سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی کتب بینی
’’میرے پاس کمیونزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں سوشلزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں احمدیت کے مخالفین کا لٹریچر موجود ہے میں نے بعض دفعہ ایک ایک رات میں چار چار سو صفحات کی کتاب ختم کی ہے اور اب تک بیس ہزار کے قریب کتابیں پڑھ چکا ہوں‘‘
سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ۱۸۸۶ء میں ایک عظیم الشان موعود بیٹے کی خبر عطافرمائی تو اس کی دیگر عظیم صفات میں سے ایک یہ صفت بھی بیان فرمائی کہ ’’وہ سخت ذہین وفہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا ‘‘ جس کی ایک یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ ظاہری حواس خمسہ کے ذریعہ سے حاصل ہونے والے علوم اس کو ایک بحر ذخّار کی مانند عطا کیے جائیں گے اور الہامی ذرائع سے حاصل ہونے والے علوم کا بھی وہ ایک بحر ناپیدا کنار ہوگا۔ جہاں تک ظاهری حواس خمسہ کے ذریعہ سے حاصل ہونے والے علوم کا تعلق ہے اس کی ایک شاخ مطالعہ کتب پر بھی مبنی ہے اور موضوع زیر گفتگو میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ان کیفیات کا مطالعہ مقصود ہے جن کا تعلق حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطالعہ کتب سے ہے۔ مگر یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ابھی مطالعہ کی عمر میں داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ مختلف عوارض نے آپ کو گھیر لیا۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے اساتذہ سے کہہ دیا تھا کہ ’’اس کی پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے‘‘(الموعود صفحہ۵۶۶۔ انوار العلوم جلد ۱۷)
پس جس مقدس شخصیت کے مطالعہ کتب کی کیفیات کا ہم مطالعہ کرنے جارہے ہیں اس کی صحت ہرگز کسی قسم کے مطالعہ یا پڑھائی کی متحمل نہیں تھی۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ اس موعود بیٹے کا خود معلّم حقیقی ہوگا اور وہی اس کو تمام علوم سکھائے گا اسی لیے پیش گوئی کے الفاظ یہی رکھے گئے تھے کہ وہ ’’ ظاہری و باطنی علوم سے پُر کیا جائیگا ‘‘۔چنانچہ جب اللہ تعالیٰ خود آپ کا معلم بنا تو اس نے آپ کی اس نہج پر تعلیم فرمائی کہ بڑے بڑے صاحب علم جنہیں اپنے اپنے علم وفن میں کمال حاصل تھا اور وہ اپنے آپ کو ان علوم میں یکتائی کے مقام پر خیال کرتے تھے جب آپ کے سامنے آتے تھے تو وہ اپنے آپ کو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابل پر محض طفلِ مکتب سمجھنے لگ جاتے تھے۔ مثلاً عِلم نفسیات میں حضور کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی اور فوق العادت قسم کا علم عطا فرمایاتھا چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں :’’ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے علم النفس کا بہت ماہر ہوں۔ یوں تو میں پرائمری پاس بھی نہیں مگر علم النفس کے ماہر لوگ بھی گفتگو میں مجھ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے دبتے ہیں اور وہ سینکڑوں کتا بیں پڑھ لینے کے بعد بھی میرے علم النفس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۱۰صفحہ ۳۴۵)اسی طرح آپؓ فرماتے ہیں کہ’’ دنیوی لحاظ سے میں پرائمری فیل ہوں مگر چونکہ گھرکا مدرسہ تھا اس لئے اوپر کی کلاسوں میں مجھے ترقی دے دی جاتی تھی۔ پھر مڈل میں فیل ہوا۔ مگر گھر کا مدرسہ ہونے کی وجہ سے پھر مجھے ترقی دیدی گئی۔ آخر میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو میری ساری پڑھائی کی حقیقت کُھل گئی اور میں صرف عربی اور اردو میں پاس ہوا اور اس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی گویا میری تعلیم کچھ بھی نہیں۔ مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے میرے سامنے قرآن کریم کے خلاف کوئی اعتراض کیا ہو اور پھر اسے شرمندگی نہ ہوئی ہو بلکہ اسے ضرور شرمندہ ہونا پڑا ہے اور اب بھی میرا دعوٰی ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا عالم ہو وہ اگر قرآن کریم کے خلاف میرے سامنے کوئی اعتراض کرے گا تو اسے ضرور شکست کھانی پڑیگی اور وہ شرمندہ اورلا جواب ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ میں یوروپ بھی گیا ہوں، میں مصر بھی گیا ہوں، میں شام میں بھی گیا ہوں اور میں ہندوستان میں بھی مختلف علوم کے ماہرین سے ملتا رہا ہوں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے علمی اور مذہبی میدان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے فتح نہ پائی ہو۔ بلکہ جب بھی انہوں نے مجھ سے کوئی گفتگو کی ہے انہیں ہمیشہ میری فوقیت اور میرے دلائل کی مضبوطی کو تسلیم کرنا پڑا ہے ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۰ صفحہ ۳۵۷)
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ پیشگوئی کی رُو سے آپ کا معلم حقیقی خود خدا تعالیٰ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کرنے کے لیے باطنی ذریعہ آپ کو غیر معمولی معجزانہ قسم کی ذہانت کی صورت میں عطا فرمایا تھا جیسا کہ ’’ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا ‘‘کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے اور خارجی ذرائع آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضى اللہ تعالیٰ عنہ جیسے عظیم الشان مقدس اساتذہ اور کتب کے ایک عظیم ذخیرہ کی صورت میں عطا فرمائے تھے جس میں مختلف موضوعات مثلاًحدیث، تفسیر،صرف،نحو،معانی، بیان، ادب، لغت، تاریخ، اصولِ فقه، علم کلام، منطق، فلسفه اخلاق و تصوف،طب، مذاهب، وغیرہ بے شمار علوم پر ہزارہاکتب آپ کے لیے مہیا تھیں جن میں سے کچھ کتب کے نام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’ البلاغ یا فریاد درد ‘‘ میں درج بھی فرمائے ہیں۔ان تمام کتب کا مطالعہ نیزان کے علاوہ خود حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہمیشہ مختلف کتب خریدتے رہتے تھے اور یوں مذکوره ذخیرہ کتب یا لائبریری جو دن بدن غیر معمولی وسعت پکڑتی جارہی تھی۔ ان ہزاروں کتب کا مطالعہ آپ نے کیسے کیا ہوگا اس کے لیے خود حضور رضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ میں اس مطالعہ کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سب سے پہلے ذخیرہ کتب کے بارےمیں حضورؓ کا طرز عمل پیش کرتا ہوں۔ حضور فرماتے ہیں :’’ ہمیں تو حضرت خلیفہ اوّل نے اس طرح علم کی چاٹ لگائی کہ ایک کتاب کےچار پانچ نسخے منگوا لینا اور فرمانا میاں ! یہ کتاب بڑی اچھی ہے ضرور لواور مطالعہ کرو۔ چنانچہ اسی ابتدائی زمانہ میں تیس چالیس اچھی اچھی کتابیں میرے پاس جمع ہو گئی تھیں ان میں سے بعض تو حضرت خلیفہ اول نے مجھےتحفہ کے طور پر دی تھیں اور بعض میں نے خود خریدی تھیں اس طرح میرا علم بڑھتا چلا جاتا تھا…مجھے خوب یاد ہے حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کی هر چیز مولوی خرید لے گا مگر… کتاب خرید نے کے لیے وہ کبھی تیار نہیں ہو گا…میں پچیس سال کی عمر میں خلیفہ ہوا تھا۔ میرے بچے اب ستائیس ستائیس سال کے ہیں لیکن ستائیس سال کی عمرمیں ان کے پاس اتنی کتابیں نہیں جتنی کتابیں بیس سال کی عمر میں میرے پاس موجودتھیں… ایک لائبریری مرکز ی ہوتی ہے مگر ایک لائبریری وہ ہے جو ہر شخص کے گھر میں ہونی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پچیس تیس کتابیں ایسی ہیں جوہر مولوی کے پاس ہونی چاہئیں۔ بلکہ اب موجودہ علوم کے لحاظ سے ایک سو کتا بیں ایسی ہیں کہ چاہے انسان فاقہ کرے ننگا رہے وہ کتا بیں اس کے پاس ضرور ہونی چاہئیں لیکن اگر سو نہیں تو کم از کم پچاس ساٹھ کتابیں تو ضرور ہونی چاہئیں‘‘( خطابات شوریٰ جلد سوم صفحہ۴۷۵۔۴۷۶)
پس لائبریریوں کی اہمیت پر بھی حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت زور دیا اور لائبریریوں کے اصول بھی واضح فرمائے۔ ایک موقع پر آپ نے قادیان میں موجود لائبریریوں کی ضخامت بھی بیان فرمائی چنانچہ مجلس شوریٰ ۱۹۵۲ء کے موقع پر آپؓ نے فرمایا کہ ’’ میری چھ ہزار کتاب قادیان سے آچکی ہے اور حضرت خلیفہ اوّل کی ساڑھے چار ہزار کتاب آئی ہے اور حضرت خلیفہ اوّل کا انداز ہ یہ تھا کہ آپ کے پاس ۳۰،۲۰، هزار کتاب موجود ہے۔ بہر حال چھ ہزار میری کتا بیں اور ساڑھے چار ہزار وہ گویا گیارہ ہزار کتا بیں ہو گئیں…لائبریری کی اصل غرض بہت وسیع ہے ہماری جماعت کو چونکہ علمی چیزوں سے شغف کم ہے اس لئے وہ سمجھتے نہیں کہ لائبریرین کا کام کیا ہواکرتاہے۔ میں دوستوں کو بتاتا ہوں کہ ایک کارآمد لائبریرین کے کیا فرائض ہونےچاہئیں‘‘۔
اس کے بعد حضورنے لائبریرین کے جو اوصاف بیان فرمائے وہ خلا صۃًحضور کے الفاظ میں اس طرح تھے کہ ’’لائبریری میں ہرفن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں۔ ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور ان کے خلاصے نکالتے رہیں اور ان خلاصوں کو ایک جگہ نتھی کرتے چلے جائیں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب لوگوں کو ان کتابوں کے حوالوں کی ضرورت ہوگی وہ خلاصہ سے فوراً ضروری باتیں اخذ کر لیں گے۔‘‘ پھر فر مایا کہ ’’ لائبریرین کے عہدہ پر ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو صرف ونحو کا علم رکھتے ہوں، تاریخ جانتے ہوں، حدیث، فقہ، اصول فقہ، تفسیر قرآن اور اصول تفسیر سے تعلق رکھنے والے تمام علوم سے آگاہ ہو اور جب مصنفین کو حوالجات وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ کتابیں نکال نکال کر ان کے سامنے رکھتے چلے جائیں۔ جیسے لڑنے کے لئے سپاہی جاتاہے تواسے تم وردی سلا کر دیتے ہو،اسے گولہ بارود خود تیار کرکے دیتے ہو۔…گویا لائبریری ایک آرڈی ننس ڈپو یا سپلائی ڈپوہے جو مبلغین اور علمائے سلسلہ کی مدد کے لئے ضروری ہے۔ (خطابات شوری جلد ۳ صفحہ ۴۷۲-۴۷۵)
جہاں تک حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطالعہ کی کیفیت کا تعلق ہے یہ بھی حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔ مطالعہ میں وسعت پیدا کرنے کے سلسلہ میں حضورؓ فرماتے ہیں کہ ’’ میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ کیوں ہمارے علماء اپنی ذہنی وسعت کے لئے کوشش نہیں کرتے اور کتابیں تو الگ رہیں مَیں تو جادو کی کتاب ہاتھ آ جائے اسے بھی نہیں چھوڑتا۔ ہتھکنڈوں کی کتاب مل جائے اسے بھی پڑھ جاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر علم والے سے بات کر لیتا ہوں اگر اور لوگ بھی اسی رنگ میں کوشش کریں تو وہ بھی اپنے علم کو بہت بڑھا سکتے ہیں ‘‘۔ (خطابات شوریٰ جلد ۳ صفحہ ۴۷۸)
اس کے بعد آپؓ فرماتے ہیں کہ’’مجھے ایسی مشق ہے کہ میں کتاب کو پڑھتے ہی صحیح اور غلط بات کا فوراً پتہ لگا لیتا ہوں اور اس طرح تھوڑے سے وقت میں میں کتاب کا بہت بڑا حصہ پڑھ لیتا ہوں۔ حضرت خلیفہ اوّل کو بھی ایسی ہی مشق تھی ہم آپ کو بچپن میں پڑھتے دیکھتے تو حیران ہوا کرتے تھے۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ کتاب اٹھائی اس کے ایک صفحہ پر جستہ جستہ نظر ڈالی اور جھٹ اُلٹ کر دوسرے صفحہ پر جا پہنچے۔ بس چند سیکنڈ میں ہی اس پر نظر ڈالی کہ آگے جا پہنچے اور ہم حیران ہوتے تھے کہ آپ اتنی جلدی کس طرح پڑھ لیتے ہیں مگر بڑے ہو کر خود مشق ہوئی تو معلوم ہوا کہ کثرت مطالعہ کے نتیجہ میں یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان کتاب پر ایک نظر ڈالتےہی پتہ لگا لیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیز ہے یا نہیں۔ اور اس طرح دو چارگھنٹہ میں بڑی بھاری کتاب بھی ختم ہو جاتی ہے۔ میرے نزدیک ایک آدمی نہایت آسانی کے ساتھ اگر وہ مطالعہ کے ساتھ دلچسپی رکھتا ہو تو آٹھ نو سو کتاب بھی ایک سال میں سرسری طور پر پڑھ سکتا ہے۔ اور پچاس، سو کتاب تو عام لوگ بھی پڑھ سکتے ہیں‘‘۔ (خطابات شوری جلد ۳ صفحہ ۴۷۸-۴۷۹)
حضور ؓ کے اس بیان پر طبعاً ایک تجسس ذہن میں ابھرتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے مطالعہ کی اس رفتار کی تفصیل اگر کسی طرح معلوم ہو جائے تو پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مطالعہ کی نہج بھی بآسانی معلوم ہو سکے گی۔ چنانچہ حسن اتفاق سے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی اپنی زبان مبارک سے بیان فرمودہ ایک واقعہ آپ کی آپ بیتی جو ’’مرقاۃ الیقین‘‘ کے عنوان سے محفوظ ہے میں ہمیں یوں ملتا ہے اور اس واقعہ سے آپ کے تعلق باللہ پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں :’’ایک دفعہ مجھے کتاب ’’ عبقات الانوار‘‘ کے دیکھنے کا بڑا شوق ہوا جو حدیث ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہ فَعَلِیّ مَوْلَاہُ ‘‘کی بحث پر ہے اور میر حامد حسین صاحب نے سات سو صفحات سے زیادہ پرلکھی ہے۔ ایک میر نواب نام لکھنؤ کے شیعہ وہاں طبیب تھے اور میں نے سنا کہ یہ کتاب ان کے پاس ہے۔ میں نے ان سے طلب کی تو انہوں نے کہا کہ رات کےدس بجے آپ لیں اور صبح کے چار بجے واپس کر دیں تو میں دے سکتا ہوں۔ میں نے سمجھا کہ یہ میری دن بھر کام کرنے کی عادت سے واقف ہیں انہوں نے سوچا ہوگا کہ دن بھر کا تھکا ہوا رات کو سو جائے گا۔ کتاب کیا دیکھ سکے گا ؟ بہر حال میں نے رات کےدس بجےوہ کتاب منگوائی اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میں جب اس کے مطالعہ اور خلاصہ اور نقل سے فارغ ہو گیا تو میں نے ملازم کو آواز دی اور پوچھا کہ اب کیا بجا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ابھی چار نہیں بجے۔ میں نےکہا کہ حکیم نواب صاحب کو یہ کتاب دے آؤ۔ اس خلاصہ کو میں نے ایک نظر پھر بھی دیکھ لیا۔ میں حیران تھا کہ اتنی بڑی محنت کیوں کی گئی ہے۔ اس خلاصہ کے مکرر دیکھنے میں مَیں نے اس کے کچھ جوابات بھی سوچ لئے تھے۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک دن شیخ فتح محمد صاحب نے کہا کہ میری اور آپ کی آج الٰہی بخش نام ایک رئیس کے ہاں ضیافت ہے۔ میں اور شیخ صاحب دونوں اکٹھے ضیافت کو چلے تو رستہ میں شیخ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میاں الٰہی بخش ایک جوشیلے شیعہ ہیں۔ انہوں نے کوئی مجتہد بلوایا ہے جس کی آپ کے ساتھ بحث ہوگی اور شرط یہ ٹھہری ہے کہ ہم جس قدر سنی وہاں دعوت میں شامل ہوں گے اگر مباحثہ میں آپ ہار گئے تو ہم کو شیعہ ہونا پڑے گا اور پہلے سے اس کا ذکر آپ سے اس لئے نہیں کیا کہ تیاری کر کے جاتے تو مزہ نہ آتا۔ میں نے شیخ صاحب کو بہت ملامت کی کہ ایسی شرطیں نہیں کیا کرتے۔ مگر انہوں نے میری باتیں ہنسی ہی میں اڑا دیں۔ جب وہاں پہنچے تو شیخ فتح محمد صاحب نے جو بڑے ہی بے تکلف بھی تھے کہا کہ ارے او شیعو !لاؤ کہاں ہیں وہ تمہارے بحث کرنے والے مولوی۔ چنانچہ کتاب عبقات الانوار میرے سامنے پیش کی گئی۔ ابھی تک میں نے مجتہدصاحب کو بھی نہیں پہچانا تھا ۔کیونکہ اس وقت تک میرے سامنے نہیں ہوئے تھے۔ میں نے اپنے مولا کا بڑا ہی شکر ادا کیا کہ یہ وہی کتاب ہے جو میں دیکھ چکا ہوں۔ میں نے اس کتاب کے جلد جلد ورق الٹنے شروع کئے۔ چند منٹ میں اس کے سب ورقوں کو الٹ گیا۔ پھر میں نے وہ کتاب میاں الٰہی بخش کے سامنے رکھ دی اور عرض کیا کہ منشا کیا ہے ؟انہوں نے فرمایا کہ آپ اس کتاب کو بہت غور سے پڑھیں۔ میں اپنے مولا کی غریب پروری کی کوئی حد نہیں سمجھتا۔ اس وقت مجھ کو بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں نے یہ کتاب پڑھ لی۔ اگر آپ کہیں تو میں اس کا خلاصہ سنا دوں اور پھر اس کا جواب نہایت مختصر طور پر عرض کردوں۔ وہاں بہت سے شیعہ مولوی موجود تھے۔ سب نے کہا کہ آپ خلاصہ سنائیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے خلاصہ سنایا۔جس کےسننے کے بعد ان شیعوں نے علیحدہ جا کر سرگوشی کی کہ اس شخص سے مباحثہ کرنا ہماراکام نہیں… میرے اس خلاصہ کوسنا نےسے یہ فائدہ ہوا کہ مباحثہ کے لئے کوئی سامنے نہ آیا اور اللہ تعالیٰ نےمحض اپنے فضل سے وہ مباحثہ ٹال دیا ‘‘( صفحہ۱۸۰-۱۸۱)
اس واقعہ سے جہاں ایک طرف ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس پیار کا پتہ چلتا ہے جوا سے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکت سے تھا کہ کس طرح مولیٰ کریم نے محض اپنے فضل سےاور اپنے تصرّف خاص سے ایک نہایت پیچیدہ صورت حال کے در پیش ہونے سے بھی کئی روز پہلے آپ کے دل میں ایک کتاب کے مطالعہ کی خواہش پیدا کی اور پھر وہ کتاب مہیا بھی فرمادی و ہاں آپ کی مطالعہ کی رفتار بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ سارے دن کی تھکا وٹ کے باوجود رات کو سونے کی بجائے چند گھنٹوں کے اندر اس سات سو صفحات کی کتاب کا حضور نے نہ صرف مطالعہ کر لیا بلکہ اس کے نوٹس اور خلاصہ بھی تیار کر لیا اور کتاب میں اٹھائی گئی بحث کا جواب بھی تیار کر لیا۔ اس واقعہ کی روشنی میں جب ہم سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مطالعہ کی کیفیت ملاحظہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں اس سے بھی زیادہ محیر العقول داستانیں نظر آتی ہیں وَذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔
سب سے پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم کے مطالعہ میں آپ کا شغف کیسا تھا۔ آپ نے ایک مرتبہ طلبہ سے خطاب کے دوران فرمایا : ’’میری آواز بچپن میں بہت اچھی ہوتی تھی اور میں بہت شعر پڑھا کرتا تھا۔ مگر اب میری آواز خراب ہوگئی ہے اس لئے میں شعر نہیں پڑھتا…میں پہلے تہجد کے وقت جب تلاوت کیا کرتا تھا تو چونکہ آواز اچھی تھی اس لئے مجھے اتنالطف آتا کہ میں بعض دفعہ تین تین گھنٹے تلاوت کئے جاتا تھا ‘‘۔ (زریں ہدایات برائے طلباء جلد۳صفحہ۳۱۹)
ہم اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر رات کے وقت آپ کی تلاوت قرآن کا یہ عالم تھا تو دن کے وقت آپ کتنا وقت صرف کرتے ہو ں گے۔ آپ طلبہ میں بھی عشق قرآن کی رمق پیدا کرنے کی کوشش فرماتے۔ ایک موقع پر آپ نے طلبہ کو تلقین فرمائی کہ’’اگر تم سچے دل سے اور اپنی پوری کوشش اور جدوجہد سے ایک مہینہ بھی قرآن کریم کو غور سے پڑھو اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو تو وہ خود بخود تمہاری راہنمائی کرنے لگ جائے گا اور تمہیں آپ ہی آپ نئے سے نئے رستے نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔‘‘ (زریں ہدایات برائے طلباء جلد ۴ صفحہ ۲۶۱)
۱۹۵۸ء کی شوریٰ کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب کے دوران اپنی علالت کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے آپؓ نے فرمایا کہ ’’اس کے بعد رمضان آیا تو میں اس میں بارہ بارہ تیرہ تیرہ بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ پاروں کی تلاوت کرتا رہا ممکن ہے اس سے کوفت ہو گئی ہو۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ آپ زیادہ پاروں کی تلاوت نہ کیا کریں۔ لیکن میں نے اندازہ لگایا کہ قریباً تیرہ پارہ روزانہ اوسط تھی۔ ویسے میں نے بعض دنوں میں اس سے بھی زیادہ تلاوت کی ہے۔ اس کے علاوہ اور کام بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً نماز پڑھنا، کھانا، پیشاب اورپاخانہ میں بھی کچھ وقت لگتا تھا۔ اس کو نکال لیں تو باقی وقت میں نے کئی روز تک(یعنی روزانہ – ناقل) ۱۸، ۱۸ پارہ کی تلاوت کی۔ پھر دوسر ے جماعتی کام بھی کرنے پڑتے تھے۔ تندرستی میں میں بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ پڑھ لیتا تھا بعض دفعہ میں ایک دن میں قرآن کریم ختم کر لیتا تھا۔ مجھےیاد ہےایک دفعہ ہم راجپورہ شکار کو گئے۔ میرے پندرہ پارے رہ گئے تھے، میں نے ظہر کے بعد بیٹھ کر شام تک پندرہ پاروں کی تلاوت کرلی۔ نماز تراویح میں حافظ ایک پارہ روزختم کرتے ہیں۔ لیکن میں بعض دفعہ ایک دن میں قرآن کریم ختم کر لیتا تھا۔ حافظ لوگ ایک پارہ روزانہ نماز تراویح میں پڑھتے ہیں اور وہ بھی اس طرح پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہے یا کچھ اور ہو رہا ہے۔ لیکن ہم تو بڑے آرام سے پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کے معارف پر غور بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس دفعہ جہاں میں نے بارہ بارہ تیرہ تیرہ پاروں کی تلاوت کی وہاں میں نےتفسیر صغیر میں کئی نوٹ بھی لکھوائے جہاں کوئی ایسی آیت آتی جو اہم ہوتی تو میں اس پر نوٹ لکھوا دیتا ‘‘۔ ( خطابات شوریٰ جلد سوم صفحہ ۷۲۹)
پس یہ تو تھی آپ کی قرآن کریم کے مطالعہ اور تلاوت کی کیفیت جو خاکسار نےآپ ہی کے الفاظ میں پیش کر دی ہے۔ اور اب ہم آپ کے دیگر کتب کے مطالعہ کی کیفیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک ہلکا سا اشارہ خاکسار گذشتہ سطور میں اس کی طرف کر آیا ہے جہاں حضورؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے مطالعہ کی رفتار کا ذکر فرمایا تھا۔۱۹۶۶ء میں خلافت لائبریری ربوہ کے انچارج مولانا محمد صدیق صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مطالعہ کے بارےمیں ایک تحقیقی نوٹ الفضل ۱۹؍مارچ ۱۹۶۶ میں سپرد قلم فرمایا۔آپ ایک لمبا عرصہ خلافت لائبریری کے نگران رہے آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مطالعہ شدہ کتب تک براہ راست رسائی حاصل تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نےحضور کی صرف ان کتب کا جائزہ لیا جن پر حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک سے لکھے ہوئے نوٹس مرتسم تھے آپ نے لکھا کہ ’’ذیل میں صرف ان کتب کی تعداد کا ذکر کیا جاتا ہے جن پر حضور نے اپنے ہاتھ سے نوٹ تحریر فرمائے اور جو لائبریری میں موجود ہیں:
یہ آٹھ ہزار کتب مولانا محمد صدیق صاحب کی تحقیق کے مطابق وہ ہیں جن پرحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس موجود ہیں۔ لیکن ضروری تو نہیں کہ حضور ہر کتاب پر ہی نوٹس لکھتے ہوں اکثریت تو ایسی کتب کی ہوتی ہے جن میں سے جلدی گزر جانا ہوتا ہے اور ان پر کسی نوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو حضورؓ کے مطالعہ کی وسعت کا احاطہ قطعاً ممکن نہیں تاہم حضور نے ایک دو جگہ اپنے مطالعہ کا کسی حد تک نقشہ کھینچا ہے جس کو خاکسار حضور ؓ کے الفاظ میں ہی آپ کے سامنے بیان کرتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’میں مطالعہ کا بہت شوق رکھنے والا ہوں۔اور میں نے تمام ممالک کی کتابیں کئی اصل زبان میں اور کئی ترجموں کے ذریعہ پڑھی ہیں۔ میں نے روسیوں، فرانسیسیوں، جرمنوں، انگریزوں، چینیوں، جاپانیوں، امریکنوں کی کتابیں پڑھی ہیں۔اور باوجود اس کے کہ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں نے بڑی بڑی علمی تحقیقاتیں کی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک سادہ فقرہ جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی محبت سے ایسا بھرا ہوا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے سب فلسفے اور سب تحقیقاتیں ہیچ نظر آتی ہیں۔ اگر آپ لوگ تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے علم کی ضرورت ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں مل سکتا ہے… میں نے دیکھا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کی چند سطریں پڑھتا ہوں تو حقائق و معارف کے دریا بہنے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت میں حیران ہو جاتا ہوں کہ ان معارف کو قلمبند کروں یا کتاب پڑھوں… دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں قرآن کریم کی طرح غیر محدود حقائق اور معارف رکھتی ہیں۔ ( زریں ہدایات برائے مبلغین جلد اول صفحہ ۳۸۱-۳۸۲)
اور اب آخرمیں ایک اور اقتباس حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک خطاب میں سے منتخب کرکےآپ سب کے سامنے پیش کرتا ہوں جو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۹۵۰ء میں غیرممالک سے آنے والے اوربیرون ملک جانےوالے مبلغین کے اعزاز میں دی جانے والی دعوت کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’ میں طالب علموں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں درسی کتب کے علاوہ مختلف علمی کتابوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے…میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کےتمام علوم کی کتابیں پڑھتا رہتا ہوں۔ اسی طرح اگر تم بھی ان کتب کا مطالعہ کرو اور اپنے اساتذہ سے سوالات دریافت کرتے رہو تو تمہارے استادوں کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ دنیا کیا کہتی ہے۔ اور اس طرح تم اپنے استادوں کے بھی استاد بن جاؤ گے۔ میرے پاس کمیونزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں، سوشلزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں احمدیت کے مخالفین کا بھی لٹریچر موجود ہے اور میں نے یہ تمام کتابیں پڑھی ہوئی ہیں۔ میں نے بعض دفعہ ایک ایک رات میں چار چار سو صفحہ کی کتاب ختم کی ہے اور اب تک بیس ہزار کے قریب کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ دس ہزار کتاب تو قادیان میں ہی میری اپنی لائبریری میں تھی…بہر حال کتب کا مطالعہ تم اتنا وسیع کرو کر ہر طالبعلم دو سال کے بعد جب یہاں سے نکلے تو وہ دو دو، تین تین سو کتاب پڑھ چکا ہو اور اس کے دماغ میں اتنا تنوع ہو کہ جب وہ کسی مجلس میں بیٹھے اور کسی مسئلہ پر گفتگو شروع ہو تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کے سامنے کوئی نئی چیز پیش کی جارہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ تو وہی چیز ہے جو میں پڑھ چکا ہوں ‘‘۔ ( زریں ہدایات برائے مبلغین جلد دوم صفحہ ۳۱۲-۳۱۳)
آخر میں جہاں ایک طرف ہماری یہ دعا ہے کہ ع
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
وہاں ہماری اتنی سی یہ دعا بھی ہے کہ جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے بھی تو قعات رکھی ہیں اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمیں بھی ایسا ہی مطالعہ نصیب ہو اور ہم بھی اسلام احمدیت کی کما حقہ اور مقبول خدمت کی توفیق پانے والے ہوں۔ آمین یا ارحم الرّاحمین۔