مسیح موعودؑکی عالمگیر حیثیت اور مخالفین کی شہادتیں
۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کوقادیان کی گمنام بستی میں ایک موعود اقوامِ عالم بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا جنم ہوا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس برس کی عمر میں شرف مکالمہ و مخاطبہ سے سرفراز فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی اصلاح،تجدید دین اور دین اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے مہدی موعوداورمسیح موعودکے منصب پر فائز فرمایا۔چنانچہ آپ خود اپنی بعثت کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کوجو زمین متفرق آبادیوں میں آباد ہیں۔کیا یورپ اور کیا ایشیاءاُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۳۰۶تا۳۰۷)
اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ نے دعویٰ فرمایا کہ میں وہی موعود ہوں جس کی خبرمخبر صادق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ہر مذہب میں اُس کے آنے کی پیشگوئی موجود ہے جس کا قومیں انتظار کر رہی تھیں اور پُکار پُکار کر کہہ رہی تھیں۔
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
آپ علیہ السلام نے باقاعدہ اعلان فرمایا کہ میں وہی موعود مہدی اور مسیح ہوں جس کا دنیا انتظار کر رہی تھی اور خدا تعالیٰ نے مجھے بشارتیں دی ہیں کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ یعنی دور دراز سے لوگ آویں گےاور تیری امداد کے لیے تجھے دور دراز سے سامان پہنچیں گے۔حتیٰ کہ لوگوں کی آمد،اموال و سامان کے آنے سے قادیان کے راستےگھس گھس کر گہرے ہوجائیں گے۔
I shall give you a large party of Islam کہ میں تجھے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت عطا کروں گا۔(تذکرہ)
آپ کا یہ دعویٰ اور پُرشوکت اعلان بھلا نام نہاد اور خود ساختہ علماء کو کب بھاتا؟ یہ عظیم الشان پیشگوئیاں اور بشارتیں سن کر ہر طرف ایک شور برپا ہوا۔مخالفت اور تکذیب کا ایک طوفانِ تلاطم کھڑا ہوا اور آپ کے خلاف ہر قسم کے منصوبے کیے گئے۔ قتل کی سازشیں کی گئیں۔ کفر کےفتوے آپ پر لگائے گئے۔آپ کو دائرہ اسلام سے باہر کردیا گیا۔الکفر ملۃ واحدۃ کا مظاہرہ ہوا مگر قادر مطلق حی وقیوم خدا نے پہلے ہی سے ان آنے والے واقعات کی آپ کو خبر دے رکھی تھی۔
دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا۔( تذکرہ)
یعنی آپ جب ماموریت کا دعویٰ کریں گے تو دنیا آپ کو ردّ کردےگی۔ آپ کی مخالفت پر اُتر آئے گی مگر خدا تعالیٰ آپ کی تائید میں آسمانی نشانات ظاہر کرے گا اور آپ کی قبولیت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا۔خدائی تائید اور بشارتوں کے مطابق آپ کی آواز قادیان سے نکل کر باہر آنی شروع ہوئی۔ نہ صرف پنجاب بلکہ متحدہ ہندوستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں میں بڑی سرعت سے پھیلنا شروع ہوئی۔ حتیٰ کہ ایشیا، یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک اور جزائر میں بھی پھیلتی چلی گئی۔آپ نے اپنے دعوے کی تائید میں متعددکتب اردو و عربی زبان میں تحریر فرمائیں اور اشتہارات بھی شائع کیے۔ آپ کی بعض کتب اور اشتہارات کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہوکر غیر ممالک میں بھی پھیلایا گیا۔ رفتہ رفتہ لوگوں کے دل آپ کی طرف مائل ہونے شروع ہوئے۔گھٹا ٹوپ بادل دھیرے دھیرے چھٹنے لگے۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگی۔دور دراز سے لوگ آپ کے پاس آنے لگے۔ مومنوں کے ایمان میں اضافہ اور مخالفین پر اتمام حجت کے لیے آپ کی تائید میں زمین و آسمان سے تازہ بتازہ روشن نشانات ظاہر ہونے لگے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:
اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح
نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار
آسمان بارد نشان الوقت می گوید زمیں
ایں دوشاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار
آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک وتار
سارے منصوبے جو تھے میری تباہی کے لئے کردیے اس نے تبہ جیسے کہ ہوگرد و غبار
چنانچہ بہت تھوڑے ہی عرصے میں آپ گوشہ گمنامی سے نکل کر دنیا بھر میں شہرت پا گئے۔ بین الاقوامی حیثیت آپ کی ہوگئی اور قادیان کی گمنام بستی بھی آپ کی برکت سےمشہور ہوگئی۔آپ بالکل تنِ تنہا بے یارومددگار خدا کے پیغام کو لے کر نکلے تو اپنے اور بیگانے سب ہی آپ کے مخالف ہوئے۔ حالات اور واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ ان تمام مصائب و مشکلات و مخالفت کے باوجود آپ کامیاب و کامران رہےاور خدا تعالیٰ نے حسب بشارت آپ کو ایک فعال اور اسلام کی خدمت کرنے والی اورتبلیغی جوش رکھنے والی جماعت عطا فرمائی۔اسی جماعت میں حضرت سید عبداللطیف صاحب رضی اللہ عنہ اور مولوی عبدالرحمٰن صاحب رضی اللہ عنہ جیسے جاںنثار بھی تھے جنہوں نے احمدیت کی خاطر افغانستان میں بصدق دل جامِ شہادت نوش فرمایا اور اپنے خونِ جگر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے گواہ بنے۔ (اور پاکستان و دیگر ممالک میں بھی بے شمار احمدیوں نے احمدیت کی خاطر شہادت کو گلے لگایا اور ابھی حال ہی میں برکینافاسو میں ۹؍ احمدیوں نے بصدقِ دل جامِ شہادت نوش فرمایا۔)آپ کی زندگی میں ہی آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ گئی۔ آپ خود اپنے ابتدائی حالات اور عظیم الشان کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:
میں تھا غریب و بے کس و گمنام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی
اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا
اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار
اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذّاب کی
کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہےکرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تکون خلافۃ علی منھاج النبوة کے مطابق احمدیہ جماعت میں خلافت کا نظام جاری ہوا جو آج بھی جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔ان شاءاللہ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت حکیم نور الدین رضی اللہ عنہ آپ کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔ خلافت اولیٰ ہی میں ہندوستان سے باہر بیرون ملک انگلستان میں ۱۹۱۳ءمیں احمدیہ جماعت کا ایک تبلیغی مرکز قائم ہوا جس کے انچارج حضرت چودھری فتح محمد سیالؓ ایم اے تھے۔گویا بیرون ملک میں احمدیہ جماعت کے تبلیغی مرکز کی بنیاد پڑی۔مارچ ۱۹۱۴ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ خلافت پر متمکن ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں آپ کو حسن و احسان میں مسیحا کا نظیر اور دنیا کے کناروں تک شہرت پانے والا قرار دیا گیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کی قیادت و راہنمائی میں جماعت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائی اور آپ کے عہد خلافت میں بھی ہندوپاک کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اورپیغام پہنچ چکا تھا، بہت سی سعید روحیں احمدیت کی آغوش میں آ چکی تھیں اور بہت سی متاثر تھیں۔ آج دنیا بھر میں شاذ و نادر ہی کوئی ملک ہوگا جہاں احمدیہ جماعت قائم نہ ہوئی ہو یا جماعت کا پیغام نہ پہنچا ہو۔ آج ہم بفضل اللہ تعالیٰ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں احمدیہ جماعت ہی وہ واحد جماعت ہے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ان شاءاللہ۔ خدا کا یہ کلام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ حرف بہ حرف پورا ہوا۔ضمناًاس کا ذکر بے محل نہ ہو گا۔ہندوستان کی سابق وزیراعظم شری متی اندرا گاندھی جب اپنے سرکاری دورے پر ماریشس گئیں تو ماریشس احمدیہ مرکز کے انچارج مولانا محمداسلم قریشی صاحب نے شری متی اندرا گاندھی سےملاقات کرکے احمدیت کا پیغام پہنچایااور لٹریچر پیش کیا اور کہا کہ آپ گواہ ہیں کہ ہندوستان کے مسیح موعودکا نہ صرف ماریشس میں پیغام پہنچا بلکہ جماعت بھی قائم ہو چکی ہے۔اس کے علاوہ دنیا کے ہر کنارے ہرملک میں جماعتوں کا قیام ہو چکا ہے۔جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے روز بعد دوپہر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے نیز اسی حوالے سے جماعتی اخبارات و رسائل میں گاہے بگاہے مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا میں احمدیہ جماعت کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے اور کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ہر رنگ و نسل ملک و قوم طبقہ و سوسائٹی علم و قابلیت، فن و ہنر کے افراد احمدیہ جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور ہو رہےہیں۔ مختلف ممالک کے بےشمار نوجوان مالی قربانیوں کے علاوہ تبلیغ اسلام کے لیے اپنی زندگیاں بھی وقف کر رہے ہیں۔ گویا آج احمدیہ جماعت دنیا میں بین الاقوامی پوزیشن حاصل کرچکی ہے۔ دنیا کے گوشہ گوشہ میں بسنے والے احمدی اپنے امام خلیفہ وقت اور مرکز سے وابستہ اور جڑے ہوئے ہیں۔ کئی ممالک میں جماعت کا اپنا پرنٹنگ پریس ہے۔متعدد زبانوں میں اسلام کا لٹریچر موجود ہے۔قرآن مجید کے متعدد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور کئی ممالک میں جامعہ احمدیہ قائم ہیں۔ اشاعت اسلام کے لیے اور ساری دنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کے لیے مضبوط منصوبے ہیں۔ جماعت کی یہ مستحکم پوزیشن اور روز افزوں ترقی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زندہ اور پاکیزہ روشن ثبوت ہے۔ایک کاذب، مفتری کو اس قدر تائید و نصرت الٰہی حاصل نہیں ہو سکتی۔چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
کچھ نہ تھی حاجت تمہاری، نَے تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار
ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگوکچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار
چنانچہ وہ وقت بھی آگیا کہ مخالفین احمدیت بھی جماعت کی اس روز افزوں غیر معمولی ترقی اورتبلیغی جدوجہد کا برملا اعتراف کرنے پر مجبورہوئے۔
مولانا ظفر علی ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور تحریر کرتے ہیں :’’آج میری حیرت زدہ نگاہیں بہ حسرت دیکھ رہی ہیں کہ بڑے بڑے گریجویٹ اور وکیل اور پروفیسر اور ڈاکٹر جو کونٹ اور ڈی کارڈ اور ہیگل کے فلسفہ تک کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ غلام احمد قادیانی کی خرافات و اہیہ پر اندھا دھند آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئے ہیں اور…یہ ایک تناور درخت ہوچلا ہے۔جس کی شاخیں ایک طرف چین میں ہیں دوسری طرف یورپ میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔‘‘ (زمیندار ۹؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء)
ایڈیٹر اخبار تیج دہلی لکھتے ہیں کہ’’ احمدیہ جماعت کا اثر ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہے۔یورپ،امریکہ، افریقہ،آسٹریلیا، عرب، ایشیا کے تمام حصے،غرضیکہ دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک نہیں ہے جہاں احمدیہ جماعت کی شاخ یاکم از کم کوئی احمدی کام نہ کر رہا ہو۔یورپ کے تمام ممالک انگلستان،فرانس،جرمنی وغیرہ غرضیکہ تمام جگہ پر ان کےمشن موجود ہیں۔ امریکہ میں بھی تبلیغ ہو رہی ہے۔افریقہ اورعرب کے تپتے صحراؤں،مصر اور ایران کے ذرخیز متمدن ممالک ترکستان، شام، افغانستان کی خوش نماوادیوں میں غرض یہ کہ ہر جگہ ان کی کوششیں جاری ہیں اور دن بدن ترقی کر رہی ہیں۔‘‘(تیج دہلی ۲۵؍ جولائی ۱۹۲۷ء)
مخالفین و معاندین احمدیت کی پرزور مخالفت اور احمدیت کو ختم کرنے کی رات دن ان کی ناکام کوششیں اور احراریوں کے لیڈر سید عطاءاللہ شاہ بخاری کا یہ دھماکا خیز اعلانِ عام جو انہوں نے بڑی تحدی سے کیا: ’’مسیح کی بھیڑو!تم سے کسی کا ٹکراؤ نہیں ہوا جس سے اب سابقہ ہوا ہے۔یہ مجلس احرار ہے اس نے تم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ہے…مرزائیت کے مقابلہ کےلئے بہت سے لوگ اٹھے لیکن خداکویہی منظور تھا کہ وہ میرے ہاتھوں سے تباہ ہو۔‘‘( سوانح حیات سید عطاءاللہ شاہ بخاری صفحہ ۳۹)
ایک دنیا گواہ ہے کہ ان کا یہ اعلان روئی کے ذروں کی مانند ہَوا میں بکھر گیا۔ پھر خود ہی اپنی ذلت آمیز شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ان الفاظ میں مرثیہ پڑھا:’’ جانوروں کی طرح بے شعور محنت کرکے جینا اور کیڑوں کی طرح مرنا ہماری بے عمل زندگی کا عنوان ہے۔باسی کڑی کے ابال کی طرح ہم اٹھتے ہیں اور پیشاب کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘( تاریخ احرار صفحہ ۱۵۲ طبع دوم )
کیوں نہ ہو ان کے ہم عصر بزرگوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور برملا اعتراف بھی کیا۔ تصدیق بھی کردی۔چنانچہ مشہور اخبار المنیر رقمطراز ہے: ’’ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا۔ لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ مرزا صاحب کے مقابل پر جن لوگوں نے کام کیا اُن میں اکثر تقویٰ، تعلق باللہ، دیانت،خلوص، علم و اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیت رکھتے تھے…ان اکابر کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘(المنیر۲۳؍ فروری ۱۹۵۶ء)
اب دور حاضر کے مخالفین احمدیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔ان کی تاریخ کی ورق گردانی کریں اور ٹھنڈے دل سے اپنی علمی، ایمانی، اخلاقی اور روحانی حالت کا جائزہ لیں اور ان سے اپنا موازنہ کریں۔ ان مخالفین میں سے بعض کے مبنی برحق تبصرے پیش ہیں۔ ایک غیر نے یوں شہادت کی: ’’کیرکٹر کےلحاظ سےمرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی ہے۔‘‘(اخبار وکیل امرتسر ۳۰مئی ۱۹۰۸ء)
حضرت خواجہ غلام فرید چاچڑاں نے تحریر فرمایاکہ ’’حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی حق پر ہیں اور اپنے دعویٰ میں راستباز اور صادق ہیں اور آٹھوں پہر اللہ تعالیٰ حق سبحانہ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سربلندی کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں۔اُن میں کوئی مذموم اور خبیث چیزیں نہیں دیکھتا۔‘‘(ارشادات فرید جلد ۳صفحہ ۱۷۹ترجمہ از فارسی)
مشہور صحافی جناب منشی سراج الدین بانی زمیندار اخبار نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں اپنی چشم دید گواہی دی : ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے…۔ آپ عبادات اور وظائف میں اس قدر محو ومستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔(اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہامی طور پرانذاری خبر دی ہے کہ انی مھین من اراد اھانتکیعنی یقیناً میں اسے ذلیل و رسوا کرونگا جو تجھے(اور تیری جماعت کو) ذلیل و رسوا کرنے کا ارادہ بھی کرے گا۔ ۱۳۴؍سال سے دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ کیا حال ہوا فرعونوں کاہامانوں کا۔جس حیّ و قیوم قادر مطلق خدا نے آپ کو ابتدائی دور میں ترقی اور کامیابی کی بشارتیں دی تھیں۔ وہ من وعن پوری ہوئیں۔ اُسی حیّ و قیوم خدا تعالیٰ نے آپ کو جماعت کے روشن اور شاندار مستقبل کے بارے میں بھی بشارتیں دی ہوئی ہیں جو ان شاء اللہ اپنے وقت پر پوری ہوکر رہیں گی۔
چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گااور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پرمیرے فرقہ کو غالب کرےگا۔اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اورمعرفت میں کمال حاصل کریں گےکہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سےسب کا مُنہ بند کر دیں گے۔اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیے گی اور یہ سلسلہ زور سےبڑھے گااور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا ۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گےمگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔اور خدانے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ باشادہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
سواے سُننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو۔ اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لوکہ۔یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ ‘‘(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ نمبر ۴۱۰،۴۰۹)
پھر فرماتے ہیں : ’’اے تمام لوگو سُن رکھوکہ یہ اُس کی پیشگوئی ہےجس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشےگا۔وہ دن آتےہیں بلکہ قریب ہیںکہ دُنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یادکیا جائے گا۔خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کےمعدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گااور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائےگی…دُنیا میں ایک ہی مذہب ہوگااورایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اورپھولےگا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ نمبر ۶۶-۶۷)
پس مبارک ہیں وہ لوگ جو مامور ربانی اور مرسل یزدانی کو شناخت کرکے اُس پر ایمان لانےکی سعادت حاصل کرتے ہیں اور خداکے فضلوں کےوارث ہوتے ہیں۔
آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
٭…٭…٭