خلفاء کی سچے دل کے ساتھ اطاعت کرو
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۹؍ جون ۱۹۱۷ء )
۱۹۱۷ء کےاس خطبہ جمعہ میں حضورؓنے خلیفہ وقت پر اعتراض کرنے والوں کو توجہ دلائی ہے کہ اس عمل سے ان کے ایمان ضائع ہو جائیں گے۔حضورؓ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ محض زبان سے اقرار کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اصل چیز اطاعت ہے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
حضور نے تشہد و تعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَاسۡمَعُوۡا ؕ وَلِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ مَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَلَا الۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ یَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ (البقره : ۱۰۵)
اور فرمایا : بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے کلام اور اپنی تحریر پر قابو نہیں رکھتے۔ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ صوفیاء کا قول ہے:
’’الطريقة كلها ادب‘‘
تو جب تک انسان اپنے قول اور تحریر پر قابو نہیں رکھتا اور نہیں جانتا کہ اس کی زبان اور قلم سے کیا نکل رہا ہے وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو حیوان سے بھی بدتر ہے کیونکہ جانور بھی خطرہ کی جگہوں سے بچتا ہے لیکن انسان مآل اندیشی سے ہرگز کام نہیں لیتا۔ جانور کو کسی خطرہ کی جگہ مثلاً غار کی طرف کھینچیں تو وہ ہرگز ادھر نہیں جائے گا۔ مولوی رومی صاحب نے اپنی مثنوی میں ایک مثال لکھی ہے کہ ایک چوہا ایک اونٹ کو جس طرف وہ اونٹ جا رہا تھا۔ ادھر ہی اس کی نکیل پکڑ کر لے چلا لیکن جب راستہ میں ندی آئی تو اونٹ نے اپنا رخ پھیر لیا اور چوہا ادھر گھسٹتا ہوا چلنے لگا جدھر اونٹ جا رہا تھا تو ایک چوہا بھی ایک اونٹ کو جہاں خطرہ نہ ہو، لے جا سکتا ہے مگر جہاں خطرہ ہو وہاں چوہا تو کیا ایک طاقتور آدمی بھی اونٹ کو نہیں لے جاسکتا۔
یا شِکرے اور باز جس وقت آتے ہیں تو جانور درختوں میں اس طرح دبک کر بیٹھتے ہیں گویا وہاں کوئی جانور ہے ہی نہیں مگر انسانوں میں ایک ایسی جماعت ہے جو بات کہتی ہے اور نہیں سمجھتی کہ اس کا کیا مطلب ہے حالانکہ اکثراوقات ذرا سی غلطی خطرناک نتائج پیدا کر دیا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے مومنو! دو معنی والے لفظ رسول کے مقابلہ میں استعمال نہ کرو۔ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مومن تھے اس لئے فرمایا کہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا۔ فرمایا کہ تم اگر چہ اس وقت مومن ہو لیکن اگر تم نے اپنی زبانوں پر قابو نہ رکھا تو یاد رکھو کہ ہم تمہیں کافربنا کے دُکھ کے عذاب میں مبتلا کر کے ماریں گے مومن سے شروع کیا لیکن اس غلطی کے باعث کفرپر انجام ہوا۔ پس
انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول کا نگران ہو، ورنہ ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے
میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ زبان سے تو اقرار کرتے ہیں اور تحریر و تقریر میں خلیفۃ المسیح خلیفۃ المسیح کہتے ہیں مگر جو حق اطاعت ہے اس سے بہت دُور ہیں زبانی خلیفۃ المسیح کہنا یا لکھنا کیا کچھ حقیقت رکھتا ہے ؟ شیعوں نے لفظ خلیفہ کے استخفاف اور ہنسی کے لئے نائیوں اور درزیوں تک کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا۔ لیکن کیا خلفاء ان لوگوں کی ہنسی سے ذلیل ہو گئے ہر گز نہیں۔ لوگوں نے اس لفظ خلیفہ کو معمولی سمجھا ہے مگر خدا کے نزدیک معمولی نہیں۔ خدا نے ان کو بزرگی دی ہے اور کہا ہے کہ میں خلیفہ بناتا ہوں اور پھر فرمایا مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور) ان خلفاء کے انکار کا نام فسق ہے جو انکار کرےگا وہ میری اطاعت سے باہر ہو گیا۔
پس لفظ خلیفہ کچھ نہیں لوگ نائی کو بھی خلیفہ کہتے ہیں۔ مگر وہ خلفاء جو خدا کے مامورین کے جانشین ہوتے ہیں ان کا انکار اور ان پر ہنسی کوئی معمولی بات نہیں وہ مومن کو بھی فاسق بنا دیتی ہے۔ پس یہ مت سمجھو کہ تمہارا اپنی زبانوں اور تحریروں کو قابو میں نہ رکھنا اچھے نتائج پیدا کرے گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے علیحدہ کر دوں گا۔
فاسق کے معنے ہیں کہ خدا سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کو خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو انتظام ہو۔ جو شخص اس کی قدر نہیں کرے گا اور اس انتظام پر خواہ مخواہ اعتراضات کریگا خواہ وہ مومن بھی ہو۔ اور جو اس کے متعلق بولتے وقت اپنے الفاظ کو نہیں دیکھے گا تو یاد رکھو کہ وہ کافر ہو کر مرے گا۔ اس آیت میں رسول کریم مخاطب ہیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرۡنَا مگر جس کے لئے ادب کا حکم ہوتا ہے وہ بھی اس آیت میں داخل ہوتا ہے۔ خدا نے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کو اس مقام پر کھڑا کیا تھا جو ادب کی جگہ تھی۔ جس وقت اختلاف شروع ہوا۔ آپ نے کہا کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑوں گا خواہ تمام جہان میرے برخلاف ہو جائے جب تک یہ لوگ اگر ایک رسی بھی جو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو دیتے تھے نہیں دیں گے۔ (تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحہ ۶۱ )پس یہ مت سمجھو کہ حفظ مراتب نہ کرنا کوئی معمولی بات ہے اور کسی خاص شخص سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی خلافت جب ان کے لئے ادب کا حکم ہے سب کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ادب کیا جائے۔ کوئی شخص اگر بادشاہ کا ادب نہیں کرے گا تو جانتے ہو وہ سزا سے بچ جائے گا ؟
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ انشاء اللہ خان بڑا شاعر تھا اور ہمیشہ اس امر کی کوشش کیا کرتا تھا کہ بادشاہ کی تعریف میں دوسروں سے بڑھ کر بات کہے دربار میں بادشاہ کی تعریف ہونے لگی کسی نے کہا کہ ہمارے بادشاہ کیسے نجیب ہیں۔ انشاء اللہ خان نے فوراً کہا نجیب کیا۔ حضور تو انجب ہيں(آب حیات مصنفہ مولانا محمد حسین آزاد)اب انجب کے معنے زیادہ شریف کے ہیں اور ساتھ ہی لونڈی زادہ کے بھی۔ اتفاق یہ ہوا کہ بادشاہ تھا بھی لونڈی زادہ۔ تمام دربار میں سناٹا چھا گیا اور سب کی توجہ لونڈی زادہ کی طرف ہی پھرگئی۔ بادشاہ کے دل میں بھی یہ بات بیٹھ گئی اور انشاء اللہ خان کو قیدکر دیا جہاں وہ پاگل ہو کر مرگیا۔
پس زبان سے محض خلیفۃ المسیح خلیفۃ المسیح کہنا کچھ نہیں
مجھے آج ہی ایک خط آیا ہے جس میں اس خط کا لکھنے والا لکھتا ہے کہ آپ نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ غریب سمجھ کر ہمارے خلاف کیا ہے۔ اب اگر فی الواقعہ ایسی ہی بات ہو کہ کوئی شخص فیصلوں میں درجوں کا خیال رکھے تو وہ تو اول درجہ کا شیطان اور خبیث ہے چہ جائے کہ اس کو خلیفہ کہا جائے۔ دیکھو! میں نے ان لوگوں کی بھی کچھ پرواہ نہیں کی جو میرے خیال میں سلسلہ کے دشمن تھے۔ پس
میں کسی انسان کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا۔ خواہ سب کے سب مجھ سے علیحدہ ہو جائیں
کیونکہ مجھ کو کسی انسان نے خلیفہ نہیں بنایا بلکہ خدا نے ہی خلیفہ بنایا ہے۔ اگر کوئی انسان کی ہی حفاظت میں آئے تو انسان اس کی کچھ حفاظت نہیں کر سکتا۔ خدا ایسے شخص کو ایسے امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ جن میں پڑکر بُری طرح جان دے۔
میں اس خلافت کو جو کسی انسان کی طرف سے ہو لعنت سمجھتا ہوں۔ نہ مجھے اس کی پرواہ ہے کہ مجھے کوئی خلیفۃ المسیح کہے۔ میں تو اس خلافت کا قائل ہوں جو خدا کی طرف سے ملے۔ بندوں کی دی ہوئی خلافت میرے نزدیک ایک ذرہ کے بھی برابر قدر نہیں رکھتی۔ مجھے کہا گیا ہے کہ میں انصاف نہیں کرتا۔ غریبوں کی خبرگیری نہیں کرتا۔ پس اگر میں عادل نہیں ہوں تو میرے ساتھ کیوں تعلق رکھتا ہے۔ جو عدل نہیں کرتا وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ایسے لوگوں کا مجھے کوئی نقصان نہیں مجھے تو اس سے بھی زیادہ لکھا گیا ہے۔ قاتل مجھ کو کہا گیا۔ سلسلہ کو مٹانے والا غاصب اور اسی قسم کے اور برے الفاظ سے مجھ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ پس اس کے مقابلہ میں تو یہ کچھ بھی نہیں۔
ہر ایک وہ شخص جو مقدمہ کرتا ہے وہ اپنے تئیں ہی حق پر سمجھتا ہے لیکن عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ اس کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ(النساء:۶۶) جب تک یہ لوگ کامل طور پر تیرے فیصلوں کو نہ مان لیں یہ مومن ہو ہی نہیں سکتے جب لوگوں کو عدالتوں کے فیصلوں کو ماننا پڑتا ہے تو خدا کی طرف سے مقرر شدہ خلفاء کے فیصلوں کا انکار کیوں۔ اگر دنیاوی عدالتیں سزا دے سکتی ہیں تو کیا خدا نہیں دے سکتا خدا کی طرف سے فیصلہ کر نیوالے کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ مگر وہ نظر نہیں آتی اس کی کاٹ ایسی ہے کہ دور تک صفایا کر دیتی ہے۔ دنیاوی حکومتوں کا تعلق صرف یہاں تک ہے مگر خدا وہ ہے جس کا آخرت میں بھی تعلق ہے۔ خدا کی سزا گو نظرنہ آوے مگر حقیقت میں بہت سخت ہے۔ اپنی تحریروں اور تقریروں کو قابو میں لاؤ اگر تم خدا کی قائم کی ہوئی
خلافت پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو خدا تمہیں بغیر سزا کے نہیں چھوڑے گا جہاں تمہاری نظر بھی نہیں جا سکتی ۔
وہاں خدا کا ہاتھ پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تمہیں فہم دے اپنے آپ کو اور اس شخص کے درجہ کو جوتمہارے لئے کھڑا کیا گیا ہے پہچانو۔ کسی شخص کی عزت اس شخص کے لحاظ سے نہیں ہوا کرتی۔ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی عظمت اس لئے نہیں کہ آپ عرب کے باشندہ تھے اور عبداللہ کے بیٹے تھے بلکہ اس درجہ کے لحاظ سے ہے جو خدا نے آپؐ کو دیا تھا۔
اسی طرح میں ایک انسان ہوں اور کوئی چیز نہیں مگر خدا نے جس مقام پر مجھ کو کھڑا کیا ہے۔ اگر تم ایسی باتوں سے نہیں رکو گے تو خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بعض باتیں معمولی ہوتی ہیں مگر خدا کے نزدیک بڑی ہوتی ہیں۔ خدا تم کو سمجھ دے۔ آمین
(الفضل ۷؍جولائی ۱۹۱۷ء)