اے نبی! خدا کی تسبیح اور تمجید کر اور خدا سے مغفرت چاہ
ایک اور ضروری صفت خدا تعالیٰ کی … اُس کا توّاب اور غفور ہونا ہے اور توّاب اورغفور کے یہ معنی ہیں کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور گنہ بخشنے والا ہے… خدا توّاب اور غفور ہے اور توبہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگروہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہرگز نہیں کرے گا۔ پس جب انسان اس صدق اور عزم محکم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا جواپنی ذات میں کریم و رحیم ہے وہ اس گناہ کی سزا معاف کردیتا ہے اور یہ خداکی اعلیٰ صفات میں سے ہے کہ توبہ قبول کرکے ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۸۹-۱۹۰)
بے گناہ ہونے کی اطمینان کسی نبی نے بھی ظاہر نہیں کی۔ جو دنیا میں افضل الرسل اور خاتم الرسل گذرا ہے اس کے مُنہ سے بھی یہی نکلا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ بَاعِدْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ خَطَایَانَا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ فرماتے تھے کہ سورۃہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ اور آپ سب سے زیادہ استغفار پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مَیں دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ اور خدا تعالیٰ نے آپ کے حق میں فرمایا اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ۔ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا۔ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَاسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔ (النصر: ۲-۴)۔ یہ سورۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قُرب زمانۂ وفات میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ زور دے کر اپنی نصرت اور تائید اور تکمیل مقاصد دین کی خبر دیتا ہے کہ اب تُو اے نبی! خدا کی تسبیح اور تمجید کر اور خدا سے مغفرت چاہ وہ توّاب ہے۔ اس موقعہ پر مغفرت کا ذکر کرنا یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب کام تبلیغ ختم ہو گیا خدا سے دُعا کر کہ اگر خدمتِ تبلیغ کے دقائق میں کوئی فروگذاشت ہوئی ہو تو خدا اُس کو بخش دے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۷۱)