بیویوں سے نیک سلوک کی تاکید
اسلام خاوند کو بیوی کےساتھ جس حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اس کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول و فعل سے بار بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک صحابی کو نصیحت کا ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہےکہ امورمعاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہیے کسی قدر آپ شدّت رکھتے ہیں۔ یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا۔ میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں۔اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسّام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے۔ اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں۔
اللہ جل شانہ فرماتا ہے: عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:۲۰) یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو۔ بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لیے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا۔ عزیز من، انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہریک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے۔ نرمی برتنی چاہیے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہیے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیاہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجا لاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کونسی زیادتی ہے۔ خونخوار انسان نہیں بننا چاہیے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہیے اور ان کو دین سکھلانا چاہیے۔ اور درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے۔ میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرا درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد ہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا۔ تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لیے دعا کروکہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما ویں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ سو میں امید رکھتاہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام‘‘۔ (الحکم جلد ۹نمبر۱۳ مورخہ۱۷؍ اپریل۱۹۰۵ء صفحہ ۶)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اسوہ کو جاری رکھتے ہوئے یہی خوبصورت نمونہ ہمیں خلفائے احمدیت کی تعلیم میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر فرمایا: ’’کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ایسے لوگو ں کا تو قضا کو کیس سننا ہی نہیں چاہیے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں۔ ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہیے۔ غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہو رہاہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ۲۴؍ جون۲۰۰۵ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو۔ حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر اس پر گرجنا، برسنا شروع کر دیا۔ تو ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتےاور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی۔ تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بدنام نہ کریں۔ (خطبہ جمعہ ۶؍جولائی ۲۰۰۴ء،الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍ جولائی ۲۰۰۴ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں سے حسن سلوک کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ بیان فرماتے ہوئے فرمایا: ’’ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں یہ دل دُکھانا بڑے گناہ کی بات ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں۔ تو جہاں مردوں کو سختی کی اجازت ہے وہ تنبیہ کی اجازت ہے۔ مارنے کی تو سوائے خاص معاملات کے اجازت ہے ہی نہیں اور وہاں بھی صرف دین کے معاملات میں اور اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے معاملات میں اجازت ہے۔ لیکن جو مرد خود نماز نہیں پڑھتا، خود دین کے احکامات کی پابندی نہیں کر رہا وہ عورت کوکچھ کہنے کا کیا حق رکھتا ہے؟ تو مردوں کو شرائط کے ساتھ جو بعض اجازتیں ملی ہیں وہ عورت کے حقوق قائم کرنے کے لیے ہیں…
ایک صحابی کے اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور ان سے حسن سلوک نہ کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیویوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا کہ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیاجائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ۷۵)
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اس الہام میں تمام جماعت کے لیے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) یعنی اپنی بیو یوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرکرو۔ اور حدیث میں ہے: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لیے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۷۵حاشیہ)(جلسہ سالانہ یوکےخطاب از مستورات فرمودہ ۳۱جولائی۲۰۰۴ءالفضل انٹرنیشنل ۲۴؍اپریل۲۰۱۵ء)
پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا عورت کے متعلقہ حکموں پر عمل کرنے میں کمی آگئی ہے اس لیے اس رسولِ کاملﷺ کے عاشق صادق اور زمانے کے امام کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف متوجہ فرمایاکہ اپنی جماعت میں عورتوں کے حقوق قائم کرواؤ، اس صنف نازک کو جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشے سے تشبیہ دی ہے جس کے ساتھ سختی اُسے کرچی کرچی کرسکتی ہے، ٹکڑے ٹکڑے کرسکتی ہے۔ جس کے جسم کی بناوٹ نازک ہے، جس کے جذبات کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ نرمی اور راٴفت سے پیش آنا چاہیے۔ یہ پسلی کی ہڈی سے مشابہ ہے اس کی اصل شکل سے ہی فائدہ اٹھاؤ۔ پس آپ کو جب ایسے امام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے جس کو اس زمانے میں پھر براہ راست آپ کے حقوق قائم کروانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا، پھر آپ کو کس قدر اس خدا کا شکر گزار ہوتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں دئیے ہیں۔‘‘ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ۲۹؍ جولائی۲۰۰۶ء)
تو دیکھیں کہ اس زمانے میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حقوق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اصل میں تو مرد کو ایک طرح سے عورت کا نوکر بنا دیا ہے۔ آج پڑھی لکھی دنیا کا کوئی قانون بھی اس طرح عورت کو حق نہیں دلواتا‘‘۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍اپریل ۲۰۱۵ء)