خلیفۃ المسیح سے اخلاص و وفا کا تعلق
رب کائنات نے اپنے رسول عظیم نبی کریم خاتم النبیّین پر اتمام دین کے بعد یہ اعلان بھی فرما دیا کہ اب تاقیامت اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین صرف اسلام ہے۔اور اس کامل،دائمی و عالمگیر دین کی ترقی تجدیدو تائید اور خدمت کےلیے اس نے مجدّدین اور صلحاءکا سلسلہ شروع کیاہے۔مامور من اللہ مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کی بعثت بھی تجدید دین اسلام کے سلسلہ کی ایک اہم ترین کڑی ہے۔آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے تجدید دین کے کام کو کما حقہ ادا کیا۔دشمنان ِدین کے اعتراضات، اسلام کے دفاع اور سربلندی کے لیےجری اللّٰہ فی حلل الانبیاء نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ وقف کردیا۔ نبی کی بعثت کا اوّلین مقصد ہی خدمت دین اور اشاعت اسلام ہوتا ہے جس کا تخم نبی اپنی زندگی میں بوتا ہے مگر یہ سدا بہار پودا نبی کی وفات کےبعد اس کے بعد آنے والے خلفاء کی زندگی میں پھلتا پھولتا اور پروان چڑھتاہے۔جس طرح اسلام کے دورِ اوّلین میں بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلافت کا بابرکت نظام شروع ہوا جسے خلافت راشدہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اسی طرح دَور آخرین میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مسیح اور مہدی علیہ السلام کی وفات کے بعد اسلام کی ترقی و ترویج کے لیے نظام خلافت شروع ہوا۔حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضور علیہ السلام کے پہلے خلیفہ،حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرےخلیفہ،حضرت مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ تیسرے اور حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے۔سیّدنا و امامناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز،حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے اور آج خلافت خامسہ کے بابرکت اور الٰہی تائیدات سے پُر دَور خلافت میں افرادِجماعت دنیا کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں اسلام کی پرُ امن تعلیمات پھیلا نے کی توفیق پا رہے ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذٰلک
خلافت ایک نعمت عظمیٰ اور فضل ربانی و یزدانی ہے۔خلیفہ کا وجود اس کے ماننے والوں کو جہاں زمانے کی گرم سرد ہواؤں سے بچا تا ہے،ان کے خوف کو امن میں بدلتا ہے، وہیں ان کو زندہ خدا سےبھی ملاتا ہے۔آج دنیا میں ہر طرف بدامنی اور انتشار برپا ہے،اخلاقیات کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔ گھر ٹوٹ رہے ہیں، بچے تباہ ہو رہے ہیں۔ خلافت پر ایمان نہ لانے کی صورت میں مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ہر طرف خوف و ہراس اور افراتفری کا عالم ہے۔مگر ہمارے پاس خدا کے فضل سے خلیفۂ وقت کی صورت میں ایک ایسی نعمت موجود ہے کہ اگر ہم اور ہمارے بچے اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے اس سے اپنے آپ کو جوڑے رکھیں، خلیفۃ المسیح سے اخلاص و وفا کا تعلق قائم رکھیں، آپ کے ساتھ اطاعت و وفا کا عملی اظہار کریں تو اس کی برکت سے ہمارا زندہ خدا سے زندہ تعلق پیدا ہو گا۔ ہمارے گھر وں کا ماحول بھی جنت کا سا نظارہ پیش کر رہا ہوگا اورہمارے بچے بھی زمانے کی گرم سرد ہواؤں سے محفوظ ہونگے۔ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ خلافت ایک نعمت عظمیٰ ہے۔خلافت خدا تک پہنچانےوالی رسی ہے۔دن رات ہمارے لیے دعائیں کرنے والا،ماں سے زیادہ محبت کرنے والا، ہمارے غم میں غمگین اور ہماری خوشیوں میں پوری طرح شامل ہونے والاوجود،اگر کسی نے دیکھنا ہو تو خلیفۂ وقت کے روپ میں جماعت احمدیہ میں دیکھے۔عالم احمدیت سے باہر آج کسی اور کو یہ نعمت نصیب نہیں ہے۔؎
جل رہا ہے ایک عالَم دھوپ میں بے سائباں
شکرِ مولیٰ کہ ہمیں یہ سایۂ رحمت ملا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے مگر ان کے لئے نہیں ہے۔تمہارا اسے فکر ہے،درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہےلیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ ‘‘(برکات خلافت، انوارالعلوم جلد۲صفحہ۱۵۸)
خلیفۂ وقت کی خدمت میں خط لکھنا اپنا معمول بنالیں
خلفائے احمدیت کی شفقت و محبت اور ان کی دعاؤں کے فیض کا سلسلہ بہت وسیع اور غیر معمولی ہے جس کا ادراک غیروں کو نہیں مگر ہم احمدیوں کو بخوبی ہے۔ ہم میں سے بہتوں کے والدین نے بچپن ہی سے اپنے قولی اور فعلی نمونے سے ہمارے ذہنوں میں یہ بات جاگزیں کر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرو،اس پر توکل کرو اور اسی سے مانگواور خلیفۃ المسیح کی خدمت اقدس میں باقاعدگی سے خط لکھو۔ پیارے آقاکی صحت و سلامتی والی فعال عمر کے لیے خوب دعائیں کرو۔حضور انور سے اپنے دینی اور دنیوی اُمور میں مشورہ مانگو، خلیفۃ المسیح کے ہر فرمان کی دل و جان سے اطاعت کرو۔آج بھی وہ نظارے اور لمحات یاد دلاتے ہیں ان سنہری وقتوں کی۔جب میرے والد بزرگوار نذیر احمد خادم صاحب ہم سب بہن بھائیوں کو پاس بٹھا کر خلیفۂ وقت کی خدمت اقدس میں خط لکھواتے اور پھر خود حوالۂ ڈاک کرتے۔ پیارے آقا سے ازراہ شفقت جب خط کا جواب موصول ہوتا تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی۔ ہر آنے جانے والے کو خلیفۃ المسیح کا خط دکھاتے۔سینکڑوں کی تعداد میں ہم نے خط سنبھالے ہوئے تھے۔میرے والد صاحب کی وفات کے بعد ان کی الماری میں سب سے زیادہ حضرت صاحب کی طرف سے موصول ہونے والے خطوط تھےجو آپ نے بڑی محبت سے اور سلیقہ سے فائل میں لگائے ہوئےتھے۔جو لوگ حضور سے ملاقات نہ ہونے پر غمگین ہوتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ خلیفۂ وقت سے خطوط کے ذریعہ ملاقات کر یں اور پھر پیارے آقا کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ ظاہری ملاقات کے سامان بھی پیدا کر سکتا ہے۔خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا کے ہزاروں واقعات ہیں جو آئے روز ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے اور خلافت احمدیہ پر ہمارا یقین اور ایمان بڑھاتے ہیں۔کتنے ہی لاعلاج جسمانی و روحانی مریضوں کو خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کے طفیل شفا نصیب ہوئی اور کتنے ہی تھے جو موت کے منہ سے واپس آئے۔ بہت سے لوگوں کو شادی کے ایک لمبے عرصہ کے بعدخلیفۃ المسیح کی دعاؤں سے اولاد ملی۔آج خلافت احمدیہ کی صورت میں ہمارے حضور پر نور سیّدنا مسرور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمارے لیے ایک گھنا سایہ ہیں۔ آئیں ہم اور ہماری اولادیں خلافت کی قدرو منزلت کو پہچانیں۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی سے نوازتا ہے یا بیماری سے شفا دیتا ہے تو پھر پیارے آقا کی خدمت اقدس میں خط لکھ کر اس کی اطلاع بھی دینی چاہیے۔
خلیفۂ وقت کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کے بہت سے طریق ہیں مثلاً خلیفۂ وقت سے ملاقات کرنا،حضور انور کےبصیرت افروز خطبات و خطابات سننا،خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سننا،حضور کی نصائح پر دل و جان سے عمل کرنا۔باحیا لباس پہننا، حیا دار گفتگوکرنا، جماعتی پروگراموں میں شرکت کرنا اور اپنے آقا کی صحت و سلامتی اور فعال عمر کے لیے دعائیں کرنا،تبلیغ کرنا۔ اگر ہم ایسا کریں گی تو یقین مانیے ہماری طرف آنے والا ہر طوفان، خلافت کی برکت سے امن میں بدل جائے گا۔پھردشمنان شہدائے لاہور کی بات ہو یا برکینا فاسو میں شہید ہونے والے ہمارے احمدی بھائیوں کے قاتلوں کی، احراریوں جیسا گروپ جماعت سے ٹکر لینے کے مذموم ارادے سے نکلےیا بھٹو اور جنرل ضیا ءالحق جیسے ڈکٹیٹر جماعت کو ختم کرنے کے خواب دیکھیں،ہر دفعہ خلافت کی برکت سے یہ طوفان تھم جائیں گے اور دشمن کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان شا ء اللہ۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ خوفوں کو اس نے دور کرنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بار بار مومنوں کو یہ توجہ بھی دلاتا ہے کہ وہ میری عبادت کا حق بھی ادا کریں۔ اور جب یہ حق ادا ہو رہے ہوں گے تو بیشک خوف کے حالات بھی آئیں گے۔ لیکن خوف کی حالت ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اس تعلق کی وجہ سے، اس واسطے سے، جو خلافت سے ہو گا اور جو اللہ تعالیٰ سے ہو گا، وہ حالات امن اور سکون کی حالت میں بدل دئیے جائیں گے…پس مشکلات بھی آئیں گی۔ ابتلاء بھی آئیں گے لیکن آخری فتح ان شاء اللہ جماعت احمدیہ کی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے جاری ہونے والا نظام خلافت ہی وہ حقیقی نظام ہے جس کے ساتھ ترقیات وابستہ ہیں اور دنیا کی امن و سلامتی بھی وابستہ ہے۔ یہی نظام ہے جس کے ذریعہ سے تمام دنیا پر اسلام کی برتری ثابت ہونی ہے اور غلبہ قائم ہونا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ مئی ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶تا۲۲؍جون ۲۰۱۷ء صفحہ ۸)
وعدہ ہے اس کا خوف کا بدلے گا امن میں
ہر موڑ پر نظارے یہ کرنے لگے ہیں ہم
خلافت حبل اللہ ہے اس کی اطاعت اور ادب لازم و ملزوم ہیں۔خلیفۂ وقت کی اطاعت اور ادب کے بغیر انسان خواہ دنیا کی کتنی ڈگریاں ہی کیوں نہ حاصل کر لے خدا کی نظر میں اس کی اہمیت کھوٹے سکے سے زیادہ نہیں۔ہمارے پیارے حضور،خلیفۂ وقت کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اپنے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ سے جوڑ کر اور پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی۔ خلافت کی پہچان اور اس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہونا چاہئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں اور کسی قسم کی روک دل میں پیدا نہ ہو،کسی بات کو سن کر انقباض نہ ہو۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۱۸؍مارچ ۲۰۱۴ءصفحہ ۶)حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ ۱۱؍مئی ۲۰۰۳ء کو احباب جماعت کے نام محبت بھرے خصوصی پیغام میں فرماتے ہیں:’’قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھناہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرتِ ثانیہ نہ ہوتو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اورمحبت اور وفا اورعقیدت کا تعلق رکھیں اورخلافت کی ا طاعت کے جذبہ کودائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں۔ امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اوروہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اورابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتاہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتاہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے توخواہ وہ دنیا بھرکے علوم جانتاہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا ‘‘۔
پس اگر آ پ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آناہے تومیر ی آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں۔ اس حبل اللہ کومضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔ ‘‘
صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ دہرائے گئے یہ مبارک الفاظ بھی ہمیں ہمیشہ یاد رکھنے چاہئیں اور خلافت سے محبت و اطاعت کے اعلیٰ سے اعلیٰ تر معیار قائم کرنے کے لئے ان کا اعادہ کرتے رہنا چاہئے:’’ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور استحکام کےلیےآخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنےاور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے۔ ‘‘(خطاب بر موقع خلافت صد سالہ جوبلی ۲۷؍مئی۲۰۰۸ء)