متفرق مضامین

اشاعتِ اسلام کا ایک انوکھا اور حسین تجربہ

(نرگس ظفر۔ جرمنی)

مجھے محسوس ہواکہ جیسے آج ہی مسیح کی آمد ہوئی ہو

بہت سے لوگ مسیح کی آمد کا انتظار کر رہےہیں تو ہم آپ کو یہ خوشخبری دینے آئے ہیں کہ وہ آ گیا ہے

وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (حٰمٓ السَّجْدَۃِ:۳۴) اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)

اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر بےحد فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیں نہ صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا بلکہ اس ہادیٔ اعظم، راہبر کامل صلی اللہ علیہ وسلم کےغلام ِکامل اورعاشق صادق علیہ السلام کی جماعت میں شامل کرتے ہوئےمزیدانعام سے نوازا۔ یہ ایک ایسی خوش بختی ہے جو ہمیں اس زمانے کے پریشان حال اور مسیح کے مایوس منتظر لوگوں سےچاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوںممتاز کرتی ہے اوراس احسان پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہم پر ایک اہم اور بھاری ذمہ داری کا تقاضا بھی کرتا ہے اوروہ یہ ہےکہ اِس بیش بہا قیمتی انعام کو دنیا کے تمام لوگوں میں تقسیم کریں۔

جماعت احمدیہ جرمنی کی مجلس شوریٰ ۲۰۰۹ء میں ایک تجویز کے مطابق جرمنی بھرمیں ہر سال دس فیصد علاقہ تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے اورایک ترتیب سے فلائیر تقسیم کیا جارہا ہے۔ آخر یہ ایک دن ممکن ہونا ہی تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح علیہ السلام کو بذریعہ الہام ارشاد فرمایا تھا :’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۲۶۰ایڈیشن چہارم)

ہمارے اطفال،خدام اور انصار اس تحریک میں شانہ بشانہ شامل ہیں تو ایسے میں لجنہ اماءاللہ کیسے پیچھے رہ سکتی ہیں؟جیسے ہی ہمارے گھر میں اس روحانی سفر پہ جانے کا ذکر ہوا تو خا کسار کی شدت سے خواہش ہوئی کہ اپنے دو واقفِین نو بچوں(طفل،لجنہ)کو ساتھ لے کر اِس کارِ ثواب میں شامل ہوا جائے۔

رات ساڑھے تین بجے صبح،دوپہراوررات کا کھانا تیار کرتے ہوئے صبح پانچ بجے دعا کے ساتھ اس بابرکت سفر کا آغاز کیا گیا۔نوافل کی ادائیگی کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا پیغام اپنے بچوں کو سنایا کہ آپ علیہ السّلام فرماتے ہیں :’’ ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچا لیں۔اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جاویں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۱۹، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

یہ پیغام پڑھنے کے بعد( نہایت رقت سے جوکہ اِس وقت کافطری تقاضا تھا) اپنے بچوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ بغیر کسی حیل و حجت کے بصد شوق ہمارے ساتھ چلنے کو آمادہ ہوگئے اوراللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے آج بحیثیت احمدی عمومی اور بحیثیت وقفِ نو خصوصی طور پراپنے پیارے آقا مسیح الزماں کی اُس خواہش، اُس خواب کو پورا کرنےکی توفیق دی۔الحمدللہ۔ راستے میں مختصر وقفہ کرتے ہوئے باجماعت نمازِ فجر ادا کی گئی۔ دعائیں کرتے اورخوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جرمن قوم پررشک بھی آرہا تھا کہ کس قدرمحنتی اورخوش قسمت قوم ہے کہ ملک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے چلے جاؤ وہاں بجلی، پانی اور سڑکیں موجود ہیں۔جگہ جگہ پہاڑوں کو باریک جالیوں سے ڈھانپا ہوا تھا،یوں حکومت! آئین کی پاسبان اور اپنی قوم کی محافظ بھی ہے کہ کسی کو جانی و مالی نقصان نہ پہنچے کیونکہ اگر خدانخواستہ ایسی صورت بن جائے تو حکومت کو بھی ہرجانہ کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

آخر چار گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد پلان کے مطابق پہلے گاؤں پہنچے جہاں صرف طویل وعریض چھ ڈیرے تھے۔ چونکہ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں خصوصاً لوگ ایک دوسرے سے گہرے واقف ہوتے ہیں اور اجنبی کی آمد پر خبردار بھی رہتے ہیں۔جیسے ہی لیٹر بکس میں فلائیر ڈالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا،اندر سے جھانکتا ایک نہایت بوڑھا آدمی نمودار ہوا اور پوچھا یہ کیاہے؟مَیں نے فوری سلام کیا اور کہا کہ’’ ہم فرینکفرٹ کے پاس سے آئے ہیں۔چونکہ بہت سے لوگ مسیح کی آمد کا انتظار کر رہےہیں تو ہم آپ کو یہ خوشخبری دینے آئے ہیں کہ وہ آ گیا ہے۔‘‘ اُس نے سنتے ہی ہاتھ آگے بڑھایا اوروہ فلائیر لے لیا۔

اِس خوبصورت آغازسے سفری تھکان کی جگہ پُر جوش جذبے اور ولولے نے لے لی۔ہم نے اِ س کو بھی خدا کی رحمت ہی جانا کیونکہ اس پہاڑی علاقہ میں دُور، دُورکم آبادی والے کشادہ اور بڑے رقبوں پر پھیلے ہوئے گھروں تک چڑھائیاں چڑھنے کے لیے ہمیں اِسی جوش و خروش اورامنگ کی ضرورت تھی۔ بس پھر کیا تھا ایک کے بعد ایک گاؤں آتے گئے اور ہم کبھی کار پر اور کبھی پیدل دائیں بائیں پھیل جاتے اور اپنی اپنی تقسیم شدہ جگہوں میں فلائیر ڈالتے جاتے۔

مرغیاں،بکریاں،گائے اور سؤرشاید اِ ن کھلے گھروں میں رہنے والوں کا ذریعہ معاش بھی ہے کیونکہ دُور دُور تک میک ڈونلڈ،برگر کنگ توکہیں رہ گیا کوئی مارکیٹ تک نظر نہ آئی، نہ ہی کوئی اسٹیشن اور نہ ہی پٹرول پمپ۔ ایک قصبہ کو ڈھونڈتے ہوئے مناسب جگہ دیکھ کر باجماعت نماز ظہر و عصراداکیں۔آدھ گھنٹہ کے وقفہ کے بعد پھر اپنے مقصد اَولیٰ پہ روانہ ہوئے۔

ایک گاؤں میں داخل ہوتے ہی ہم نے کار کو بریک لگائی تو کچھ دور ایک عورت اپنی تین چار سالہ بیٹی اور چند ماہ کےبیٹے کے ساتھ زمین پر بیٹھی کھیل رہی تھی۔

ہمیں دیکھ کر فوری آئی اور پوچھا کہ ہم نے کہاں جانا ہے؟ مَیں نے اُسے بھی نہایت گرم جوشی سے مسیح الزماں کے آنے کی خوشخبری سنائی اورآنے کا مقصد بتاتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا تم بھی یہ فلائیر لینا چاہو گی؟ اُس نے خوشی سے وصول کر لیا۔ اِسی طرح اَوربھی بعض مواقع پرجہاں کہیں بھی ہاتھ میں فلائیر دینے کا موقع میسر آیا،ہم نے محسوس کیا کہ ان کھلے گھروں کی طرح وہاں کے مکینوں کے دل بھی نہایت کشادہ تھے۔ ہنستے مسکراتے،سلام کرتے یا سلام کا جواب دیتے، مَیں جب بھی اُن کو مسیح کے آنے کی خبر دیتی تو یک دم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کایہ پیغام پہنچانے میں اِتنی شدت آ جاتی کہ مجھے محسوس ہواکہ جیسے آج ہی مسیح کی آمدہوئی ہواور اِس سرشاری میں نہ توتھکاوٹ محسوس ہوتی نہ بھوک نہ پیاس حالانکہ سورج پوری آب و تاب سے ۱۹ سینٹی گریڈ پہ اپنی کرنیں پھیلا رہا تھا اور سردی کے اِس موسم میں یہ مالِ غنیمت سے کہیں کم نہ تھا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اشاعتِ اسلام کا یہ پیغام پہنچانے کے لیے ہمارے قدم مزید تیز ترہونے لگے۔وہ سڑکیں اوروہ گلیاں جہاں سےہم گزرتے،بچوں کو بھی اِ س احساس سے روشناس کرواتے ہوئے کبھی درود شریف کا وِرد کرتی تو کبھی اُن کو گواہ بنا لیتی کہ ’’تم گواہ رہنا جب ایک دن یہ لوگ ان شاءاللہ اسلام احمدیت کے اِس پیغام کو جذب کر لیں گے تواِ س عظیم الشان خدمت میں ہمارا بھی بہت کم،نہایت ادنیٰ سا حصّہ شامل ہے۔‘‘جھرنوں میں پانی کی خوبصورت آوازیں بار بار اپنی طرف متوجہ کرواتیں کہ اگر اِتنی دُورسے آ ہی گئے ہو تو ہمارے نظارے بھی تو لیتے جاؤ لیکن کہیں بھی چلے جاؤ شان تو اُسی کی بلند رہے گی حمد میں تو پھربھی اُس کی ہی ثناخوانی ہوگی جو واحد لاشریک اس کا مستحق ہے۔

بچے ان پانیوں پر کھیلتے،سائیکل چلاتے آج بھی شہر کی افراتفری کی زندگی سے دورخوش گپیوں میں مصروف تھے لیکن ہمیں آتا دیکھ کرچند نوجوان بچے ہمارے ارد گرد جمع ہوگئے کہ ہم کیاتقسیم کر رہے ہیں؟ جب ان کو بتایا کہ آپ کے لیٹربکس میں ہم یہ پیغام ڈال آئے ہیں تو انہوں نے کہا ہمیں بھی دو۔ایسے میں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا کہ بچوں کے لیے کچھ کھانے کی چیزیں یا تحائف ضرورساتھ ہونے چاہیے تھے۔

چودہ سالہ بیٹے کی تھکاوٹ کو ماں کی ممتا نے جذباتی کیا تو اُسے کار میں رُکنے کا کہا اورساتھ ہی کچھ حوصلہ افزائی بھی کر دی۔ جس نے ایندھن کا کام کیا،یوں ہمیں دوڑتے بھاگتے دیکھ کروہ بھی رکنے کے بجائے ساتھ ہو لیا۔ یوں بغیروقفہ کے شام ساڑھے چھ بجے تک ہم اشاعتِ دین کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے۔

غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی ہم نے واپسی کا اِرادہ کرتے ہوئے گاڑی کا رخ گھر کی سمت کیا۔مسافرجب اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتا ہے تو اُسے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے بے شک یہ منزل عارضی ہی کیوں نہ ہولیکن واپسی کے نام پر جیسے ہی یہ جذبہ مدھم ہوا تو اُداسی چھا گئی۔اِس اداسی کو کم کرنے کی غرض سے بیٹی سے، جو پروگرام بنانے اورتمام راستے دکھانے میں ہماری اوّل مدد گار رہی پوچھا کہ کوئی قریب میں جگہ ہو جہاں لمبے سفر سے پہلےآرام سے کھانا کھا لیا جائے تو راستے میں قریب ہی دو کلو میٹر کے فاصلے پرنقشے نے ایک جھیل دکھائی۔ہم نے تھوڑی دیر کے لیے وہاں قیام کیا۔وہ کوئی گولف پلیس تھی لیکن اس وقت نہ تو کوئی فرد موجود تھا اور نہ ہی محصول۔جھیل کے اوپر ٹیرس پر بہترین خالی کرسیاں، میز جیسے ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے۔سارے دن کے تھکے وجود اِن پر ڈھیر ہو گئے۔ کھانا کھا کر ہم نے اس علاقہ کو الوداع کہا۔راستے میں ایک مختصر وقفہ کرتے ہوئے باجماعت نمازِ مغرب و عشا کی اداکی اوررات ساڑھے دس بجے ہم گھر پہنچے۔

اگلے دن بچوں نے آرام کیا لیکن مَیں نے اُن کی خواہش پر نان، پکوڑوں سے اُن کی تواضع کی اورخیالوں ہی خیالوں میں اگلے سفر کی پلاننگ بھی کرلی۔اس سفر کی آپ بیتی کا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی دینی مقصد کو ہم اپنی منصوبہ بندی،تیاری، فیملی ہم آہنگی اور بہترین ٹیم ورک سے یاد گار بنا سکتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو اُن کی ذمہ داریاں سونپتے ہوئے اگلے سفر کی تیاری کر سکتے ہیں کہ بزبان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام :

مجھ کو دے اک فوقِ عادت اے خدا جوش و تپش

جس سے ہوجاؤں مَیں غم میں دیں کے اِک دیوانہ وار

وہ لگا دے آگ میرے دل میں مِلّت کےلئے

شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بیشمار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۴۷)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button