جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں
ایسا ہی مالی عبادت جس قدر انسان اپنی کوشش سے کر سکتا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ اپنے اموال مرغوبہ میں سے کچھ خدا کے لئے دیوے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اِسی سورت میں فرمایا ہے: وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ(البقرۃ:۴) اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے: لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ(اٰل عمران:۹۳) لیکن ظاہر ہے کہ اگر مالی عبادت میں انسان صرف اسی قدر بجا لاوے کہ اپنے اموال محبوبہ مرغوبہ میں سے کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیوے تو یہ کچھ کمال نہیں ہے۔کمال تو یہ ہے کہ ماسویٰ سے بکلّی دست بردار ہو جائے اور جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا کا ہو جائے۔ یہاں تک کہ جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہو۔(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۴۰،۱۳۹)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نثار
اِسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب
اُسے دے چکے مال و جان بار بار
ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار
لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے
وہی پاک جاتے ہیں اِس خاک سے
(نشانِ آسمانی،روحانی خزائن جلد۴صفحہ ۴۳۴۔۴۳۵)