خوف کے بعد امن کا قیام
موجودہ دَور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب رسولﷺ کے وعدوں کے مطابق قائم ہونے والی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے مبارک دور میں بھی خوف کے بعد امن کے قیام کے بے شمار نظارے ہمیں نظر آتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اب تک کے پانچوں خلفائے عظام کے ادوار پر ایک اجمالی نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت روز روشن کی طرح نظر آتی ہے کہ ہر دورخلافت میں تمکنت دین متین کا زبردست سامان ہوا۔
خلافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت سے ہوا جبکہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ نبی کی وفات کے بعد شروع ہوتی ہے اورجب تک اللہ تعالیٰ چاہے اُس کی برکات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے نعمت خلافت کے قیام اور اُس کے ذریعہ دین حق کی تمکنت اور استحکام کے بعد یہ وعدہ فرمایا ہے کہوَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النّور:۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ مومنوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے ہر خوف کو امن سے بدل دے گا۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے بعد قائم ہونے والی خلافت کے ذریعہ بھی یہ وعدۂ خدا وندی بڑی شان سے پورا ہوا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آغاز میں اسلام کو جن خطرناک فتنوں اور اندرونی وبیرونی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا،اللہ تعالیٰ نے خلافت کی برکت سے ایک ایک کرکے ان تمام فتنوں اور سازشوں کا قلع قمع فرمادیا۔اور جماعت مومنین پر مسلط کیے جانے والے خوف کے حالات کو امن میں بدل کر اُن کے دلوں میں سکینت اُتاردی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک
یہاں عظمت و شوکت خلافت کو چار چاند لگانے والا وہ واقعہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے جب اپنی آخری علالت کے دوران حضور نبی مکرم،سیّد ولدآدم،حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو یہ خبر ملی کہ شام کا بدبخت اورناعاقبت اندیش بادشاہ اپنی طاقت کے نشے میں سرشار، مست ہاتھی کی طرح مدینہ پر لشکر کشی کرنے اور مسلمانوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کے لیے فوجی تیاریاں کررہا ہے تو اس خبر کی اطلاع پر آنحضرتﷺنے حضرت اسامہ بن زیدؓکی سپہ سالاری میںایک اسلامی فوج تیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔ابھی یہ لشکر تیاری کے مراحل طے کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب رسولﷺکی روح پرفتوح اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگئی۔نبی کریمﷺ کی وفات جماعت مومنین کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی،صحابہ غم کے مارے نڈھال تھے۔ان کی روحیں گھائل اور جگر چھلنی تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ قبائل عرب تک حضورﷺ کی وفات کی خبر پہنچی تو اُن میں سے کئی نومسلم قبائل جن کو ہنوز حلاوتِ ایمانی پوری طرح نصیب نہ ہوئی تھی اور جن کی تربیت میں ابھی بہت کمی تھی اُن میں سے بعض ارتداد کی راہ اختیار کرنے لگے۔ دشمنانِ اسلام پہلے ہی اسلام کے نوخیز پودے کو جڑوں سے اکھاڑنے کے دَرپے تھے اُنہوںنے بھی اس موقع کو غنیمت جانا،وہ بھی بڑے زور و شور کے ساتھ اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ایسے حالات میں گویا عناد، ارتداد اور مخالفت کا ایک طوفان بدتمیزی ہر طرف موجزن تھا جو اسلام کی ہچکولے کھاتی ناؤ کو اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا تھا۔علّامہ ابن خلدونؒ ان حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں :اَلۡمُسۡلِمُوۡنَ کَالۡغَنَمِ فِی اللَّیۡلَہِ المُمۡطِرَۃِ لِقِلَّتِھِمۡ وَکَثۡرَۃِ عُدُوِّھِمۡ وَاِظۡلَامِ الۡجَوِّ بِفَقۡدِ نَبِیِّھِمۡ (تاریخ ابن الخلدون جلد ۲صفحہ ۵۶باب خبرالسقیفہ وابن اثیر ذکر انفاذ جیش اسامۃ بن زیدؓ)یعنی اپنی قلّتِ تعداد اور کثرت دشمن کی وجہ سے اپنے نبیؐ کی وفات کے باعث مسلمانوں کی حالت ایسی تھی جیسے طوفانِ بادو باراں والی شبِ تیرہ وتار میں بکریوں کا ریوڑ ہو۔
ان پُر آشوب حالات میں جبکہ مسلمانوں پر خوف کا عالم طاری تھا خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النور:۵۶) بڑی شان کے ساتھ پورا کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسول اور امیرالمومنین کی خلعت عطا فرماکر اس بظاہرہچکولے کھاتی اور ڈوبتی ہوئی نائوکو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفرو ارتداد کے اس طوفان اور شام کے اُس غرور کے پتلے حکمران کے سامنے عزم و استقلال کی ایسی پرعزم چٹان بن گئے کہ جو بھی طوفان بدتمیزی آپ کے سامنے آیا وہ جھاگ کی مانند آپ ہی آپ بیٹھ گیا۔آپؓ کے عزم صمیم اور کمال دور اندیشی کے سبب دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام ونامراد اور خائب و خاسر ہوکر رہ گیااور اسلام کا یہ قافلہ بڑی قوت اور شان کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا۔
دوسری طرف بڑے بڑے جلیل القدرصحابہ،وہ عظیم المرتبت جری صحابہ،جن میں عظیم الشان سپہ سالار بھی شامل تھے کہ جن کی ہیبت سے ایک زمانہ کانپتا تھا۔جن کےمصمّم ارادوں کے آگے چٹانیں بھی موم ہوجایا کرتی تھیں۔ان نازک حالات سے خوفزدہ تھے۔ ان کی طاقتوں کو اُن کے آقا ومطاعﷺ کی جدائی کے صدمہ نے مضمحل کردیاتھا۔وہ بدلتے ہوئے حالات کو دنیا کی نظر سے دیکھ رہے تھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ،خلیفۃ الرسول کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ جنگی مہارت رکھنے والے تمام افراد اگر شام کی طرف چلے گئے،تو دشمن حالات کا فائدہ اٹھا کر مدینہ پر حملہ کرسکتا ہے اوراسلام کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔مگر خلعت خلافت کے امین،خدا سے تائید یافتہ خلیفۃالرسول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خدا داد بصیرت اور تائید خدا وندی پر کامل توکل کرتے ہوئے فرمایا:لَوۡ خَطَفَتۡنِیۡ الۡکِلَابُ وَالذِّئَابُ لَأَنۡفَذۡتُہُ کَمَا أَمَرَبِہِ رَسُوۡلُ اللّٰہِﷺ وَلَا أَرُدُّ قَضَاءً قَضٰی بِہِ رَسُوۡلُ اللّٰہِﷺ ، وَلَوۡلَمۡ یَبۡقَ فِی الۡقُرٰی غَیۡرِیۡ لَأَنۡفَذۡتُہُ۔(تاریخ ابن الاثیر، أنفاذ جیش اسامۃ بن زیدصفحہ۲۸۰،ناشر بیت ا لافکار الدّولیۃ الریاض السعودیۃ )اگر کتے اور بھیڑیئے مجھے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو رسول اللہﷺ کے فیصلہ کے مطابق ضرور بھجواکر رہوں گا اور میں رسول اللہﷺ کے جاری کردہ فیصلہ کو نافذ کرکے رہوں گا۔ اگرچہ بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے تو بھی میں اس فیصلہ کو نافذ کروں گا۔
ایک اَور روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا :وَالَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ لَوۡ جَرَّتِ الۡکِلَابُ بِاَرۡجُلِ اَزۡوَاجِ النَّبِی عَلَیۡہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامِ مَا رددت جَیۡشًا وجھہ رَسُولُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامِ، وَلَا حَلَلۡتُ لِوَاءً عَقَّدَہُ (تاریخ الخلفاء صفحہ۶۱،دار ابن حزم للطباعۃ النشر وَالتَوزیع، بیروت لبنان،الطّبعۃ الأولی ۱۴۲۴ھ،۲۰۰۳ء)اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اگر کتے ازواج نبیﷺ کے پائوں تک آجائیں تو میں اس لشکر کو واپس نہیں بلا سکتا جسے رسول اللہﷺ نے خود روانہ کیا ہے اور نہ میں اس جھنڈے کی گرہ کھول سکتا ہوں۔
ان حالات میں ایک طرف نور بصیرت رکھنے والے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرامؓ ہیں،جن کے سینے علمِ قرآن سے منور اور حُبِّ رسول کی دولت سے مالامال ہیں۔ جن میں سے ہر ایک مینارۂ نور اور آسمانِ ہدایت کا روشن ستارہ ہے۔جن کی صحبت میں خدا یاد آتا ہے اورانسان کے روحانی مدارج میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مرتبہ اور شان کے حامل صحابہؓ دربار خلافت میں !!جی ہاں !دربارِ ابو بکرؓ میںسر جھکائے کھڑے ہیں۔ آج دربارِ خلافت میں اُن سب کے ارادے، اُن سب کی سوچیں،اُن سب کی تجویزیں اورآرا،اُن سب کی فہم وفراست اور اُن کا رعب و دبدبہ، خلیفہ وقت کے فیصلے اور عزم کے سامنے کچھ حیثیت نہ رکھتا تھا۔خلافتِ حقہ کے سامنے وہ سب عجزو انکسار کا پیکر بن گئے۔وہ جو دوسروں کے لیے ہدایت کا سامان کرنے والے تھے اب خلیفۂ وقت کے سامنے علم وہدایت کے لیے شاگردانِ رشید بن گئے۔ یہ ہے نظامِ خلافت، یہ ہے شانِ خلافت اوریہ ہے مقامِ خلافت!!!
پس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خلیفۂ وقت کی کامل اطاعت ا ورفرمانبرداری کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیاجو رہتی دنیا تک تمام امت کے لیے اپنی مثال آپ بن گیا۔چنانچہ آئندہ پیش آنے والے حالات و واقعات نے ثابت کردیا کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے کیا گیا فیصلہ ہی صحیح فیصلہ تھا اور خدا تعالیٰ کی تائید اُس کے ساتھ تھی۔ اس واقعہ نے امت مسلمہ پر خلیفۂ راشد کی عظمت وشان عیاں کردی۔کیونکہ اگر حضرت اسامہؓ کا لشکر روک لیاجاتا توخدا نخواستہ احکام رسولؐ کو ٹالنے کی ایک راہ نکل سکتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی نامساعد حالات میں یہ فیصلہ کیا اور پھر خداتعالیٰ کی تائید نے جس طرح فعلی طورپر اسے درست فیصلہ ثابت کردیااُس سے صحابہ ؓکاہی نہیں آج تک اُمت کے ہر فرد کا خلافت پر ایمان و یقین مضبوط ہوگیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس مدبرانہ فیصلے کی وجہ سے اوربہت سارے فوائدکے ساتھ ساتھ سب سے بڑ ا فائدہ اسلامی لشکر کو روانہ کرنے کے بعد یہ ہوا کہ دشمنوں نے جب یہ دیکھا کہ ایسے خطرنا ک حالات میں ایک لشکر روانہ کیا گیا ہے تو ضرور مسلمانوں کے پاس ایک بہت بڑی فوج مدینہ میں بھی موجو دہے۔ خلافت کی برکت سے دشمن مرعوب ہوگیا۔اُس کے حوصلے پست ہوگئے اور اُسے مدینہ پر حملہ کرنے کا منحوس فیصلہ تبدیل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔اس طرح اُس کے تمام بدعزائم خاک میں مل گئے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد صحابہؓ سے خطاب کرتے ہوئے مقام خلافت کی عظمت و اہمیت کو ان الفاظ میں اجاگر فرمایا :اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ کے ذریعہ تمہیں ضلالت اور تفرقہ سے نکالا اور تمہارے دلوں میں الفت قائم کی۔ پھر اللہ نے تم پر ایک خلیفہ مقرر کیا تاکہ تمہارے دلوں میں الفت ومحبت قائم رکھے اور تمہارے مقصود کو غلبہ عطا کرے۔(دائرہ المعارف القرآن الرابع عشر محمد فرید وجدی جلد ۳صفحہ ۷۵۸زیر لفظ خلف)
پس یہ خدا تعالیٰ کی اعجازی طاقت ہی تھی جس نے خوف اور فتنہ کے اس عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منصب خلافت پر فائز کرکے اپنی مدد اور نصرت کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھایا اور آپ کو وہ ہمت اور استقلال بخشا کہ آپ کے عزم صمیم کے سامنے پہاڑوں جیسے خطرات، سمندر کی جھاگ ثابت ہوئے اور اسلام کا قافلہ مزید سرعت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رَواں دَواں ہوگیا۔ اس ضمن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول کس قدر برحق ہے۔ فرماتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نفاق نے سر اُٹھایا، عرب مرتد ہوگئے اور انصار نے بھی علیحدگی اختیار کرلی، اتنی مشکلیں جمع ہوگئیں کہ اگر اتنی مشکلات پہاڑپر پڑتیں تو وہ بھی اس بار کو نہ اُٹھا سکتا لیکن میرے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زبردست استقلال سے ہر ایک مشکل کا مقابلہ کیا اور ہر ایک کا حل نکالا۔ (تاریخ الخلفاء (مترجم)صفحہ ۲۰۶۔شائع کردہ پروگریسو بکس اُردو بازار لاہور۔سن اشاعت اکتوبر ۱۹۹۷ء)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت اوراپنے تائید یافتہ خلیفہ کے ذریعہ ہر قسم کے خوف کو دور کرکے جماعت مومنین کو امن کے حصار میں لے لیتا ہے اور اُن کا قافلہ اپنے قافلہ سالار خلیفہ کی قیادت میں شاہراہ ترقی پر تیز قدموں کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہوجاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑجاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں۔ تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرتﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایااور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے۔ ‘‘ (الوصیت،روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴-۳۰۵)
موجودہ دَور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب رسولﷺ کے وعدوں کے مطابق قائم ہونے والی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے مبارک دور میں بھی خوف کے بعد امن کے قیام کے بے شمار نظارے ہمیں نظر آتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اب تک کے پانچوں خلفائے عظام کے ادوار پر ایک اجمالی نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت روز روشن کی طرح نظر آتی ہے کہ ہر دورخلافت میں تمکنت دین متین کا زبردست سامان ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا حافظ نورالدین رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے دوران اندرونی فتنوں میں شدت پیدا ہوگئی۔اکابرین جماعت میں سے بعض نے اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کردیں اور نظام خلافت کو کمزور کرنے اور جماعت کی بنیادوں کو ہلا دینے والی سازشیں شروع کردیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے غیر معمولی عزم وحوصلہ اور توکل علی اللہ کی بدولت ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان لوگوں کی کوئی پیش نہ جانے دی۔ آپ کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ آپ نے خلافت کی عظمت اور تمکنت کو قائم فرمایا اور خلافت احمدیہ کو استحکام بخشا۔خوف کے بادل چھٹ گئے اور جماعت ایک نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ اسلام کی سربلندی اور اشاعت میں مصروف عمل ہوگئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدرضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز ہی میں خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے براہ راست منصب خلافت پر حملہ کردیا اور علی الاعلان اس بات کا اظہار کیا کہ مسیح موعود کی خلافت نہیں بلکہ انجمن جانشین ہے۔ حالانکہ چھ سال تک خود یہ لوگ چاروناچار حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت میںشامل رہے۔ مگر اب یکایک انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ خلافت کی ضرورت نہیں بلکہ انجمن ہی کافی ہے۔ اس فتنے کا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب نے کمال جرأت اور غیر معمولی عزم وہمت سے مقابلہ کیا۔اور خدا تعالیٰ کی تائید سے خلافت کو استحکام بخشا اور جماعتی ترقی کے لیے بے شمار منصوبوں کا ایک سلسلہ جاری فرمادیا۔ آپ نے اپنی خلافت کے آغاز میں ہی ایک پمفلٹ شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔’’ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے۔ ‘‘ اس کے بعد آپ کے دور میں انگریز حکومت خصوصاً پنجاب کے انگریز گورنر اور مجلس احرار نے باہمی ملی بھگت سے جماعت کے خلاف سازشوں کا جال بنا اور مسلسل خلیفۃ المسیح کو پریشان کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے شروع کردیے۔ حضور خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی زبان بندی اور آپ کے خطبات پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح احرار نے قادیان میں اپنے بہت بڑے جلسہ کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی اشتہاروں اور اخباروں میں اشتعال انگیز بیان بازی شروع کردی۔یہ تک کہا گیا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور مرزا غلام احمد قادیانی کی نعش کو قبر سے نکال باہر پھینکیں گے۔ (نعوذباللہ) انگریز گورنر، احرار کی پشت پر تھا اور یہ بڑا ہی نازک وقت تھا اس کی نزاکت کا اندازہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے درج ذیل ارشادات سے بخوبی ہوتا ہے۔ حضوررضی اللہ عنہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۳۴ء میں فرماتے ہیں :’’جیسا کہ حکومت پنجاب کے بعض افراد نے سلسلہ کی ہتک کی ہے، احرار کا بھی چیلنج موجودہے اور آپ لوگوں کاکام ہے کہ ہتک کا بھی ازالہ کریں اور چیلنج کا بھی جواب دیں اور ان دونوں باتوں کے لئے جو بھی قربانیاں کرنی پڑیں، کریں۔ اس کے لیے میں آپ لوگوں سے ایسی بھی قربانیوں کا مطالبہ کروں گا جن کا پہلے مطالبہ نہیں کیا گیا اور ممکن ہے پہلے وہ معمولی نظر آئیں مگر بعد میں بڑھتی جائیں اس لئے دنیا کے ہر گوشہ کے احمدی اس کے لیے تیار رہیں اور جب آواز آئے تو فوراً لبیک کہیں۔ ‘‘(خطبات محمود جلد۱۵صفحہ۲۸۷)
اسی خطبہ میں حضوررضی اللہ عنہ نے مزید فرمایاکہ ’’حکومت ہم سے یہ سلوک کرتی ہے کہ کہتی ہے تم مرزا محمود احمد، سول نافرمانی کرنے والے ہو …ہم نے پوری کوشش کرکے ملک میں امن قائم کررکھا ہے اور ملک میں ایک ایسی داغ بیل ڈال دی ہے کہ فساد مٹ جائے مگر حکومت نے ہماری اس عمارت کو گرادیا ہے، ہمارے نازک احساسات مجروح کیے گئے ہیں،ہمارے دل زخمی کردیئے گئے ہیں،ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا، کسی سے کچھ نہیں مانگامگر حکومت اور رعایا خواہ مخواہ ہماری مخالف ہے اور مسیح ناصریؑ کا قول بالکل ہمارے حسب حال ہے کہ : ’’لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے۔ مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔‘‘(متی ۸-۲۰)(خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ۳۱۱)
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ہم کسی کے گھر پر حملہ آور نہیں ہوئے، حکومت سے اُس کی حکومت نہیں مانگی، رعایا سے اُس کے اموال نہیں چھینے،بلکہ اپنی مساجد اُن کے حوالہ کردیں، اپنی بیش قیمت جائیدادیں اُن کو دے کر ہم میں سے بہت سے لوگ قادیان میں آگئے کہ امن سے خدا کا نام لے سکیں مگر پھر بھی ہم پر حملے کیے جاتے ہیں اور حکومت بھی ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں اُن کے آگے پھینکنا چاہتی ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارا قصور کیا ہے جو ہم پر اس قدر ظلم کیے جاتے ہیں؟ گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم بے شک صابر ہیں، متحمل ہیں مگر ہم بھی دل رکھتے ہیں اور ہمارے دل بھی درد کو محسوس کرتے ہیں اگر اس طرح بِلا وجہ انہیں مجروح کیا جاتا رہا تو ان دلوں سے ایک آہ نکلے گی جو زمین وآسمان کو ہلادے گی، جس سے خدائے قہار کا عرش ہل جائے گا اور جب خدا تعالیٰ کا عرش ہلتا ہے تو اس دنیا میں ناقابلِ برداشت عذاب آیا کرتے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍اکتوبر۱۹۳۴ء مطبوعہ خطبات محمود جلد ۱۵ صفحہ۳۱۱-۳۱۲)
پنجاب کی انگریز حکومت کی چیرہ دستیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۲؍نومبر ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :’’ میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو آخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اُس کی غلطی تھی اور ہم حق پر تھے۔ باوجودیکہ ہم نہ تشدد کریں گے اور نہ سول نافرمانی، باوجودیکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کریں گے، باوجود اس کے کہ ہم اُن تمام ذمہ داریوں کو ادا کریں گے جو احمدیت نے ہم پر عائد کی ہیں۔اور باوجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے جو خدا اور اُس کے رسولؐ نے ہمارے لئے مقرر کیے پھر بھی ہماری سکیم کامیاب ہوکر رہے گی۔ کشتیٔ احمدیت کا کپتان، اس مقدس کشتی کو پُرخطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچادے گا۔ یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں۔جن کے سپرد الٰہی سلسلہ کی قیادت کی جاتی ہے ان کی عقلیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہوتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ سے نور پاتے ہیں۔ اوراس کے فرشتے اُن کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی رحمانی صفات سے وہ مؤیّد ہوتے ہیں۔ ‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۱۹)
حضورؓکے اس بیان اور اعلان کے عین مطابق وعدہٴ الٰہی وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا پورا ہوا، اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا وقت آن پہنچا،اللہ تعالیٰ نے اپنی زبردست قوت کا ہاتھ دکھاتے ہوئے انگریز واحرار کی سازش کو ناکام ونامراد بنادیا اور اپنے خلیفۂ برحق اور اُس کی جماعت کی حفاظت کے غیر معمولی سامان کردیے اور اسی خطرناک طوفانِ مخالفت کی کوکھ سے تحریک جدید جیسی الٰہی تحریک کا وہ پودا لگایا جس کی شاخیں آج روئے زمین میں پھیل گئی ہیں اور جس کی بدولت تبلیغ واشاعت اسلام کا ایک عالمگیر اور مستحکم نظام قائم ہوچکا ہے۔ ان خطرناک اور جماعت کے لیے انتہائی پریشان کن حالات میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے ایک نظم کے ذریعہ بھی اپنے ناقابل تسخیر عزم اور توکل علی اللہ کا اظہار کرتے ہوئے مخالفین احمدیت،خصوصاً احرار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:؎
پڑھ چکے احرار اپنی بس کتاب زندگی
ہوگیا پھٹ کر ہوا اُن کا حباب زندگی
لوٹنے نکلے تھے وہ امن و سکونِ بیکساں
خود انہی کے لٹ گئے حسن و شباب زندگی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے باون سالہ دورِ خلافت کا ایک بڑا فتنہ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۵۴ء کے فسادات پنجاب تھے جن میں جماعت احمدیہ کے متعدد افراد کو شہید کرنے کے علاوہ وسیع پیمانے پر احباب جماعت کے اموال واملاک کو جلایا اور لوٹا گیا۔کاروبار تباہ کیے گئے اور پورے صوبہ میں افراد جماعت کا سوشل بائیکاٹ کیاگیا۔ اس خوفناک تحریک کی پشت پناہی حکومت پنجاب کررہی تھی۔تمام بڑے بڑے اخبارات میں جماعت کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی کی جارہی تھی اور جماعت کے افراد کو واجب القتل قرار دیا جارہاتھا۔ شورش کرنے والوں میں سے ہر کسی کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ ہم احمدیت کو مٹاکر دم لیںگے۔ ان پُر آشوب حالات میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر جماعت کو تسلی دی کہ خدا تعالیٰ کی انگلی اشارے کررہی ہے کہ وہ میری مدد کے لیے دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یکایک حالات تبدیل کردیے لاہور سمیت بعض مقامات پر جزوی مارشل لاء لگاکر مرکزی حکومت نے شورش پسندوں کا قلع قمع کردیا۔ اور یہ بہت بڑا خوف بھی محض خدا کے فضل اور خلافت کی برکت سے امن میں تبدیل ہوگیا۔
پھر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور خلافت میں ایک بہت بڑی سازش تیار کی گئی۔ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے ایک معمولی نوعیت کے واقعہ کو اخبارات میں اشتعال انگیزی کے ذریعہ ہوا دےکر بے شمار احمدیوں کو شہیدکیا گیا۔اُن کی املاک، کاروباری مراکز اور جائیدادوںکو وسیع پیمانے پر آتش کیا گیا اور لوٹ مار کا بازار بھی گرم کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس انتہائی پر آشوب دور میں بھی جماعت کو سہارا دیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعائوں اور پُرحکمت تدابیر کے نتیجے میں جماعت کی کشتی تباہی وبربادی سے محفوظ ومامون ہوکر ساحلِ کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ میں خطاب کرتے ہوئے یہ پُر شوکت اعلان فرمایا تھا کہ’’میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائے گا تو… اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی۔‘‘(خلافت حقہ اسلامیہ، انوار العلوم جلد ۲۶ صفحہ ۳۱) اُس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو،جسے علماء نے یہ تک کہا تھا کہ اگر آپ ۹۰سالہ قادیانی مسئلہ حل کردیں تو ہم اپنی داڑھیوں سے آپ کے بوٹ پالش کریں گے۔خدا کی تقدیر نے انہی علماء اور اُن کے سیاسی حلیفوں کے ذریعہ سربراہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹادیا اور بالآخر ایک بظاہر کمزور کیس میں ان کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا۔
اسی طرح حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور خلافت میں ۱۹۸۴ء میں فوجی حکمران اور ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق ایک آمر مطلق فوجی حکمران اور نام نہاد صدر پاکستان نے ایک رسوائے زمانہ آرڈیننس نافذ کرکے جماعت احمدیہ پر اپنے آپ کو مسلمان کہنے یا اپنے تئیں مسلمان ظاہر کرنے،اذان دینے،کلمہ طیبہ پڑھنے اور مسجد کو مسجد کہنے وغیرہ قسم کی جابرانہ اور ظالمانہ قدغنیں لگادیں۔پھر ایک لفٹ آپریٹر اسلم قریشی کے اغوا کا ڈرامہ رچاکر حضرت خلیفۂ رابع ؒ کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ اس ناپاک اور انتہائی بھیانک سازش کا اصل مقصد خلیفۂ وقت پر ہاتھ ڈالنا اور جماعت احمدیہ کو خلافت سے محروم کردینا تھا۔ چنانچہ اس خوفناک سازش کو بھانپتے ہوئے خلافت احمدیہ کو محفوظ رکھنے کی خاطر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدو نصرت سے کامیاب بنایا اور آپ نے اس کامیاب ہجرت کے بعد لندن میں قیام فرمایا۔ اور پھر اپنے اکیس سالہ دور خلافت میں زبردست اور انقلاب آفرین تحریکات کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی عمارت کو دنیا بھر میں مضبوط ومستحکم بنیادوں پر استوار کردیا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲۰۰۳ء میں منصب خلافت پر فائز ہوئے۔ خدا کے فضل سے حضور انور کے دورِ خلافت میں جماعت بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی آرہی ہے۔ دنیا بھر میں منعقد ہونے والے جماعت احمدیہ کے جلسہ ہائے سالانہ میں شاملین کی تعداد میں سال بہ سال غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ ان جلسوں میں متعلقہ ممالک کی سربرآوردہ سیاسی شخصیات بھی بڑی تعداد میں شامل ہوکر جماعت احمدیہ کی پر امن تبلیغی کوششوں اور کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں۔ حضور انور کے دورخلافت میں متعدد نئے ملکوں میں احمدیت کا پودا لگا اور دنیا بھر میں لاکھوں سعید روحیں اسلام احمدیت میں داخل ہوئی ہیں۔ اس دور میں پاکستان سمیت بہت سے ملکوںمیں جماعت کو شدید مشکلات سے گزرنا پڑا ہے اور خصوصاً پاکستان کے معصوم احمدیوں کو پابند سلاسل کیا گیا،اُن پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے اور درجنوں احمدیوں کو Target Killingکا نشانہ بناکر بے دریغ تہ تیغ کیاگیا۔۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کو لاہور کی دو احمدیہ مساجد(مسجد دارالذکر گڑھی شاہو اور مسجد بیت النور ماڈل ٹائون) میں ظلم وبربریت کی ایک بہت بڑی داستان رقم کی گئی۔دہشت گرد حملہ آوروں نے اسلام کے نام پر ۸۶؍ نہتے احمدی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی سفاکانہ ذہنیت اور اسلام دشمنی کا ثبوت دیا۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس جان گداز موقع پر مومنانہ عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے افراد جماعت اور بالخصوص شہداء کے پسماندگان کو صبر، حوصلہ اور دعاؤں کی نصیحت فرمائی۔آپ نے تمام شہداء کے گھروں میں براہِ راست فون کرکے اُن کے افرادِ خاندان سے دلی تعزیت فرمائی اور اُن کے مضطرب دلوں پر ایسا مرہم لگایا کہ اُن کے دل سکینت اور اطمینان کی دولت سے بھر گئے۔
مورخہ ۱۱؍جنوری ۲۰۲۳ء کوبرکینا فاسو کے اخلاص، ایمان اور یقین سے پُر ۹؍احمدی بزرگوں کو مسجد کے صحن میںباقی نمازیوں کے سامنے ایک ایک کرکے اس لیے شہید کردیا گیا کہ انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے پہاڑوں جیسی استقامت دکھائی اور دشمن کی دھمکیوں سے مرعوب نہ ہوئے۔اسلام احمدیت کے ان روشن ستاروں کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے۲۰؍جنوری ۲۰۲۳ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’گذشتہ دنوں براعظم افریقہ کے ملک برکینافاسو میں عشق ووفا اور اخلاص اور ایمان اور یقین سے پُر افرادِ جماعت نے جو نمونہ دکھایا ہے وہ حیرت انگیز ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ جن کو موقع دیا گیا کہ مسیح موعود ؑ کی صداقت کا انکار کرو اور اس بات کو تسلیم کرو کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور آسمان سے اتریں گے تو ہم تمہاری جان بخشی کردیتے ہیں۔لیکن ان ایمان اور یقین سے پُر لوگوں نے جن کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے جواب دیا کہ جان تو ایک دن جانی ہے، آج نہیں تو کل، اِس کے بچانے کے لیے ہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کرسکتے۔ جس سچائی کو ہم نے دیکھ لیا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے اور یوں ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور کوئی واویلا کسی نے نہیں کیا۔پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے افریقہ میں بلکہ دنیائے احمدیت میں اپنی قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی جو قربانی تھی اس کے بعد یہ اپنی دنیاوی زندگیوں کی قربانی دے کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے والے بن گئے ہیں جنہوں نے جان، مال، وقت کو قربان کرنے کا جب عہد کیا تو پھر نبھایا اور ایسا نبھایا کہ بعد میں آکر پہلے آنے والوں سے سبقت لے گئے۔ اللہ تعالیٰ اِن میں سے ہر ایک کو اُن بشارتوں کا وارث بنائے جو اللہ تعالیٰ نے اُس کی راہ میں قربانیاں کرنے والوں کو دی ہیں۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء صفحہ ۶)
اسی خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’یہ احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں، اپنے پیچھے ایک نمونہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں اور نسلوں کو بھی اخلاص و وفا میں بڑھائے۔ دشمن سمجھتا ہے کہ ان کی شہادتوں سے یہ اس علاقے میں احمدیت ختم کردے گا لیکن ان شاء اللہ پہلے سے بڑھ کر احمدیت یہاں بڑھے گی اور پنپے گی …پس یہ قربانیاں کرنے والے تو اس آزمائش میں پورے اترے۔ اب پیچھے رہنے والوں کا بھی اپنے ایمان اور یقین میں بڑھنے کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنے ایمان اور یقین میں کامل رہیں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء صفحہ ۱۱)
پس جماعت پر آنے والا یہ خوف بھی امن میں تبدیل ہوگیا اورجماعت ان سب ظلموں کے باوجود اپنے محبوب امام کی قیادت میں دنیا بھر میں ترقی پر ترقی کرتی چلی جارہی ہے۔ اور یہ جوروستم اور مظالم جماعت کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکے اور جماعت ہر خوف و خطر سے آزاد ہوکر خلافت کے مقدس دامن سے وابستہ ہوکر شب وروز شاہراہ ِغلبۂ حق پر آگے ہی آگے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ جو مومنوں میں سے خلیفہ ہوتے ہیں ان کو بھی اللہ ہی بناتا ہے۔ ان کو خوف پیش آتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ ان کو تمکنت عطا کرتا ہے۔ جب کسی قسم کی بدامنی پھیلے تو اللہ ان کے لئے اس کی راہیں نکال دیتا ہے۔ جو اُن کا منکر ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے۔ ‘‘( حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۲۷)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جس کو خدا خلیفہ بناتا ہے کوئی نہیں جو اس کے کاموں میں روک ڈال سکے۔ اس کو ایک قوت اور اقبال دیا جاتا ہے اور ایک غلبہ اور کامیابی اس کی فطرت میں رکھ دی جاتی ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان،۲۵؍مارچ۱۹۴۱ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’جب بھی قومی طورپر اسلامی خلافت کیلئے کوئی خوف پیدا ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں نور ِایمان باقی ہوگا اللہ تعالیٰ اس خوف کے بعد ضرور ایسے سامان پیدا کردے گاکہ جن سے مسلمانوں کا خوف امن سے بدل جائے گا۔ ‘] (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۳۷۷)پس جماعت کے اندر جب بھی خوف کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت کا ہاتھ انہیں تھام کر،اپنے تائیدیافتہ خلیفہ کے ذریعہ اُن کی سکینت کے سامان پیدا فرمادیتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلافت خامسہ کے دور کے متعلق فرماتے ہیں :’’اس میں بھی حسد کی آگ اور مخالفت نے شدت اختیار کرلی۔ کمزور اور نہتے احمدیوں پر ظالمانہ حملے کرکے خون کی ایسی ظالمانہ ہولی کھیلی گئی جنہیں دیکھ کر یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ انسانوں کا کام ہے یا جانوروں سے بھی بدتر کسی مخلوق کا کام ہے۔ پھر اندرونی طور پر جماعت کے ہمدرد بن کر جماعت کے اندر افتراق پیدا کرنے کی بھی بعض جگہ کوششیں ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت کی زبردست قدرت اس کا مقابلہ کرتی رہی اور کررہی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا مقابلہ کررہا ہے۔ میں تو ایک کمزور ناکارہ انسان ہوں۔ میری کوئی حیثیت نہیں لیکن خلافتِ احمدیہ کو اُس خدا کی تائیدونصرت حاصل ہے جو قادروتوانا اور سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی وعدہ کیا ہے کہ میں زبردست قدرت دکھاؤں گا۔ اور وہ دکھا رہا ہے اور دکھا ئے گا۔ ‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۷تا ۲۳؍جون ۲۰۱۱ء صفحہ ۷-۸)
بائبل کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل غم کے مارے تیس دن تک روتے رہے۔ خوف کے اس عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت یوشع بن نون اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوئے تو باوجود اس کے کہ اس سے قبل بنی اسرائیل کی تاریخ سرکشیوں اور نافرمانیوں سے بھری ہوئی تھی لیکن خوف کے اس عالم میں ان کی ساری سرکشی کافور ہوگئی اور انہوں نے حضرت یوشع بن نون سے کہا :’’جس جس بات کا تو نے ہم کو حکم دیا ہے ہم وہ سب کریں گے اور جہاں جہاں تو ہم کو بھیجے وہاں ہم جائیں گے۔جیسے ہم سب امور میں موسیٰ کی بات سنتے تھے ویسے ہی تیری سنیں گے۔‘‘ (یشوع باب ۱،آیت ۱۸)پس یہ اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت ہی ہے جس کے ذریعہ آسمان سے سکینت نازل ہوتی ہے اور جب جب خوف کے حالات پیدا ہوںتب تب جماعت مومنین کے لیے ایک مضبوط قلعے کا کام دیتی ہے۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ہمارے نبیﷺکی وفات کے بعد ایک خطرناک زمانہ پیدا ہوگیا تھا۔کئی فرقے عرب کے مرتد ہوگئے تھے بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا اور کئی جھوٹے پیغمبر کھڑے ہوگئے تھے اور ایسے وقت میں جو ایک بڑے مضبوط دل اور مستقل مزاج اور قوی الایمان اور دلاور اور بہادر خلیفہ کو چاہتا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر کیے گئے اور ان کو خلیفہ ہوتے ہی بڑے غموں کا سامنا ہواجیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ بباعث چند در چند فتنوں اور بغاوت اعراب اور کھڑے ہونے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ صلعم مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہوجاتا اور زمین سے ہموار ہوجاتا۔ مگر چونکہ خدا کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتاہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی رُوح اس میں پھونکی جاتی ہے جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اول آیت۶میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مضبوط ہواور دلاوری کر یعنی موسیٰ تو مر گیا اَب تو مضبوط ہوجا۔ یہی حکم قضاء و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابوبکرؓکے دل پر بھی نازل ہوا تھاتناسب اور تشابہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا ابوبکر بن قحافہ اور یشوع بن نون ایک ہی شخص ہے۔ ‘‘نز (تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد نمبر۱۷صفحہ۱۸۶-۱۸۵)
خدا تعالیٰ کا قانون کچھ اس طرح کارفرما ہے کہ ترقی کے بالمقابل تنزل، نور کے بالمقابل ظلمت، صحت کے بالمقابل بیماری اور خیر کے بالمقابل شر نظر آتا ہے لیکن انسان کی ترقی کے لیے دونوں پہلو ضروری ہیں۔ زندہ اور زندگی بخش قوموں کی یہ نشانی ہے کہ ابتلا اور تکلیفیں اُنہیں ایمان و ایقان میں کمزور کرنے کی بجائے مزید مضبوط بنادیتی ہیں اور وہ نئے عزم اور پختہ ارادوں کے ساتھ اپنے واجب الاطاعت امام کی ولولہ انگیز قیادت میں شاہراہِ ترقی پر گامزن رہتی ہیں کیونکہ خلافت راشدہ کے سائے تلے اُن پر آنے والا ہر خوف بہت جلد امن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔