہ یہ پہلا شعبہ تھا جو قائم کیا گیا۔ جو اب تجنیدکہلاتا ہے۔ اتنی اہمیت ہے اس شعبہ کی۔

تبشیر کے گروپ اور مجلس نصرت جہاں کے گروپ کی ایک ہی دن روانگی تھی۔ موسم کی شدت کے باعث ہماری روانگی ایک ماہ مؤخر ہو گئی تھی۔ جس پر آپ کی جانب سے ہدایت موصول ہوئی کہ اتنا بڑا گروپ نہ بھجوایا جائے بلکہ چھوٹے چھوٹے گروپس بھجوائے جائیں۔ پھر ہماری روانگی آپ کی وفات سے دو روز قبل ہوئی۔

آپ سے آخری بالمشافہ ملاقات ۸؍جنوری ۲۰۲۱ء بروز جمعة المبارک ہوئی۔ خاکسار اپنی ہمشیرہ کے بچوں کو روٹی پلانٹ لے کر گیا۔ لیکن جب ہم مقررہ وقت پرپہنچے تواس سے قبل ہی روٹی پلانٹ پر کام مکمل ہوچکا تھا اور مشین بند ہوچکی تھی۔ بچوں کو ویسے ہی مشین کا تعارف کروایا۔ جب واپس جانے لگے تو چودھری صاحب بھی احاطے کا معائنہ کر کے واپس تشریف لا رہے تھے۔ تصویر کی خواہش تھی، آپ نے قریب آ کے بچوں سے پوچھ لیا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ بتایا گیا کراچی سے۔ تو فرمانے لگے آج تو جلدی کام ختم ہو گیا۔ اب کراچی جا کے کیا بتائیں گے؟ ساتھ ہی بچوں کو سمجھانے کے انداز میں بتایا کہ یہ مشین ایک گھنٹے میں آٹھ ہزار روٹی بناتی ہے۔ فرمایا: بس یہ ہی یاد رکھیں اور بتائیں۔

گروپ فوٹو کے لیے عرض کی تو فرمایا کہ ’’خواتین کے ساتھ نہیں کھنچواؤں گا۔ باقی آجائیں۔ ورنہ باہر والے جواز نکالنے لگ جاتے ہیں۔‘‘ آپ کا یہ جملہ بچوں کو اب تک یاد ہے کہ خواتین کے ساتھ تصویر نہیں بنوائی تھی۔

یہ خاکسار کی آپ سے آخری بالمشافہ ملاقات تھی۔ اس کے بعد گھر سے دفتر آتے دیکھا اور السلام علیکم کا تبادلہ ہوا۔ لیکن پھر آپ کے بیمار ہونے اور پھر اچانک ایک روز صبح وفات کی اطلاع آئی۔

گذشتہ ۱۷ سے ۱۸ سال میں چودھری صاحب کو ایک جیسا ہی دیکھا۔ چشم نیم وا سے انتہائی پُر وقار چال چلتے ہوئے لیکن اردگرد کے تمام ماحول سے باخبر۔ آپ کے ماتحتوں کو خواہ وہ دفتری کارکن ہو یا ڈرائیور ہوآپ کی مدح سرائی کرتے ہی پایا کہ ان کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ ایک ڈرائیور نے تو یہ کہا کہ ’’چودھری صاحب کے ساتھ سفر میں سب سے زیادہ موجیں ہوتی تھیں‘‘۔ یعنی مزا آتا تھا۔

خلافت کا ذکر ہوتا تو خصوصاً حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور بیان فرماتے۔ قادیان میں گزرا زمانہ یاد کرتے اور اطاعتِ خلافت کی تلقین فرماتے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ خلافت احمدیہ کے مطیع، شیدائی اور سلطانِ نصیر ایسے وجود جماعت احمدیہ کو عطا ہوتے رہیں جو ہمہ وقت خدمت دین کا عملی نمونہ پیش کرنے والے ہوں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button