اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۲ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
۲۰۲۲ء میں پاکستانی ریاست اور معاشرہ جماعت احمدیہ کو تکالیف پہنچانے میں گذشتہ سال سے بھی بڑھ گیا۔ اپریل میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)اتحاد کی سربراہی کرتے ہوئے شہباز شریف نے اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے عمران خان کی جگہ سنبھالی۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر کے پنجاب میں حکومت سنبھالی۔پنجاب عدم برداشت،تعصّب اور شدت پسندی کا گڑھ رہا جو کہ کئی مواقع پر سنگین صورت اختیار کرگئی۔
احمدیوں کےساتھ غیر مناسب رویے نے تو شدت اختیار کی ہی لیکن اس کے ساتھ اس ایذا رسانی نے جدّت بھی اختیار کر لی۔مثال کے طورپر ربوہ جہاں سب سے زیادہ احمدی رہائش پذیر ہیں وہاں ایک مدرسے سے فارغ التحصیل شقی القلب نے صرف چند سیکنڈ میں ہی ایک احمدی کو شناخت کر لیا جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا اور دن دیہاڑے سرعام چاقو کے وار کر کے کئی لو گوں کی موجود گی میں اسے شہید کر دیا۔ربوہ میں اس قسم کے واقعے کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ایک اور واقعہ جو کراچی میں پیش آیاجہاں ایک احمدی وکیل کو پولیس نے امتناع احمدیت قوانین کے تحت اپنے نام کے ساتھ ’سید‘ کالفظ استعمال کرنے پر مقدمہ درج کر دیا۔پھر ایک واقعہ ایسا ہے کہ جس میں ایک گاڑی میں ایک پوسٹر لگایا گیا جس پر یہ درج تھا کہ احمدی اس گاڑی میں داخل ہونے سے پہلے اسلام میں داخل ہوں۔
گذشتہ سال میں احمدیوں پر آٹھ ایسے سنگین حملے ہوئے جن کا نشانہ بننے والے زخمی ہوئے، ہسپتال داخل ہوئے یا پھر مستقل معذور ہو گئے۔
پولیس نے مولویوں کے ساتھ مل کر احمدیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کروائے جن سے پتہ چلتا ہے کہ مولویوں سے احمدیوں پر ظلم وستم کا کام اَب ریاست نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔معصوم احمدی کئی بار ٹرائل کورٹ سے بری ہونے سے قبل سالوں تک جیلوں میں قید کاٹتے ہیں۔
اس سال پولیس نے ۱۰۷؍ احمدیوں پر مقدمات بنائے اور ۲۶؍ احمدیوں کو گرفتار کیا۔تقریباً تمام مقدمات من گھڑت، جھوٹے اور جعلی ہیں۔ ایک ۶۵؍ سالہ احمدی خاتون پر تعزیرات پاکستان دفعہ ۲۹۵ اے کے تحت مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا دس سال تک ہو سکتی ہے۔مبینہ طور پر انہوں نے کسی جگہ پر آویزاں ایک احمدیہ مخالف اشتہار اتار دیا تھا۔ جماعت احمدیہ پاکستان کے متعدد عہدیداران پر توہینِ قرآن کی دفعہ ۲۹۵سی کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ایک مجسٹریٹ نے جماعت احمدیہ کے ایک مرکزی عہدیدار کے خلاف دو سال قبل قائم کیے جانے والے جھوٹے سائبر کرائم کے مقدمے میں پی پی سی ۲۹۵سی کی شق شامل کر دی۔
اس تمام ظلم و ستم کے محرکات سیاسی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی قیادت احمدیہ مخالف رائے کو اپنی سیاسی تحریک کے لیے فائدہ مند خیال کرتی ہے۔ضرورت کے تحت وہ اپنے تعصب اور جبر واستبداد کو چھپاتے نہیں ہیں۔جیسا کہ مندرجہ ذیل حوالہ میں درج ہے:
مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے ستمبر ۲۰۲۲ء میں ٹویٹ کیا کہ قادیانیت اور صیہونیت اسلام کے دل میں خنجر پیوست کرنے کی ایک سازش ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے کہاکہ ہماری اس کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی راہ و رسم جو کہ حضرت محمد ﷺ کی خاتمیت پر یقین نہیں رکھتا۔اگر وہ(احمدی ) رہنا چاہتے ہیں تو رہیں۔ایک اقلیت کی صورت میں اور اگر جانا چاہتے ہیں تو انہیں چلے جانا چاہیے۔
عمران خان کے ایک کیبنٹ منسٹر علی محمد خان نے عمران خان کی موجودگی میں بڑے فخر سے ایک ریلی میں کہا کہ عمران خان نے قادیانیت کی کمر توڑ دی۔
مسلم لیگ (ن) کے میاں جاوید لطیف نے ایک ویڈیو میں عمران خان پر احمدیت کا حامی ہونے کا الزام لگایا۔ یہ قیاس سے کچھ الگ ہی تھا۔اس نے یہ نتیجہ نکالاکہ ہر ادارے کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر یہ شرارت(احمدیت) زور پکڑتی ہے تو پھر پاکستان خون ریزی میں غرق ہو جائے گا۔
آزاد کشمیر اسمبلی کو اپنی ساکھ کو بحال کرنا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس اس نے کھلے عام تعصّب کی قیادت کرنے کا ارادہ کیا اور اسمبلی نے احمدیوں کے خلاف ختم نبوت کی حمایت میں کیے جانے والے اقدام کی ایک لمبی قراردار منظور کی۔
یہ چندواقعات کافی ہیں اور اس بات کا واضح اظہار کر رہے ہیں کہ ریاستی اداروں نے کونسا راستہ اپنایا ہے۔
جماعت احمدیہ کی مساجد مسلسل بے حرمتی کے واقعات کا شکار ہوئی ہیں۔ زیادہ تر واقعات میں پولیس اور انتظامیہ ہی اس توہین کی مرتکب ہوئی۔ سات مساجد کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ تین کو نفرت انگیز تحریروں سے آلودہ کیا گیا۔
مولویوں کے انگیخت کرنے پر پنجاب انتظامیہ نےاس سال ۱۷۳؍ احمدی قبروں کے کتبے مسمار کیے۔ شرپسندوں نے مزید ۲۴؍ قبروں کی توہین کی۔ پشاور میں ان میں سے ایک پر انہوں نے انتہائی نفرت انگیز الفاظ قادیانی (۔)لکھ دیے۔ ۲۵؍ سال قبل وفات پانے والے ایک احمدی کی قبر کو کھود کر ان کی باقیات کو باہر پھینک دیا گیا۔
عدلیہ اور وکلاء نے احمدیت کے معاملے میں منفی کردار ادا کیا۔ہم ججوں کی عزت کرتے ہیں۔بعض اوقات انہوں نے ہمیں ان کے توسط سے انصاف بھی ملا ہے تاہم وہ پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں اس لیے یہ ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ قوم کے اوسط رویے سے قد کاٹھ میں بڑھ جائیں۔ ان کے مناسب حال احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئےہم صرف عدالتی خبروں کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور اپنی عمومی رائے دینے سے احتراز کرتے ہیں۔
پشاور کی ایک عدالت نے دو افراد کو بری کر دیا جنہوں نے گذشتہ سال ایک احمدی ہومیو پیتھ (ڈاکٹر) کو ان کے کلینک میں شہید کر دیا تھا جن میں سے ایک رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔
۱۶؍جنوری کو ڈان نے خبر دی ’’ان لوگوں پر تحریف شدہ قرآن کا نسخہ دکھانے کا الزام لگایا۔لاہور ہائی کورٹ احمدیہ جماعت کے گرفتار شدگان کی بعد از گرفتاری ضمانت نامنظور کرتی ہے۔‘‘
توہین آمیز مواد کی تشہیر قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ مشترکہ کارروائی کی ضرورت ہوگی۔لاہور ہائی کورٹ
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شجاعت علی خان نے ایک معاند احمدیت مولوی حسن معاویہ کی درخواست سن کر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے چیف سیکرٹریوں کو بلایا جنہوں نے ۲۰۱۹ء کے قرآن کریم کی غیر مصدقہ نسخوں کی اشاعت کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے والے فیصلے کے متعلق اپنے اقدامات سے آگاہی دی۔
انتظامیہ نے ججوں کے کہنے پر ان اقدامات کی پیروی کی اور اعلیٰ احمدی قیادت کے چند ارکان کو ایسے مقدمات میں ملوث کیا گیا جن کی سزا عمر قید ہے۔تاہم مندرجہ ذیل حقائق عدالت نے نظر انداز کیے۔
٭…ان عدالتی کارروائیوں میں کسی احمدی کی بات نہیں سنی گئی
٭…احمدیوں نے اس قانون کے اعلان کے بعد قرآن کی اشاعت نہیں کی
٭…اس قانون سے قبل بھی احمدی جو قرآن کریم کی اشاعت کر رہے تھے وہ اصولوں کے مطابق غلطی سے پاک تھے
٭…کسی ترجمے کو غیر مستند،توہین آمیز مواد، یا تحریف شدہ کہنانہ تو درست ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ صرف عربی متن ہی مستند، معیاری،اور غلطی سے پاک ہو سکتا ہے۔ تمام ترجمے مختلف ہوتے ہیں اور کسی حد تک ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے ترجمے کے نسخے کو جامعہ الازہر کے معروف علماء نے درجہ بندی میں سب سے اوپر تصورکیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں صورت حال بہت سے پہلوؤں سے غیر تسلی بخش رہی۔انتظامیہ نے ’’ختم نبوت‘‘کو نصاب میں شامل کر دیا۔نیم سرکاری ایئریونیورسٹی کے ۲۰۲۱-۲۲ء کے اسلامیات اور اخلاقیات کےمضمون میں ایک سیکشن بطور خاص احمدیوں کے خلاف شامل کیا جس کا عنوان نبیوں کی مہر:قادیانیوں کا آئینی مقام ہے۔پنجاب ضلع جھنگ کے دو سکولوں سے اٹھارہ احمدی بچوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے خارج کر دیاگیا۔ ایجوکیٹرز کے میٹھیال کیمپس نے چار بچوں کو خارج کیا۔اسلام آباد میں ایک ہوسٹل سے پانچ احمدی طلبہ کو خارج کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل لمز(LUMS) چیپٹر کو پاکستان میں درگزرپر بات کرنے کےلیے احمدی مقرر کو سیمینار میں شرکت کرنے سےروک دینے کا کہا گیا۔
مندرجہ بالا واقعات تو صرف اشرافیہ کے متعلق تھے۔ متوسط طبقے میں نفرت انگیز پراپیگنڈہ میں انتہائی شدت آچکی ہے۔ مختلف جگہوں پر اسلامی موضوعات پر جلسے منعقد کیے جاتے رہے جیسے کہ میلاد،ختم نبوت اور شان رسالت۔ لیکن مولویوں نے ان جلسوں کو ہمیشہ احمدیوں پر طعن و تشنیع اور نفرت انگیز فرقہ واریت کے لیے ہی استعمال کیا۔
ملا نعیم قادری تو اپنی ایک ویڈیو میں نفرت انگیز جذبات میںاس حد تک چلا گیا کہ اپنے دیکھنے والوں کو حاملہ احمدی خواتین کو قتل کرنے کا کہا تا کہ کوئی بچہ احمدی عقیدہ رکھنے والوں میں پیدا نہ ہو۔
احمدی خواتین کو بھی انتہائی منفرد قسم کی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک احمدی خاتون استاد کو ان کی نوکری سے صرف احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ایک احمدی خاتون جو ۲۰۱۵ء سے سپیرئیر یونیورسٹی میں لیکچرار تھیں ان کو انتہائی جارحانہ رویہ کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ایک کالج کی احمدی طالبہ ہیں ان کو ان کے پرنسپل کی طرف سے جھوٹے الزامات کے باعث ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے ان دنوں زیادہ تر احمدی طلبہ کو سخت رد عمل کے اظہار کے خوف کے باعث اپنی شناخت کو چھپا کر رکھنا پڑتا ہے۔
معاندین احمدیت کے لیے دھمکی آمیز رویہ ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ ان دھمکیوں کے باعث ایک احمدی کو اپنا کرائے کا گھر یا دکان خالی کرنی پڑتی ہے اور وہی دھمکانے والے ان جگہوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔سرگودھا کے ایک احمدی کو ایک مولوی نے قتل کی دھمکی دی۔ اسی وجہ سے ان کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی اور جگہ پر نقل مکانی کرنا پڑی۔
عید الاضحی کے موقع پر اکثر احمدیوں کے لیے مذہبی آزادی کا سلب ہونا ایک معمول بن چکا ہے اور اب وہ پہلے کی طرح آزادانہ طور پر جانوروں کی قربانی بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے ’مسلمان‘ ہمسایوں کے کہنے پر پولیس ان کے خلاف مقدمات درج کر دیتی ہے اور یہ اس خوشی کے موقع کی خوشی کو خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔
ریاستی اور مذہبی سرپرستی میں ہونے والے مظالم کے علاوہ معاشرتی پروگرام اور اجتماعی تشدد احمدیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ بارہ ہزار آدمی جو اکتوبر میں ربوہ میں احمدیت مخالف ریلی میں جمع ہوئے ان کا مقصد صرف کثیر احمدی آبادی والے شہر کو ہراساں کرنا تھا۔ریلی کے شاملین جارحانہ پراپیگنڈہ سے متاثر ہوکر پُرتشدد واقعات میں ملوث ہوجا تے ہیں۔وہ ایک مذہبی مقصد حاصل کر لیتے ہیں اور ان کے ایسے کام ان کو طاقت کا احساس فراہم کرتے ہیں۔ربانی کالونی فیصل آباد میں ایک فسادی شخص ایک احمدی ٹریڈرز کی دکان پر آیا اور دکان کے نام پر اعتراض کرنے لگا اور کہا کہ اس بورڈ کو ہٹایا جائے۔اس کی بات کے انکار پر اس نے چند تحریک لبیک کے لوگوں کو بلا لیا جنہوں نے آکر اس احمدی کو زد و کوب کیا۔ اس کے بعد اس کو ہمیشہ کے لیے وہ دکان چھوڑنی پڑی۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد۔یوکے )