جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا (الفرقان:31)اور رسول کہے گا اے میرے رب! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔
یہ زمانہ اب وہی ہے جب اور بھی بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں۔ پڑھنے والی کتابیں بھی اور بہت سی آ چکی ہیں۔ اور بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اَور بھی دلچسپیاں ہیں۔ خیالات اور نظریات اور فلسفے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں۔ جو انسان کو مذہب سے دور لے جانے والے ہیں اور مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ دنیا میں سارا معاشرہ ہی ایک ہو چکا ہے۔ قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی تعلیمات پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے۔ یہی زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے کے بارے میں کہا گیاہے کہ قرآن کو متروک چھوڑ دیاہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی اس متروک شدہ تعلیم کو دنیا میں دوبارہ رائج کرنا ہے اور آپؑ نے یہ رائج کرنا تھا بھی اور آپؑ نے یہ رائج کرکے دکھایا بھی ہے۔ آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے پرلاگو کرنے والا ہوبلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھائے۔ اور کبھی بھی یہ آیت جو مَیں نے اوپر پڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں۔ اور عزت اس وقت ہو گی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے۔ اور جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہو گا۔ جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلَّاخَسَارًا(بنی اسرائیل:83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا۔
پس ہمیں چاہئے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے تمام اوامر و نواہی کو سامنے رکھیں اور اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ تبھی ہم روحانی اور جسمانی شفا پانے والے بھی ہوں گے اور قرآن کریم ہمارے لئے رحمت کا باعث بھی ہوگا۔ اور عمل نہ کرنے والے تو ظالم ہیں اور ان کے لئے سوائے گھاٹے کے اور کچھ ہے ہی نہیں، جیسا کہ قرآن شریف نے فرمایا۔ ان کی تو آنکھ ہی اندھی ہے۔ ان کو تو قرآن کریم کوئی فائدہ نہیں دے سکتا…
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتا یا ہے۔ اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے۔ اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو۔ اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 102ایڈیشن1988ء)
قرآن کریم کی گھروں میں باقاعدہ تلاوت کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھروں میں کثرت سے تلاوت قرآن کریم کیا کرو۔ یقیناً وہ گھر جس میں قرآن نہ پڑھا جاتا ہو وہاں خیر کم ہو جاتی ہے۔ اور وہاں شر زیادہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لئے تنگ پڑ جاتا ہے۔ (کنزالعمال۔ ادب المعبر الفصل الثانی فی آداب البیت والبناء حدیث نمبر 41496مطبوعہ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب)
پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ …اس برکت سے نہ صرف دین و دنیا سنوار رہے ہوں گے بلکہ شیطان کے حملوں کے خلاف طاقت بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ برکتیں اس وقت حاصل ہو رہی ہوں گی جب اس کو سمجھ کر، اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے۔ ورنہ تو اندھوں والا ہی حال ہو گا جس کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ یہ برکت حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور چال چلن کو اس تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔
پھر قرآن کریم کی تلاوت کس طرح کرنی چاہئے اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن کے حُسن میں اپنی عمدہ آواز کے ساتھ اضافہ کیا کرو۔ کیونکہ عمدہ آوازقرآن کے حسن میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے۔ ‘‘ (سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن … باب التغنی بالقرآن)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پرستش کی جڑ تلاوت کلام الٰہی ہے۔ کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے۔ (سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ283)
ایک گرمی پیدا ہوتی ہے اور عشق میں توجہ پیدا ہوتی ہے۔ پس اگر خداتعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے تو اس محبت میں مزید اضافے کے لئے اور خداتعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ہمیں قرآن کریم کو پڑھنا چاہئے اور سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے اور یہ بہت ضروری ہے۔…
تو کتنی فضیلت ہے قرآن کریم کو یاد کرنا اور پھر نماز میں پڑھنا۔ کیونکہ نماز میں ایک خاص کیفیت ہوتی ہے۔ اس لئے تلاوت کرتے وقت ایک ایک لفظ پر مومن زیادہ غور کر رہا ہوتا ہے۔ اور جہاں جہاں انذار ہوں، جہاں جہاں بشارتیں ہوں، ان آیات پر استغفار اور حمد کی توفیق مل رہی ہوتی ہے۔ ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ نماز کے بارہ میں یہ آیا ہے کہ نماز یہ سوچ کر پڑھو کہ میں خدا کے سامنے کھڑا ہوں، وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ نماز میں قرآن کریم پڑھنا سب سے افضل ہے۔ دوسرے یہ فائدہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کریم یاد کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہو گی۔ یہ ایک علیحدہ برکت ہے۔ لیکن بہرحال فرمایا کہ ویسے تلاوت کرنا بھی بہت ساری نیکیوں سے زیادہ افضل ہے۔…
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘(کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13)