انبیاء کا معیار صداقت
انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو لوگوں کو اپنی گزشتہ زندگی کا حوالہ دے کر یہ کہتے ہیں، قوم کے لوگوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ یہ جو ہماری زندگی تمہارے سامنے گزری اس میں ہمارا جو کردار بھی تمہیں نظر آئے گا یا نظر آیا وہ یہی نظر آئے گا کہ سچ بات پر قائم رہے اور سچ کہا اور سچ پھیلانے کی کوشش کی۔ اور اس وصف کے اعلیٰ ترین معیار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ اس اعلیٰ خُلق کے نور سے منور تھا۔ آپؐ کا ہر عمل، ہر فعل، دعویٰ نبوت سے پہلے بھی سچائی اور حق گوئی سے سجا ہوا تھا۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس اعلیٰ خُلق کی مثال دیتے ہوئے کفار کو مخاطب کرکے اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرمایا ہے کہ تُو کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں تم پر اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ اللہ تمہیں اس بات پر مطلع کرتا۔ پس میں اس رسالت سے پہلے بھی تمہارے درمیان لمبی عمر گزار چکا ہوں، کیا تم عقل نہیں کرتے؟ تم جو مجھ پر یہ الزام دے رہے ہو کہ یہ جو مَیں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے یہ غلط ہے، جھوٹ ہے اور قطعاً مَیں خداتعالیٰ کی طرف سے مبعوث نہیں کیا گیا، مَیں دنیاداروں کی طرح اپنی لیڈری کی دکان چمکانے کے لئے(نعوذ باللہ) یہ دعویٰ کر رہا ہوں تاکہ تم لوگ کسی طرح مجھے اپنا سردار تسلیم کر لو یا تنگ آ کر میرے سے شرائط طے کرنے لگ جاؤ۔ تو سن لو کہ ان بکھیڑوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان دنیا داری کی باتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر یہ باتیں، یہ چیزیں مجھے چاہئے ہوتیں تو مَیں تمہاری مرضی کی باتیں تمہیں بتاتا جو تمہیں خوش کر دیتیں۔ مجھ پر تم اعتراض کرنے والے نہ ہوتے بلکہ فوراً مجھے وہ مقام دینے والے بن جاتے۔ لیکن مَیں تو تمہیں حق کا وہ پیغام پہنچا رہا ہوں جو خداتعالیٰ نے مجھ پر اتارا ہے۔ اس لئے مجھ سے اس بارہ میں نہ لڑو۔ اگر اللہ یہ پیغام تم تک پہنچانا نہ چاہتا تو مَیں قطعاً تمہیں وہ باتیں نہ کہتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھائیں اور مَیں نے تمہیں بتائیں۔ تم مجھے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہو کہ شاید یہ ساری باتیں مَیں نے اپنے پاس سے گھڑ لی ہیں۔ کچھ تو ہوش کرو۔ میں تمہارے درمیان ایک عرصے سے رہ رہا ہوں۔ دو چار سال کا عرصہ نہیں ہے، دس بیس سال کا عرصہ نہیں ہے گو کہ یہ عرصہ بھی کسی کے کردار کو جانچنے کے لئے بہت ہوتا ہے۔
(خطبہ جمعہ ۱۱؍ فروری ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍فروری ۲۰۰۵ء)