الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعا لیٰ عنہا
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃ القیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت امّاں جانؓ کی سیرت کے حوالے سے مضمون شامل اشاعت ہے۔ (اس مضمون کا تیسرا اور آخری حصہ ہدیۂ قارئین ہے)
حضرت اقدسؑ کی یاد میں حضرت امّاں جانؓ بہت عمدہ گُڑ والے چاول پکواکر سب کو کھلایا کرتیں۔
رتن باغ لاہور کا واقعہ ہے ایک دن حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے تو حضرت امّاں جانؓ لیٹی ہوئی تھیں۔ حضورؓ آپؓ کے پائوں کے پاس پائنتی پر اپنا کوٹ سمیٹ کر بیٹھ گئے اور بےحد خوش گوار ماحول میں ایسے باتیں کررہے تھے جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے۔
ایک دن حضرت امّاں جانؓ نے مرمرے کے چھوٹے چھوٹے لڈو پلیٹ میں بھر کر مجھے دیے اور فرمایا: جائو حضرت صاحب کو دے آئو ۔ حضورؓ اپنے کمرے کے فرش پر آگے چھوٹی سی میز رکھے بیٹھے کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ مَیں نے لڈو دیے تو آپؓ بہت خوش ہوئے، امّاں جانؓ کا شکریہ ادا کیا اور پلیٹ لے کر کھانے لگے۔میں نے واپس آکر امّاں جانؓ کو بتایا تو آپؓ بھی بے حد خوش ہوئیں۔
رتن باغ لاہور میں صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ کے نکاح کی تقریب تھی۔ امّاں جانؓ مجھے بھی ساتھ لے گئیں۔ ہم جس کمرے سے گزرے وہاں حضرت مصلح موعودؓ بیٹھے کچھ تحریر فرمارہے تھے۔عاجزہ حضرت امّاں جانؓ کے پیچھے تھی۔امّاں جانؓ نے السلام علیکم فرمایا تو حضور اقدسؓ نے نظر اُٹھا کر دیکھا پھر سلام کا جواب دے کر مجھ سے فرمایا: ’’آگے ہوکر امّاں جان کو بازو سے سہارا دے کر لے جائو‘‘۔ آپؓ حضرت امّاں جانؓ کو شعائراللہ کا مرتبہ دیتے تھے۔ مجھے بے حد مسرت ہوئی کیونکہ میرا دل چاہتا تھا لیکن میں نے شرم کے مارے اماں جانؓ کو سہارا دینے کی جرأت نہ کی تھی۔
بعض اوقات رشتہ داروں اور بہن بھا ئیوں میں بچوں کی وجہ سے تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔ چھو ٹی چھو ٹی باتوں پہ خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے لیکن حضرت اماں جانؓ نے ہر رشتے کو بہت خوبصورتی سے نبھا یا اور تلخی کی نو بت نہ آنے دی۔ خاندان کو آپس میں جو ڑے رکھا۔ آپؓ کا اسوہ مشعل راہ ہے۔
مَیں نے کبھی امّاں جانؓ کو کسی کو ڈانٹتے یا خفا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بات بڑی حکمت سے کیا کرتی تھیں۔ گھر میں خادمائیں نیز اوپر نیچے مہمانوں سے گھر بھرا رہتا کبھی کوئی ناخوش گوار واقعہ ہو بھی جاتا ہوگا۔آپؓ اس کو نظر انداز فرما دیتیں۔ رتن باغ لاہور کے صحن میں ایک دن صاحبزادیاں میرو ڈبہ کھیل رہی تھیں۔ حضرت مائی کاکو صاحبہؓ جو ایک بزرگ دعا گو صحابیہ تھیں اورمزاج کی سادہ تھیں، وہ آئیں اور بڑے غصے سے کہنے لگیں: امّاں جان! یہ نیچے صحن میں کیا ہورہا ہے، جوان بیبیاں دگردگر سارے صحن میں بھاگی پھر رہی ہیں۔ مَیں بھی وہاں بیٹھی تھی مجھے ان کی بات سن کر ہنسی آرہی تھی لیکن اماں جانؓ بالکل خاموش رہیں۔ اور ان کی باتوں کا برا نہ منایا۔
آپؓ بہت نفیس طبع تھیں۔ صاف ستھرا،عمدہ پاکیزہ لباس زیب تن کرتیں۔ہر وقت آپؓ کے جسم مبارک سے ہلکی ہلکی خوشبوآتی رہتی تھی۔ گرمیوں میں بھی مَیں آپؓ کی چارپائی پر بیٹھا کرتی تھی۔آپؓ پاک مطہر شہزادی لگتی تھیں۔ سر پر ریشمی رومال باندھ کر رکھتیں۔دہلی کا لباس چوڑی دار پاجامہ، لمبا کرتا، لمبا دوپٹہ پہنتیں۔میں نے آپؓ کو کبھی بکھرے حال میں نہیں دیکھا۔ہمیشہ اچھے طریق پہ تیار رہتیں۔ لباس نہایت عمدہ رنگوں کے امتزاج سے پہنتیں۔ ہر وقت پاک صاف رہتیں۔یہ طریقہ خدا ئی نعمتوں کے تشکر کے طورپر تھا۔ایک دفعہ محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ سے باتیں کرتے آپؓ نے ان کے لباس کی تعریف کی تو انہوں نے کہا کہ خداتعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ آپؓ بہت خوش ہوئیں کیونکہ آپؓ کا بھی زندگی میں یہی نظریہ تھا۔ آپؓ عمدہ عطر استعمال کرتیں جو حضرت مصلح موعودؓ خود بناتے تھے۔
آپؓ کو یہ نا پسندتھا کہ کوئی شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کے لیے بن سنور کر نہ رہے، اس کے ہا تھوںمیں چوڑیاں نہ ہوں یا اچھے طریق پہ تیار نہ ہو۔ ربوہ میں ایک مرتبہ ایک بی بی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ارے،تمہارے ہاتھوں میں نہ چوڑیاں نہ مہندی، ابھی جا ؤ اور چوڑیاںپہن کر آؤ۔ وہ فور اًمسکرا تے ہوئے اچھا کہہ کر چوڑیاں پہننے چلی گئیں۔
آپؓ کی بہت ساری بہوئیں تھیں جو مختلف ماحول سے آئی تھیں آپؓ نے کبھی کسی بہو یا اپنی بھابھی کی جستجو نہ کی کہ وہ گھروں میں کیا کرتی ہیں بلکہ آپؓ کا کمال یہ تھا کہ آپؓ نے اپنے سارے خاندان سے ایسا محبت و پیار کا بے مثال سلوک کیا کہ نئی آنے والیاں سب اپنے میکے بھول بھال کر دل و جان سے آپؓ کی ہوکر رہ گئیں۔ اس طرح آپؓ کی بہوئیں بھابیاں پھر ان سب کی اولادیںسب ہی آپؓ کے رنگ میں ایسے رنگین ہوگئیں جیسے سب آپؓ کی ہی اولاد ہیں اور آپؓ جیسا لباس اپنالیا۔حالانکہ بعض دوسر ے ماحول کی تھیں جیسے کہ حضرت اُمّ وسیم صاحبہ عرب تھیں۔ ایک بہو پٹھان خاندان سے اور ایک نواب خاندان سے تھیں۔یہاں تک آپؓ کے اثر کا دائرہ وسیع تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی حرم حضرت امّاں جیؓ بھی آپؓ کے دہلی طرز کا ہی لباس پہنتی تھیں۔
ربوہ میں ایک دن عاجزہ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور طبیعت پوچھی تو فرمایا :کمر میں درد ہے۔ عاجزہ نے عرض کی: امّاں جان آجکل موسم بہت اچھا ہے آپ سیر کو جایا کریں۔ گرمیوں کے دن تھے۔ نیز میں نے عرض کی کہ میں آجایا کروں گی۔آپؓ بہت خوش ہوئیں۔ دوسرے دن صبح کی نماز کے فوراً بعد مَیں گئی تو آپؓ برقع اور سوٹی چار پائی پر رکھ کر میرا انتظار فرمارہی تھیں۔آپؓ نے پہلے ناشتہ منگوایا۔ خادمہ نے ایک پھلکا اور چائے کا ایک کپ ٹرے میں رکھ کر دیا۔ آپؓ نے پیالی سے دو گھونٹ چائے پی اور باقی مجھے عنایت کی اور فرمایا: بیٹی پہلے ناشتہ کرلو۔ یہی روزانہ کا معمول بن گیا۔
ایک دن سیر کے بعداپنے بھائی حضرت سید میرمحمد اسحٰق صاحبؓ کے گھر چلی گئیں۔ ابھی منہ اندھیرا ہی تھا۔سارے گھر والے جاگے ہوئے تھے۔ حضرت ممانی جان صالحہ بیگم صاحبہؓ اور میر محمود احمد صاحب قرآن شریف کی تلاوت کررہے تھے۔ اُس دن آپؓ نے اُن کے گھر کی کھڑکی میں سے ٹرین کو گزرتے دیکھااور بہت خوش ہوئیں۔
جب ٹھنڈا موسم شروع ہوا تو میں نے خود ہی یہ سوچ کر کہ اب آپؓ سیر کو نہ جا سکیں گی صبح کو جانا چھوڑ دیا۔کچھ دنوں کے بعد مَیں حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کو حاضر ہوئی تو آپؓ بھی صحن میں ٹہل رہی تھیں۔حضورؓ اور چھوٹی آپاجان ؒ تخت پوش پر بیٹھے ہوئے تھے۔آپؓ ان سے باتیں کررہی تھیں۔آپؓ جب میرے قریب آئیں تو میں نے خاص طور پر آپؓ کو سلام کیا آپؓ نظریں نیچی کیے تھیں۔سلام کا جواب اونچی آواز میں نہ دیا۔ مَیں نے خیال کیا کہ آپؓ نے سُنانہیں اس لیے دوبارہ ٹہلتے ہوئے میرے قریب آئیں تو میںنے پوچھا: امّاں جان آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ بالکل بچوں کی طرح جو روٹھے ہوئے پہلے سے زیادہ پیارے لگتے ہیں۔ اس طرح آپؓ نے فرمایا: بڑی مجھے سیر کروانے لے جاتی تھی اب کیوں نہیں آتی؟ یکدم میری ہنسی چھوٹ گئی۔ مَیں نے کہا: اچھا تو یہ بات ہے۔ پھر میں نے بتایا کہ میں اس لیے نہیں آئی کہ اب ٹھنڈ شروع ہوگئی ہے آپ کومشکل ہوگی ۔آپؓ نے فرمایا: ٹھنڈہے تو کیا ہوا۔ مَیں نے عرض کی: مَیں کل سے پھر آجائوں گی۔ اس پر خوشی سے میری طرف دیکھ کر مسکرائیں۔ پھر میں نے دو بارہ آپؓ کو سیر پہ لے جانا شروع کردیا۔
آپؓ رات تہجد پڑھ کر صبح کی نماز کے ساتھ سویرا کرتیں اور پھر نہ سوتیں۔ میں نے کبھی آپؓ کو دیر تک سوتے نہیں دیکھا۔ دوپہر کو ضرور کچھ دیر آرام فرماتیں۔
احمدیوں کے گھروں میں جاتیں تو ان بہنوں کے ساتھ گھر کے کام میں مدد فرماتیں اور ان کو گھر سنبھالنے کے سلیقے بتاتیں۔آپؓ نے اپنے خاندان کا شاہانہ زمانہ دیکھا ہوا تھا لیکن آپؓ میں عاجزی انکساری بہت تھی۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے کے آداب کا پورا خیال رکھتی تھیں۔ دروازے پر دستک دے کر اونچی آواز میں السلام علیکم کہتیں۔
بچیوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا بہت احساس تھا۔ نصرت گرلز سکول ابتدا میں اُن بیرکوں میں تھا جو جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے بنائی گئی تھیں۔ یہ کچے کمرے تھے روزصبح ہم اپنے کمروں کو پانی ڈال کر لپائی کرتے پھر کلاس شروع ہوتی۔ میں درجہ ثانیہ میں پڑھتی تھی۔ ایک دن حضرت امّاں جانؓ کو سکول لے گئی اور اپنی کلاس کا کمرہ دکھایا۔ آپؓ کرسی پر دیر تک بیٹھی رہیں اور سکول کے بارہ میں پوچھتی رہیں۔ کچھ دیر کے بعد سکول کھل گیا تو اساتذہ آپؓ کو دیکھ کر خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتی تھیں۔ سب آپؓ کے گرد جمع ہوگئیں۔ آپؓ نے باری باری سب کا حال احوال پوچھاپھر عمدہ نصائح کیں۔ آپؓ کبھی بے مقصد گفتگو نہیں کرتی تھیںبلکہ باتوں باتوں میں سبق آموز واقعات سنا کر عمدہ نصیحت کرتیں۔ اساتذہ اور بچیوں کو ایک مزیدار کہانی سنا کر آپؓ نے یہ نصیحت فرمائی کہ کبھی کسی کی نقل نہ کریں ورنہ شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
خاکسار حضرت اماں جانؓ کو جما عتی کتب کے علا وہ کبھی کبھی مشہو ر نا ول نگار اے آر خاتو ن کے ناول بھی پڑھ کر سناتی تھی۔ صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ کے نکاح کی تقریب رتن باغ لاہور میں ہوئی تو اس موقع پر اے آر خاتون بھی آئی ہوئی تھیں۔ آپؓ نے خاص طور پر مجھے اُن سے ملوایا۔وہ بہت خوش تھیں کہ حضرت امّاں جانؓ اُن کی کتب پر تبصرہ فرما رہی تھیں۔
حضرت امّاں جانؓ بچوں کی تربیت کے لیے سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہم جب بچے تھے تو حضرت امّاں جانؓ ہمیں کہانی سنایا کرتی تھیں اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی نصیحت فرماتیں۔‘‘
آپؓ کی وفات20؍اپریل 1952ء کی شب ربوہ میں ہوئی۔ آپؓ تقریباًتین ماہ بیمار رہیں۔ مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب فرماتے ہیں کہ جب بیس تاریخ کی رات اماں جانؓ کی حالت یکدم خراب ہو گئی تو حضرت صا حبؓ بھی تشریف لے آئے اور اماں جانؓ کے سرہانے بیٹھے دعائیں کرتے رہے۔ اسی دوران حضرت اماں جانؓ نے آنکھیں کھول کر حضرت صاحبؓ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر اشارے سے دعا کرنے کے لیے کہا۔ حضرت صاحبؓ دعائیں بڑے سوز اور رقت سے کرتے جاتے تھے۔کبھی آپؓ کی آواز بلند بھی ہو جاتی تھی اس وقت جو دعا آپؓ نے بلند آواز سے بار بار دہرائی، وہ یہ تھی اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ۔آخری اڑھائی گھنٹے حضرت صاحبؓ قریباً سارا وقت وہیں رہے۔
محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کہتی ہیںکہ آخری وقت آپؓ نے کمزور اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھایا اور فرمایا ’’دعا کرو‘‘۔ حضرت صاحبؓ آپؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسی وقت دعا شروع کی اور اہل ربوہ کو مسجد میں اکٹھا کیا گیا۔ دعا جاری تھی کہ آپؓ کی وفات ہوگئی۔
آپؓ آخری لمحوں تک اللہ تعالیٰ کی یاد میں محو تھیں۔ جیسے حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت آپؓ کی زبان پریہی الفاظ تھے کہ ’’اے خدا !یہ تو ہمیں چھوڑچلے ہیں پر تو نہ ہمیں چھوڑیو‘‘۔ گویا اس وقت بھی آپؓ کا آ خری سہارا اور آخری نظر اللہ پر تھی اورپھر 46 سال بعد خود آپؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُس وقت بھی وہی پاک و برتر ہستی آپؓ کا آخری سہارا تھی۔ آپؓ کی وفات سے دواڑھائی ما ہ قبل آپؓ کی آواز میںحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک پیغام ریکارڈ کیا جس میں آپؓ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’…میرا پیغام یہی ہے کہ میری طرف سے سب کو سلام پہنچے۔ جماعت کو چاہئے کہ تقویٰ اور دینداری پر قائم رہے ا ور اسلام احمدیت کی تبلیغ کی طرف سے کبھی غافل نہ ہو۔ اسی میں ساری برکت ہے۔ میں جماعت کے لیے ہمیشہ دعا کرتی ہوں۔جماعت مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھے۔‘‘
………٭………٭………٭………