خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲؍ستمبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دمشق کے محاصرہ کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:یہ آخری جنگ تھی جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں ہوئی…دمشق ایک قلعہ نما فصیل بند شہر تھا۔ حفاظت اور پائیداری کی وجہ سے اسے امتیازی حیثیت حاصل تھی…جب حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمائے تو حضرت ابوعبیدہؓ کو ایک لشکر کا امیر بنا کر حمص پہنچنے کا حکم دیا۔حضرت ابوبکرؓ کے ارشاد پر حضرت خالد بن ولیدؓنے دمشق پہنچ کر دوسرے اسلامی لشکر کے ساتھ اس کا محاصرہ کر لیا…اہلِ دمشق قلعہ میں محصور ہونے کی وجہ سے سخت تنگی میں تھے۔ قلعہ میں رسد بھی ختم ہونے والی تھی۔ اس کے علاوہ اہل دمشق کے کھیت قلعہ سے باہر تھے لہٰذا ان کی کاشتکاری کے کاموں کو نقصان ہو رہا تھا۔ قلعہ میں غلہ نہیں آ سکتا تھا۔ اشیائے صَرف کی بھی قلت تھی۔محاصرے کی طوالت کی وجہ سے وہ سخت پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اسی دوران جبکہ دمشق کے محاصرے کو بیس دن گزر چکے تھے مسلمانوں کو خبر ملی کہ ہرقل بادشاہ نے اجنادَین کے مقام پر رومیوں کا بھاری لشکر جمع کیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی حضرت خالدؓ بابِ شرقی سے روانہ ہو کر بابِ جابیہ پر حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس آئے اور صورتحال سے مطلع کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ ہم دمشق کا محاصرہ ترک کر کے اجنادَین میں رومی لشکر سے نپٹ لیں اور اگر اللہ نے ہمیں فتح دی تو پھر یہاں واپس لوٹ آئیں گے اور دمشق کا مسئلہ حل کریں گے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ میری رائے اس کے برعکس ہے کیونکہ بیس دن تک قلعہ میں محصور رہنے کی وجہ سے اہل دمشق تنگ آ گئے ہیں اور ہمارا رعب ان کے دلوں میں سما گیا۔ اگر ہم یہاں سے کوچ کر گئے تو ان کو راحت حاصل ہو گی اور وہ کھانے پینے کی چیزیں قلعہ میں کثیر تعداد میں ذخیرہ کر لیں گے اور جب ہم اجنادَین سے یہاں واپس آئیں گے تو یہ لوگ طویل عرصہ تک ہمارا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ حضرت خالدؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے محاصرہ جاری رکھا اور دمشق کے قلعہ کے متفرق دروازوں پر مسلمانوں کے تمام متعین سرداروں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی طرف سے حملہ میں شدت اختیار کریں۔حضرت خالدؓ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر جانب سے اسلامی لشکر نے شدید حملے شروع کیے۔ اس طرح دمشق کے محاصرے پر اکیس دن گزر گئے۔ حضرت خالدؓ نے پے در پے حملے جاری رکھے۔ وہ اسی طرح مصروفِ جنگ تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ قلعہ کی دیوار پر جو رومی تھے وہ دفعةً تالیاں بجا کر ناچنے کودنے لگے اور خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ مسلمان حیرت سے ان کو دیکھنے لگے۔ حضرت خالد بن ولیدؓنے ایک جانب دیکھا تو ایک بڑا غبار اس طرف اٹھتا ہوا نظر آیا۔ اس کی وجہ سے آسمان تاریک نظر آتا تھا۔ دن کے وقت میں بھی اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ حضرت خالدؓ فوراً سمجھ گئے کہ اہل دمشق کی مدد کے لیے ہرقل بادشاہ کا لشکر آ رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں چند مخبروں نے اس خبر کی تصدیق بھی کر دی کہ ہم نے پہاڑ کی گھاٹی کی طرف ایک لشکرِ جرار دیکھا ہے اور وہ بےشک رومیوں کا لشکر ہے۔حضرت خالدؓ فوراً آئے اور حضرت ابوعبیدہؓ کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تمام لشکر لے کر ہرقل بادشاہ کے بھیجے ہوئے لشکر سے مقابلہ کے لیے جاؤں۔ لہٰذا اس امر میں آپ کا مشورہ کیا ہے؟ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایاکہ یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر ہم نے اس جگہ کو چھوڑ دیا تو اہلِ دمشق قلعہ سے باہر آ کر ہم سے جنگ کریں گے۔ ایک طرف سے ہرقل کا لشکر حملہ آور ہو گا اور دوسری طرف سے اہلِ دمشق حملہ کریں گے۔ ہم رومیوں کے دو لشکروں کے درمیان مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ اس پر حضرت خالدؓ نے کہا پھر آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا تم ایک جری اور بہادر شخص کا انتخاب کرو اور اس کے ساتھ ایک جماعت کو دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ کرو۔چنانچہ حضرت خالدبن ولیدؓ نے حضرت ضراربن ازورؓ کوپانچ سو،سواروں کا لشکردے کررومی لشکرسے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔
سوال نمبر۲: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت خولہ بنت ازورؓکی رومی لشکرسے لڑائی کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت ضِرارؓ کی گرفتاری کی خبر جب حضرت خالدؓ کو پہنچی تو آپ بہت پریشان ہوئے اور ساتھیوں سے رومی لشکر کے متعلق معلومات لے کر حضرت ابوعبیدہؓ سے مشورہ کیا اور حملے کے متعلق رائے لی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ دمشق کے محاصرہ کا معقول انتظام کر کے آپ حملہ کر سکتے ہیں۔کمانڈر کیونکہ اس وقت حضرت ابوعبیدہؓ تھے۔ حضرت خالدؓ نے محاصرہ کا انتظام کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا تعاقب کیا اور ان کو ہدایت کی کہ جیسے ہی دشمن ملے اس پر اچانک حملہ کرنا۔ اگر ضِرار کو ان لوگوں نے قتل نہ کیا ہو تو شاید ہم ضِرار کو چھڑا لائیں گے اور اگر ضِرار کو شہید کیا ہو تو بخداہم ان سے بھرپور انتقام لیں گے۔ تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ ہم کو ضِرار کے متعلق صدمہ نہیں دے گا۔ اسی دوران حضرت خالدؓ نے ایک شہسوار کو سرخ عمدہ گھوڑے پر دیکھا جس کے ہاتھ میں لمبا چمکدار نیزہ تھا۔ اس کی وضع قطع سے بہادری، دانائی اور جنگی مہارت نمایاں تھی۔ زرہ کے اوپر لباس پہن رکھا تھا۔ پورا بدن اور منہ چھپا ہوا تھا اور فوج کے آگے آگے تھا۔ حضرت خالدؓ نے تمنا کی کہ کاش! مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ شہسوار کون ہے۔واللہ! یہ شخص نہایت دلیر اور بہادر معلوم ہوتا ہے۔ سب لوگ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ لشکرِ اسلام جب کفار کے قریب پہنچا تو لوگوں نے اس شہسوار کو رومیوں پر ایسے حملہ کرتے دیکھا جس طرح باز چڑیوں پر جھپٹتا ہے۔ اس کا ایک حملہ تھا جس نے دشمن کے لشکر میں تہلکہ ڈال دیا اور مقتولین کے ڈھیر لگا دیے اور بڑھتے بڑھتے دشمن کے لشکر کے درمیان میں پہنچ گیا۔ وہ چونکہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال چکا تھا اس لیے دوبارہ پلٹا اور کافروں کے لشکر کو چیرتا ہوا اندر گھستا چلا گیا۔ جو سامنے آیا اس کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت خالدؓ ہی ہو سکتے ہیں۔رافع نے حیرانگی سے خالد سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟ حضرت خالدؓ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔ میں خود حیران ہوں کہ یہ کون ہے۔حضرت خالدؓ لشکرکے آگے کھڑے تھے کہ وہی سوار دوبارہ رومیوں کے لشکر سے نکلا۔ رومیوں کا کوئی بھی سپاہی اس کے مقابل نہیں آ رہا تھا اور یہ تنہا کئی آدمیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے رومیوں کے درمیان لڑ رہا تھا۔ اسی دوران حضرت خالدؓ نے حملہ کر کے اسے کفارکے گھیرے سے نکالا اور یہ شخص لشکرِ اسلام میں پہنچ گیا۔ حضرت خالدؓ نے اسے کہا: تُو نے اپنے غصہ کو اللہ کے دشمنوں پر نکالا ہے۔ بتاؤ تم کون ہو؟ اس سوار نے کچھ نہ بتایا اور پھر جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔حضرت خالدؓ نے فرمایا اللہ کے بندے! تُو نے مجھے اور تمام مسلمانوں کو بے چینی میں ڈال دیا ہے۔ تُو اس قدر بےپروا ہے۔ آخر تُو کون ہے! حضرت خالدؓ کے اصرار پر اس نے جواب دیا کہ میں نے نافرمانی کی وجہ سے اعراض نہیں کیا، یہ نہیں کہ میں نافرمان ہوں اس لیے تمہیں جواب نہیں دے رہا بلکہ مجھے شرم آتی ہے کیونکہ میں مرد نہیں ہوں، ایک عورت ہوں۔ مجھے میرے دردِ دل نے اس میدان میں اتارا ہے۔ خالد نے پوچھاکہ کون سی عورت؟ اس عورت نے عرض کیا کہ ضِرار کی بہن خولہ بنت ازور ہوں۔ بھائی کی گرفتاری کا پتا لگا تو میں نے وہی کیا جو آپ نے دیکھا۔ حضرت خالدؓ نے یہ سن کر کہا کہ ہم سب کو متفقہ حملہ کرنا چاہیے۔ اللہ سے امید ہے کہ وہ ضِرار کو قید سے رہائی دلا دے گا۔ حضرت خولہؓ نے کہا کہ میں بھی حملہ میں پیش پیش رہوں گی۔پھرخالدنے بھرپورحملہ کیا۔رومیوں کے پیراکھڑگئےاوررومیوں کالشکرتتربترہوگیا۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اسلامی لشکرکی اجنادین کی طرف روانگی اورحضرت ابوعبیدہؓ پرحملہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت خالدؓ نے دمشق کا محاصرہ ختم کر کے اجنادَین کی طرف لشکر کو روانہ ہونے کا حکم دیا۔ حکم ملتے ہی مسلمانوں نے فوراً خیمے اکھیڑ کر باقی مال اسباب اونٹوں پر لادنا شروع کیا۔ مالِ غنیمت کے اونٹوں کو اور مال و اسباب کے اونٹوں کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ لشکر کے پیچھے کی جانب رکھا اورباقی سواروں کو لشکر کے آگے رکھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓنے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ میں عورتوں اور بچوں کے قافلہ کے ساتھ لشکر کے پیچھےرہوں،حضرت ابوعبیدہؓ کو کہا، اور آپ لشکر کے آگے رہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ وَرْدَان اپنا لشکر لے کر اجنادَین سے دمشق کی طرف روانہ ہوا ہو اور اس سے آمنا سامنا ہو جائے۔ اگر تم لشکر کے آگے رہو گے تو تم ان کو روک سکو گے اور مقابلہ کر سکو گے۔ لہٰذاتم آگے رہو اور میں پیچھے رہتا ہوں۔ حضرت خالدؓ نے کہا آپ کی رائے مناسب ہے۔ میں آپ کی رائے اور تجویز کے خلاف نہیں کروں گا…اہلِ دمشق جتنے بھی لوگ تھے وہ ایک شخص کے پاس جمع ہو گئے جس کا نام بُولص تھا۔ اور وہ اس سے قبل کسی بھی جنگ میں صحابہ کے سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ شخص ھِرَقل کا نہایت معتمد اور اعلیٰ درجہ کا تیر انداز تھا۔ اہل دمشق نے اس کو امیر بنایا اور ہر قسم کا لالچ دے کر جنگ کے لیے آمادہ کیا۔ نیز انہوں نے اس بات کی قسمیں کھائیں کہ وہ میدانِ جنگ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے اور جو بھی ان میں سے میدان چھوڑے گا تو آپ کو اختیار ہو گا کہ اسے اپنے ہاتھ سے قتل کر دیں…بُولص نہایت تیزی سے چھ ہزار سوار اور دس ہزار پیدل لشکر لے کر مسلمانوں کے پیچھے ان کے مقابلہ کے لیے نکل گیا اور اسلامی فوج کی عورتوں، بچوں، مال مویشی اور ابوعبیدہ کے ایک ہزار لشکر کا تعاقب کیا۔ مسلمان بھی مقابلے کے لیے تیار ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کفار پہنچ گئے۔ بُولص سب سے آگے تھا۔اس نے ایک دم چھ ہزار سپاہیوں کے ساتھ ابوعبیدہ پر حملہ کیا۔بُولص کا بھائی بُطْرُس پیدل فوج کے ساتھ عورتوں کی طرف بڑھا اور کچھ عورتیں گرفتار کر کے دمشق کی طرف واپس پلٹا۔ ایک جگہ پر پہنچ کر اپنے بھائی کے انتظارمیں بیٹھ گیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے یہ مصیبت ناگہانی دیکھ کر فرمایا کہ خالد کی رائے صحیح تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہیں گے۔ اِدھر عورتیں اور بچے چِلّا رہے تھے۔ اُدھر ایک ہزار مسلمانوں نے بہادری سے مقابلہ کیا۔ بُولص نے حضرت ابوعبیدہؓ پر بار بار حملہ کیا۔ آپؓ نے بھی شدید مقابلہ کیا۔ حضرت سہل تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت خالدؓ کے پاس پہنچے اور سارا قصہ سنایا۔حضرت خالدؓ نے اِنَّا لِلّٰہ پڑھا۔ آپؓ نے حضرت رافعؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ایک ایک ہزار لشکر دے کر روانہ کیا تا کہ بچوں اور عورتوں کی حفاظت ہو جائے۔ اس کے بعد حضرت ضِرارؓ کو ایک ہزار سوار دے کر رخصت کیا اور خود بھی لشکر لے کر دشمن کی طرف چلے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مسلمان عورتوں کی بُطرس کے لشکرکے ساتھ جنگ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت خالدؓ نے دو ہزار سپاہیوں کو اپنے ساتھ لیا اور باقی تمام افواج کو حضرت ابوعبیدہؓ کے حوالے کر دیا تاکہ عورتوں کی حفاظت ہو جائے اور خود قیدی خواتین کی تلاش میں نکل گئے۔ آپ جلدی جلدی چل کر اس جگہ پہنچے جہاں پر دشمن مسلمان عورتوں کو قید کر کے لے گئے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ غبار اڑ رہا ہے۔ آپ کو تعجب ہوا کہ یہاں لڑائی کیوں ہو رہی ہے۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ بُولص کا بھائی بُطْرُس عورتوں کو گرفتار کر کے نہر کے پاس بھائی کے انتظار میں رک گیا تھا اور اب وہ عورتوں کو آپس میں بانٹنے لگے تھے۔ بطرس نے حضرت خولہؓ کے بارے میں کہا کہ یہ میری ہے۔ انہوں نے عورتوں کو ایک خیمہ میں قید کر دیا اور خود آرام کرنے لگے اور انہیں بُولص کا انتظار بھی تھا۔ ان عورتوں میں سے اکثر بہادر اور تجربہ کار شہسوار عورتیں بھی تھیں۔ وہ ہر قسم کی جنگ جانتی تھیں۔ یہ آپس میں جمع ہوئیں اور حضرت خولہؓ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے قبیلہ حِمْیرکی بیٹیو!اور اے قبیلہ تُبَّعْکی یادگارو! کیا تم اس پر راضی ہو کہ رومی کفار تم کو لونڈیاں بنائیں؟کہاں گئی تمہاری شجاعت اور کیا ہوئی تمہاری وہ غیرت جس کا ذکر عرب مجلسوں میں ہوا کرتا تھا؟ افسوس! میں تمہیں غیرت سے علیحدہ اور شجاعت و حمیت سے خالی پا رہی ہوں۔ اس آنے والی مصیبت سے تو تمہاری موت افضل ہے۔ یہ سن کر ایک صحابیہ نے کہا اے خولہؓ!تُو نے جو کچھ بیان کیا ہے بےشک درست ہے لیکن یہ بتاؤ کہ ہم قید میں ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں نیزہ تلوار نہیں ہے۔ ہم کیا کر سکتی ہیں! نہ گھوڑا ہے نہ اسلحہ ہے کیونکہ اچانک ہم کو قید کر لیا گیا ہے۔ حضرت خولہؓ نے فرمایا کہ ہوش کرو۔ خیموں کے ستون تو موجود ہیں۔ہمیں چاہیے کہ انہیں اٹھا کر ان بدبختوں پر حملہ کریں۔ آگے مدد اللہ فرمائے گا۔ یا ہم غالب آجائیں گے ورنہ شہید تو ہو جائیں گی۔ اس پر ہر خاتون نے خیمہ کی ایک ایک لکڑی اٹھائی۔ حضرت خولہؓ ایک لکڑی کندھے پر رکھ کر آگے ہوئیں۔ حضرت خولہؓ نے اپنے ماتحت خواتین سے فرمایا کہ زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ساتھ ہو جاؤ۔ متفرق نہ ہونا ورنہ سب قتل ہو جاؤ گی… حضرت خولہؓ کو مخاطب کرتے ہوئےبُطرس نے کہا کہ اے خولہ! اپنی جان پر رحم کرو۔ میں تمہاری قدر کرتا ہوں۔میرے دل میں بھی تیرے لیے بہت کچھ ہے۔ کیاتمہیں یہ پسند نہیں کہ میں بادشاہ جیسا آدمی تیرا مالک بنوں اور میری ساری جائیداد تمہاری جائیداد ہو جائے۔ حضرت خولہؓ نے فرمایا اے کافر بدبخت! خدا کی قسم! اگر میرا بس چلے تو ابھی تیرا سر لکڑی سے توڑ دوں۔ واللہ! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ تو میری بکریاں اور اونٹ چرائے چہ جائیکہ تو میری برابری کا دعویٰ کرے۔ اس پر بُطرس نے لشکر سے کہا کہ ان سب کو قتل کر دو۔ لشکر والے نئے سرے سے تیار ہو رہے تھے اور ابتدائی حملہ کرنے والے تھے کہ مسلمان حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں وہاں پہنچ گئے۔آپؓ کو تمام حالات و واقعات کا علم ہوا۔ عورتوں کی بہادری اور مقابلے سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور پھر پورے لشکر نے کفار کے ارد گرد دائرہ ڈال دیا اور ایک ساتھ حملہ کیا۔ حضرت خولہؓ نے چِلّا کر کہا اللہ کی مدد آ گئی ہے! اللہ نے مہربانی کر دی ہے! جب بُطرس نے مسلمانوں کو دیکھا تو پریشان ہو گیا اور بھاگنے لگا مگر بھاگنے سے پہلے اس نے دو مسلمان شہسواروں کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ان میں سے ایک خالد اور دوسرے حضرت ضِرارؓ تھے۔ضِرار نے اس کو ایک نیزہ مارا۔ وہ گھوڑے سے گرتے گرتے بچا۔ پھر ضِرار نے دوسرا وار کیا اور وہ ڈھیر ہو گیا۔ مسلمانوں نے بہت سے رومیوں کو قتل کیا۔ جو بچ گئے وہ دمشق بھاگ گئے۔
سوال نمبر۵: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے آخرپر کن مرحومین کاذکرخیرفرمایا؟
جواب:1۔مکرم عمر ابو عرقوب صاحب۔آپ جنوبی فلسطین کے صدر جماعت تھے۔
2۔مکرم شیخ ناصر احمد صاحب،مٹھی تھرپارکر،آپ مٹھی کے سب سے پہلے احمدی تھے۔ 1969ء میں انہوں نے احمدیت قبول کی۔ ایک پُرجوش داعی الی اللہ اور دین کی غیرت رکھنے والے نڈر احمدی تھے۔
3۔ملک سلطان احمد صاحب سابق معلم وقف جدید۔ آپ1938ء میں پکا نسوانہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد محترم سجادہ صاحب المعروف شہزادہ کے ذریعہ سے آئی جنہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں خود قادیان جا کر بیعت کی تھی۔
4۔مکرم محبوب احمد راجیکی صاحب۔آپ سعد اللہ پور ضلع منڈی بہاؤالدین کے رہنے والے تھے۔مرحوم حضرت مسیح موعودؑ کےصحابی حضرت غلام علی صاحب راجیکیؓ کے بیٹے حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے بھتیجے اورحضرت مولوی غوث محمدصاحبؓ کے نواسے تھے۔