خلافت کے ذریعہ ایک مظلوم قوم کی مدد کا نظارہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے…احمدی بیرسٹرزکو مظلومین کشمیر کے مقدمات کی پیروی کے لیے روانہ کیا۔انہیں ہدایات تھیں کہ ایک مظلوم قوم کی مددکرنی ہے،تحمل سے بات سننی ہے،کوئی تحفہ یا امداد قبول نہ کریں۔ملاقاتیوں کی مناسب تواضع اپنے خرچ سے کریں
کشمیر میں ڈوگرہ راج کشمیریوں پرعرصہ حیات روز افزوں تنگ سے تنگ کرتے جا رہا تھا۔۱۹۳۲ءکےآغازمیں ظالمانہ آرڈیننس کے ذریعہ کشمیریوں پر انتہائی مظالم کے پہاڑپھٹ پڑے۔جوروستم کے مہیب بادل چھا گئے۔اکابرین کشمیرکا ریاست کشمیر سے اخراج ہوا۔مثلاً مفتی ضیاءالدین،شیخ عبداللہ اورصوفی عبدالقدیرصاحب نیازریاست بدر ہوئے۔ مظالم کی یہ شب تاریک اور طویل ہوتی چلی گئی۔بے گناہ مسلمانان کشمیرکو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ریاستی قانون یہ تھا کہ بیرون ریاست وکلا کو مقدمات کی پیروی کی اجازت نہ تھی تاوقتیکہ وہ دو روپیہ کے کاغذ پر منظوری کے لیے درخواست دیں اور بیس روپیہ کورٹ فیس ادا کریں۔اس طرح فی مقدمہ کم وبیش چھیاسٹھ روپے آخری اپیل تک ادا کرنے پڑتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےاحمدی وکلا کےذریعہ یہ شق ختم کروائی۔اوراحمدی بیرسٹرزکو مظلومین کشمیر کے مقدمات کی پیروی کے لیے روانہ کیا۔انہیں ہدایات تھیں کہ ایک مظلوم قوم کی مددکرنی ہے،تحمل سے بات سننی ہے،کوئی تحفہ یا امداد قبول نہ کریں۔ملاقاتیوں کی مناسب تواضع اپنے خرچ سے کریں وغیرہ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کشمیریوں کی قانونی امداد کے لیے شیخ محمداحمدمظہرصاحب کو بھی بذریعہ تار۱۷؍نومبر۱۹۳۱ءکولاہورطلب فرمایا۔ عندالملاقات دریافت فرمایاکہ آپ کے پاس کتنے مقدمات ہیں؟عرض کی ڈیڑھ سو کے قریب۔فرمایا کہ انہیں دوسروں کے سپرد کرکے تار کے ذریعہ مطلع کریں۔چنانچہ آپ نے مقدمات اپنے دوست وکلاکے سپرد کیے اور حضورؓ کی خدمت میں احوال سے آگاہ کیا اور کہا کہ میں حاضر ہوں۔حضورؓنے جوابی تار دیا کہ بھمبر چلے جائیں وہاں کافی تعداد میں کیسز پیروی طلب ہیں۔اس پرآپ براستہ گجرات بھمبر پہنچ گئے۔کشمیر میں آپ کا قیام سات ماہ رہا۔دیگر خدمات کے علاوہ آپ نے بلحاظ ابتدائی عدالت تا اپیل ہائے عدالت ۲۵؍مقدمات جو قتل،ڈکیتی،بلوہ وغیرہ پر مشتمل تھے ان کی پیروی کی جن میں ۱۸۰؍بیکس مظلوم مسلمان ماخوذ تھے۔ان میں سے ۱۲۲؍بری ہوئے۔۱۵؍اپیل میں رہا ہوئے۔تقریباً ۲۸؍کی سزائیں کم ہوئیں۔(ماخوذازتاریخ احمدیت جلد۵)
٭…٭…٭