انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں اور تفویض کردہ کاموں کو سر انجام دو
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء)
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا۔ (سورۃ النساء:59)
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے، اس میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ اس آیت میں پہلی ذمہ داری رائے دہی کا حق ادا کرنے والوں کی ہے کہ عُہدہ ایک امانت ہے اس لئے تمہاری نظر میں جو بہترین شخص ہے اُس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرو۔ ووٹ دینے سے پہلے یہ جائزہ لو کہ آیا یہ اس عہدہ کا اہل بھی ہے کہ نہیں۔ جس کے حق میں تم ووٹ دے رہے ہو یا ووٹ دینا چاہتے ہووہ اس عہدہ کا حق ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں؟ جتنی بڑی ذمہ داری کسی کے سپرد کرنے کے لئے آپ خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں، اُتنی زیادہ سوچ بچار اور دعا کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ یہ شخص مجھے پسند ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا عزیز ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا برادری میں سے ہے، شیخ ہے، جٹ ہے، چوہدری ہے، سیّد ہے، پٹھان ہے، راجپوت ہے، اس لئے اُس کو ووٹ دیا جائے۔ کوئی ذات پات عہدیدار منتخب کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جواب طلبی صرف عہدیدار کی نہیں کرتا کہ کیوں تم نے صحیح کام نہیں کیا۔ بلکہ ووٹ دینے والے بھی پوچھے جائیں گے کہ کیوں تم نے رائے دہی کا اپنا حق صحیح طور پر استعمال نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں یہ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا۔ کہ اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔ یہ ووٹ ڈالنے والوں کے لئے بھی ہے کہ اگر تمہیں کسی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا! تیری نظر میں جو بہترین ہے، اُسے ووٹ ڈالنے کی مجھے توفیق عطا فرما۔ اور نیک نیتی سے کی گئی اس دعا کو خدا تعالیٰ جو سمیع و بصیر ہے، وہ سنتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بصیر بھی ہے۔ اُس کی تمہارے عملوں پر گہری نظر ہے۔ خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ وہ دلوں کی پاتال تک سے واقف ہے۔ پس جب مومنین کی جماعت خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے عہدیدار منتخب کرتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ مومنین کا مددگار بھی ہو جاتا ہے۔ جماعتی نظام میں تو ہماری یہ روایت ہے کہ ہر کام سے پہلے ہم دعا کرتے ہیں، دعا سے کام شروع کرتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے بھی دعا کروائی جاتی ہے۔ اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے رہنمائی لیتے ہوئے انتخابات کی کارروائی کی جائے تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے فضلوں اور برکتوں سے نوازتا ہے۔
پس ہر ووٹ دینے والا اپنے ووٹ کی، اپنے رائے دہی کے حق کی اہمیت کو سمجھے۔ ہر قسم کے ذاتی رجحانات یا ذاتی پسند اور ذاتی تعلقات سے بالا ہو کر جس کام کے لئے کسی کو منتخب کرنا چاہتے ہیں، اُس کے حق میں اپنی رائے دیں۔ پرانے احمدی تو جانتے ہیں، نئے آنے والوں پر بھی واضح ہونا چاہئے، نوجوانوں پر بھی واضح ہونا چاہئے کہ انتخابات میں رائے دی جاتی ہے۔ حتمی فیصلہ خلیفۂ وقت کی طرف سے ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کسی کے حق میں کثرت کے باوجود بعض وجوہات کی بِنا پر دوسرے کو (عہدیدار) بنا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی واضح ہو کہ بعض مقامی عہدیداروں کے انتخابات کی حتمی منظوری اگر ملکی امیر دیتا ہے تو اُسے قواعد اس کی اجازت دیتے ہیں۔ کثرتِ رائے سے اختلاف کا وہ حق رکھتا ہے لیکن امراء کو کثرتِ رائے کا عموماً احترام کرنا چاہئے اور یہ بات نوٹ کر لیں، خاص طور پر انگلستان اور یورپ کے ممالک اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا کے ممالک کہ مقامی انتخابات میں قواعدنیشنل امیر کو اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ تبدیلی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ لیکن جن ملکوں کے میں نے نام لئے ہیں، اِس دفعہ کے الیکشن کےلئے اگر کوئی تبدیلی کرنی ہو گی تو اس کے لئے بھی مجھ سے پہلے پوچھنا ہو گا۔ یہاں سے منظوری لیں گے۔ امراء خود تبدیلی نہیں کریں گے۔ باقی پاکستان یا بھارت یا جو دیگر ممالک ہیں، وہ حسبِ قواعد مقامی انتخابات کے لئے منظوری کی کارروائی کر سکتے ہیں اور ہر ملک کی جو نیشنل عاملہ ہے اور بعض اور عہدیداران جو ہیں، اُن کی بہرحال یہیں مرکز سے منظوری لی جاتی ہے۔ خلیفۂ وقت سے منظوری لی جاتی ہے۔
اس آیت میں تُؤَدُّوْاالْاَمٰنٰتِ اِلَی اَھْلِھَا (سورۃ النساء:59) کہا گیا ہے۔ یہ عہدیداران کے لئے بھی ہے۔ بعض عہدے یا بعض کام ایسے ہیں جو بغیر انتخاب کے نامزد کر کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ مثلاً سیکرٹری رشتہ ناطہ ہے، اس کا عہدہ ہے یا خدمت ہے یا بعض شعبوں میں بعض لوگوں کو کام تفویض کئے جاتے ہیں تو امیر جماعت یا صدر جماعت یا متعلقہ سیکرٹری اگر کسی کو ایسے کام دیتے ہیں تو صرف ذاتی پسند اور تعلق پر نہ دیا کریں بلکہ افرادِ جماعت کا تفصیلی جائزہ لیں اور یہ جائزہ لے کر پھر اُن میں سے جو بہترین نظر آئے اُسے کام سپرد کرنا چاہئے ورنہ یہ خویش پروری ہے اور اسلام میں ناپسند ہے۔ لیکن اگر کوئی اپنے کسی دوست یا عزیز کو کوئی کام سپرد کرتا ہے اور اُس کی بظاہر اُس کام کے لئے لیاقت بھی ہے تو پھر بعض لوگ جن کو اعتراض کرنے کی عادت ہے وہ بلا وجہ یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اس نے اپنے قریبی کو فلاں عہدہ دے دیا۔ اُن کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ کسی عہدیدار کا، کسی امیر کا عزیز ہونا یا قریبی ہونا کوئی گناہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اُس شخص کو خدمت سے محروم کر دیا جائے۔