انبیاء کی قبل از نبوت زندگی ان کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے
انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قوی حجت پیش کرکے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس :۱۷)… یعنے میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افتراء کروں۔ دیکھو مَیں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افتراء ثابت کیا؟ پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں یعنے یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا وہ اب خد اپر کیوں جھوٹ بولنے لگا۔ غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہو رہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی قطع نظر کر کے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انہیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کر ے گا اور کیونکر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلا اختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں ۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۱۰۷۔۱۰۸)
میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر بیس برس گذر گئے اور وہ یہ ہے وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدّت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افترا اور دروغ نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اِس قدر مُدت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افترا اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا توپھر کیونکر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے لگا۔
(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ۲۸۳)
جو مولوی مخالفت کے لئے شورمچاتے اور لوگوں کو بھڑکاتے ہیں یہی پہلے منبروں پر چڑھ کر رو رو کر دعائیں کیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اب مہدی کا وقت آگیا۔ لیکن جب آنے والا مہدی آیا تو یہ شور مچانے والے ٹھہرے اور اسی مہدی کو مُضِلّ اور ضالّ اوردجّال کہا اور یہاں تک مخالفت کی کہ اپنے خیال میں عدالتوں تک پہنچا کر اس سلسلہ کو بند کرنا چاہا۔ مگر کیا وہ جو خدا کی طرف سے آیا ہے وہ ان لوگوں کی مخالفت سے رُک سکتا ہے اور بند ہوسکتا ہے؟ کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں؟ اگر یہ اب بھی نہیں مانتے توآدمؑ سے لے کر اس وقت تک کوئی نظیر دو کہ اس طرح پر بیس برس پہلے ایک آنے والے زمانہ کی خبر دی اور پھر ایسی حالت میں کہ لوگوں نے اس پیشگوئی کو روکنے کی بہت کوشش کی وہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور لوگوں کا کثرت کے ساتھ رجوع ہوا۔ کیایہ نشان کم ہے اس کی نظیر دکھائو۔
(ملفوظات جلد ۵صفحہ ۲۰-۲۱،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)