اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جنوری۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
برکینا فاسو میں احمدیوں کا قتل عام۔ پاکستان میں بھی اس کے مشابہ ہے
۱۱؍جنوری ۲۰۲۳ء:دہشت گردوں نے برکینا فاسو میں ڈوری ٹاؤن کے قریب ایک گاؤں مہدی آباد میں احمدیہ مسجد کے اندر ۹؍ نمازیوں کو انتہائی سفاکانہ طریق پر شہید کر دیا۔
ابتدائی رپورٹ سے پتا چلتا ہےکہ دہشت گرد احمدیہ مسجد میں ہونے والی نمازِ عشاء کے موقع پر حملہ کرنے سے پہلے ایک قریبی وہابی مسجد میں رکے۔احمدیہ مسجد میںنمازیوں کو زبردستی روکنے کے بعد وہ احمدی امام اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ مذہبی گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ان کا مقصد صرف ان (احمدیوں) کو کافر اور واجب القتل قرار دینا تھا۔ انہوں نےاحمدیوں سے اپنا مذہب ترک کرنے کو کہا۔لیکن انہوں نے احمدیت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔اس پر اس دہشت گرد گروہ نے نماز پر آئے لوگوں میں سے بڑی عمر کے لوگوں کو الگ کیا اور ان کو ایک ایک کر کے شہید کر دیا۔
احمدیہ جماعت کے ترجمان نے کہاکہ’’دنیا بھر میں ہماری جماعت ایک خاندان کی طرح ہےاور اپنے بھائیوں کے اس بہیمانہ قتل پر ہم دل شکستہ ہیں اور مقامی احمدیوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ ان شہیدوں کو اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹے‘‘
’’ہم برکینا فاسو کی سالمیت کے لیے بھی دعا کرتے ہیں اور یہ کہ گورنمنٹ بھی احمدیوں سمیت برکینا فاسو کے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرے اور یہ کہ اس برے اور قابل نفرین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کےکٹہرے میں لایا جائے‘‘۔
ڈیفنس پوسٹ ڈاٹ کام کی پریس رپورٹ کے مطابق ’’۲۰۱۵ءمیں جب سے ہمسایہ ملک مالی سے برکینافاسو میں یہ جہادی(دہشت گرد)حملے شروع ہوئے ہیں تب سے ہزاروں لوگ جاںبحق ہو چکے ہیں اور لاکھوں لو گ نقل مکانی کر چکے ہیں ایک تہائی سے بھی زیادہ رقبہ گورنمنٹ کےدائرہ اختیار سے باہر ہو چکا ہے‘‘
ایک مقامی متوازی پاکستانی پریس نے اس خبر کو معمولی سی اہمیت دی۔زیادہ تر مقامی افراد جن کو یہ خبر پہنچی بھی تو انہوں نے یہ تخمینہ لگایا کہ یہ واقعہ دنیا کی پائیں گاہ میں دور دراز غیر مہذب افریقہ میں ہو رہا ہے۔ لیکن وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اسی طرح کے ایک حملے میں سفاک دہشت گردوں نے ۲۰۱۰ءمیں ۸۶؍ احمدی نمازیوں کو شہید کر دیا تھا۔
اس سے قبل ۲۰۰۵ء میں مونگ،ضلع منڈ ی بہاؤالدین میں دو دہشت گرد حملوں میں نمازیوں کی قطاروں پر پیچھے سے حملہ کر کے آٹھ نمازیوں کو شہید اور بیس کو زخمی کر دیا گیا تھا۔مؤخر الذکر حملہ برکینا فاسو میں ہوئے حملے سے زیادہ قابل موازنہ ہے، چنانچہ ہم اس سے متعلقہ کچھ حقائق کو نیچے بیان کرتے ہیں۔
٭…دونوں واقعات میں محرک واضح طور پر مذہب تھا۔ ابتدائی رپورٹ سے واضح ہوتا ہےکہ دہشت گرد اسلامی،جہادی اور وہابی مکتبہ فکر کے تھے۔
٭…برکینا فاسو کا دہشت گرد گروہ اپنے شکار(شہداء) کے متعلق انتخاب کے معاملے میں ایک معیار کو ذہن میں رکھے ہوئے تھا( یعنی صرف بڑی عمر کے لوگوں کو چنا)۔ لیکن پاکستان میں اندھا دھن گولیاں برسا دی گئیں۔
٭…برکینا فاسو میں دہشت گردوں نے بڑے اطمینان سے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ جبکہ پاکستان میں گولیاں برسا کر دہشت گرد فرار ہو گئے۔انہوں نے نمازیوں سے یہ نہیں کہا کہ دوبارہ مسجد میں نماز کے لیے نہ آنا۔ لیکن یہ سترہ سال پہلے کی بات ہے۔
٭…مونگ کے حملے میں ملوث ایک دہشت گرد کچھ ماہ بعد پکڑا گیا تھا۔اس نے اور بھی بہت سی قتل کی وارداتیں ڈالی تھیں۔پولیس کو اس بات کا یقین تھا کہ مونگ حملے کا سرغنہ یہی شخص ہے۔بعد ازاں مقدمے کی سماعت کے دوران جج نے اس شخص کو بری کر دیا۔
٭…کوئی تعجب کی بات نہیں کہ لاہور میں پانچ سال بعد قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کا ایک محرک یہ واقعہ بھی ہو۔
٭…ڈیفنس پوسٹ ڈاٹ کام پر بیان کی گئی پریس رپورٹ پاکستان کی آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہونی چاہیے کہ برکینا فاسو کا ایک تہائی سے بھی زیادہ رقبہ گورنمنٹ کےدائرہ اختیار سے باہر ہو چکا ہے۔
٭…اکیسویں صدی میں برکینا فاسو پاکستان سے دوراور الگ نہیں ہے۔ پاکستانی ریاست کے لیے بھی برکینا جیسے گڑھے میں گرنے میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے۔ دہشت گرد دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔
پی ایس نیوز کے مطابق دہشت گردوں نے برکینا سے پچاس کے قریب عورتوں کو اغوا کر لیا ہے۔
The Daily Dunya, Faisalabad, January
۱۵؍جنوری ۲۰۲۳ء
بعض جگہوں پر قبروں کی بے حرمتی ایک مختصر موازنہ
بی بی سی،جنوری ۲۰۲۳ء کا پہلا ہفتہ۔ بی بی سی نے مندرجہ ذیل خبرbbc.com/news/worldmiddle-east-64163185پر نشر کی۔
انگلیکنکلیساء اور برطانیہ یروشلم میں قبروں کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہیں۔
انگلیکن کلیساء اور برطانیہ نے یروشلم کے پرانے فصیل بند شہر کے ساتھ ملحقہ تاریخی قبرستان پہ حملے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اتوار کے روز زیین گھاٹی پر پروٹسٹنٹ قبرستان میں ۳۰ قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔صلیبیں توڑ دی گئیں اور کتبوں کو گرا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔آرچ بشپ نوا کریم نے کہا کہ ہم زیادہ سے زیادہ انفصال اور افتراق دیکھ رہے ہیں اور یہی بات ہمیں رنجیدہ کر رہی ہے۔اسرائیل کی وزارت امورخارجہ نے بھی اس غارت گری کی مذمت کی ہے۔یہ غیراخلاقی کام مذہب کی توہین ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہی
ے۔انہوں نے ٹوئٹ کیا۔
سیکیورٹی کیمرہ کی تصاویر میں دو حملہ آوروں کو خاص ٹوپیاں پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
انگلیکنکلیساء نے کہا ہے کہ ان کو اسرائیلی صدر، کامن ویلتھ کے چیف ربی،سر افرائیم مرفس،اور دوسرے سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کی جانب سےہمت بندھانے والے الفاظ موصول ہوئے۔
پاکستان میں بھی احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی ہوئی ہے
پاکستان میں احمدیہ قبروں کی بے حرمتی کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مثال کے طو ر پر سال ۲۰۲۲,۲۰۲۱,۲۰۲۰ میں بالترتیب ۱۴۴,۱۲۸,۶۷ قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔
٭…ان افسوسناک واقعات میں قبروں کے کتبے منہدم کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ اس جرم کے بڑے حصے کے مرتکب پولیس اور انتظامیہ تھے۔ بعض اوقات انہوں نے مولویوں کو بھی شریک جرم کیا۔غالباً ہر بار انہوں نے یہ توہین مذہبی شدت پسندوں کے کہنے پر کی۔ گو کہ یہ کام ضلعی انتظامیہ کے اشاروں پر کیا جاتا ہے لیکن کارگزاری کا حکم یقیناً دارالحکومت میں بیٹھے سیاسی قائدین کی جانب سے دیا گیا ہے۔
٭…اسرائیلی صدر اور وزارت امور خارجہ کی طرف سے قبرستان میں غارت گری کی مذمت بہت اچھا اقدام ہے۔ جبکہ پاکستان میں کسی بھی صاحب اختیار کے منہ سے علانیہ طور پر ایسے الفاظ نہیں نکلے۔
٭…جہاں انگلیکن کلیساء کو سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کی جانب سے ہمت بندھانے والے الفاظ موصول ہوئے۔ وہاں پاکستان میں کسی بھی راہنما میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ایسی غیر اخلاقی حرکتوں پر احمدیوں کی علانیہ طور پر حمایت کرے جو کسی بھی مذہب یا معاشرے کے متعلق توہین آمیز ہیں۔
٭…تاہم افق پر امید کی ایک کرن ہے۔یہ بات غیرمعمولی نہیں ہے کہ پولیس یہ شرمناک کام رات کے اندھیرے میں ہی کرتی ہے۔ اور یہ ارزاں سرکاری کارندے ملبے کے ڈھیر کو اکٹھا کر کے ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ واضح طور پر یہ اپنے ان طاقتور آقاؤں کی نسبت زیادہ حساس اور شستہ ہیں جو اپنے ذاتی فائدے کے لیےایسی کارروائیوں کی تعمیل کا حکم دیتے ہیں۔
ماہ جنوری کے واقعات کا خلاصہ
۲۰۲۳ء کا سال شروع ہوئے ابھی صرف اکتیس دن ہی ہوئے کہ کراچی اور وزیر آباد میں دو احمدی مساجد اور ا یک احمدیہ قبرستان پر حملہ ہو چکا ہے۔ ایک ویڈیو جس میں احمدیوں پر تشدد پر اکسایا جارہا ہے وسیع پیمانے پرپھیل چکی ہے،انتظامیہ نے ایک احمدی کی اس کے گاؤں میں تدفین کی ممانعت کر دی ہے،ایک احمدی کو توہین کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا ہے۔ اور اس سال کے ختم ہونے میں گیارہ ماہ باقی ہیں۔
احمدیوں کو پشاور میں پولیس کی مسجد میںہونے والی قتل و غارت کا گہرا دکھ ہے اور وہ شہداء کے متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔تاہم یہ واقعہ ان احمدیوں کو ایک اور دکھ بھرے واقعے کی یاد دلاتا ہے۔ جس میں دہشت گردی، پولیس اور پشاور کا ذکر ہے۔
احمدی پابند سلاسل
٭…روحان احمد، ملک عثمان احمد اور حافظ طارق احمد سمیت کچھ افراد پر ۲۶؍ مئی ۲۰۲۰ء کوایف آئی آر نمبر۲۹\۲۰۲۰ کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے تھانہ لاہورمیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ295-B,298-C,120-B,109,34R/W, 2016 اور PECA 11 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پاکستان کے سائبر کرائم کے محکمہ نے روحان احمد کو گرفتار کیا جو کہ وفاقی تفتیشی ادارے کے تحت کام کرتا ہے۔
ملک عثمان احمد اور حافظ طارق احمد کو ۳۰؍ستمبر ۲۰۲۰ءکو ایف آئی اے کے دفتر میں حاضری کے موقع پر گرفتار کیا گیا۔ یہ احباب کیمپ جیل لاہور میں ہیں۔
سید عباس علی ایڈیشنل سیشن جج لاہور نے۲۹؍جون ۲۰۲۱ء کی فرد جرم میں توہین رسالت کی دفعہ 295-C بھی شامل کر دی۔اس طرح اب وہ سزائے موت کا سامنا کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ان کی بعد از گرفتاری درخواست ضمانت مسترد کر دی۔
٭…عبدالمجید ولد عبدالوحید جن کی عمر۲۰سال ہے اورشاہین مسلم ٹاؤن،تاج چوک، پھانڈو روڈ، پشاور کے رہائشی ہیں۔ ان پر ایک کم عمر لڑکے نے توہین کا الزام لگایا۔پولیس نے مولویوں کے دباؤ میں آکر ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ295-C کےتحت۱۰؍ستمبر۲۰۲۰ء کو زیرFRIنمبر۶۴۸؍تھانہ پھانڈو پشاور میں ایک جھوٹامقدمہ درج کر دیا جس کی سزا سزائے موت ہے۔ انہیں۱۳؍ستمبر۲۰۲۰ء کو گرفتار گیا تھا۔ایڈیشنل سیشن جج نے ان کو توہین کے الزام سے بری کر دیا لیکن مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے جرم میں پانچ سال کی قید سنا دی۔
٭…٭…٭