خلیفہ وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھنے اور راہنمائی کی درخواست کرنے کی برکات
دو تین سال پہلے کی بات ہے کہ مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈ نے خاکسارکوسوئٹزرلینڈ آ کر ایک ادبی نشست منعقد کرنے کی دعوت دی۔ ابھی یہ پروگرام کوئی چھ ماہ بعد ہونا تھا۔خاکسار نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کی درخواست لکھی اور راہنمائی طلب کی۔ خط کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت فرمایا ہوا تھا ’’ اجازت ہے‘‘۔ خاکسار نے میزبان کو بخوشی اطلاع کر دی کہ ان شاءاللہ مقررہ تاریخ کو حاضر خدمت ہو جاؤں گا۔ اب پروگرام کے دن قریب آ رہے تھے اور میزبان میری ٹکٹ بک کروانے اور ہال وغیرہ بک کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اتفاق سے میں کورونا سے ملتے جلتے کسی بخار کی وجہ سے کچھ ایسا بیمار پڑا کہ چلنا پھرنا ممکن نہیں تھا اور لگ رہا تھا کہ کُوچ کا وقت قریب ہے۔ میں نے اہلِ خانہ کو وصیت بھی کردی تھی کہ میری زمینیں فیکٹریاں کارخانے پلازے اور تمام جائیدادِ منقولہ و غیر منقولہ جو کہ بالکل ہے ہی نہیں، مستحق لوگوں میں تقسیم کر دی جائے۔(مجھے اس سے پہلے کورونا ہو چکا تھا اور دونوں ویکسین لگ چکی تھیں لیکن پھر نجانے کیا ہو گیا تھا ) سوئٹزرلینڈ جانے کے دن قریب آ رہے تھے اور میں سفر کا سوچ کر سخت گھبراہٹ کا شکار تھا۔ میرے گھر والوں کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو بتادیں کہ نہیں آ سکتا۔ میں نے کہا انکار کرنا ہی تو سب سے مشکل کام ہے۔ وعدہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے سب انتظامات کر لیے ہیں۔ دوسرے ہم سب جماعت کے خادم ہیں اور ہماری ٹریننگ ایسی ہے کہ اگر وعدہ کیا ہے تو پورا کرنا ہے دوسری صورت یہی ہوسکتی ہے کہ وعدہ کرنے والا دنیا سے جا چکا ہے۔ (سوائے یہ کہ کوئی بہت بڑی مجبوری ہو)۔صدر محترم ملک عارف محمود صاحب کا دو دفعہ فون آیا۔ ہر چند کے میرا سر سرہانے سے نہیں اٹھ رہا تھا لیکن میں نے کہا ان شاءاللہ۔ ان شاءاللہ۔ بہت جی چاہ رہا تھا کہ کہہ دوں صدر صاحب مجھے رخصت مل سکتی ہے؟ لیکن مجھے ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ اب غالباََ جانے میں کوئی ایک ہفتہ تھا کہ خاکسار نے اپنے ایک پیارے دوست اور محسن کے ہاتھ پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دوبارہ دعا کا خط بھجوایا۔ یاد رہے کہ میں نے خط میں اپنی بیماری کا ہرگز، ہرگز ذکر نہیں کیا تھا بلکہ لکھا ’’پیارے حضور آپ نے چند ماہ قبل اس پروگرام کی منظوری عطا فرمائی ہوئی ہے۔ اب جانے میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں دعا کی عاجزانہ درخواست ہے ‘‘دو ہی دن میں جواب آگیا۔ میرے خط پر ہی پیارے حضور نے اپنے دستِ مبارک سے لکھا ہوا تھا ’’ میرے خیال میں ابھی نہ جانا بہتر ہے ‘‘۔ خط پڑھتے ہی مجھے ایسے لگا جیسے میری عید ہو گئی ہے اور فضاؤں میں خوشی کے شادیانے بج اٹھے ہیں۔ گھر بچوں کو بھی خط دکھایا وہ بھی بہت بہت خوش ہوئے۔ اسی وقت خط محترم ملک عارف محمود صاحب صدر انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کو فون پر پڑھ کر سنایا اور کہا اب میرے لیے کیا ہدایت ہے؟ ہنس کے کہنے لگے۔ اب میں نے کیا ہدایت دینی ہے۔ ہم یہ پروگرام اس سال کی بجائے اگلے سال کر لیں گے۔ اسی میں ساری برکتیں ہیں۔ میں نے دل میں کہا میرے پیارے حضور زندہ و پائندہ باد۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ساری جماعت پر ایسی شفقت کی نظر ہے کہ ہر ہر فرد کی حضور انور ہر قدم پر راہنمائی فرماتے ہیں۔ایک احمدی طالبعلم جس نے تعلیمی میدان میں بعض ورلڈ ریکارڈ قائم کیے ہیں، خاکسار نے اس کے والدین سے کہا کہ اس کامیابی کا راز مجھے بھی بتائیں تاکہ سب کو بتاؤں۔ وہ کہنے لگے کہ صرف ایک ہی راز ہے کہ ہم اس کے لیے دعا کے لیے حضور کو خط لکھتے رہتے ہیں اور ایک مرتبہ حضور کی طرف جواب یہ آیا تھا کہ مجھے آپ کی طرف سے دعا کے ۳۰ خطوط مل گئے ہیں۔ سبحان اللہ
اے مِرے خدا مِرے چارہ گر اُسے کچھ نہ ہو
مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر اُسے کچھ نہ ہو