امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ آسٹریلیا کی (آن لائن) ملاقات
ایک، دو، چار، دس آدمیوں کے تعارف سے تو دنیا فتح نہیں ہو جانی۔اس کے لیے بہت زیادہ کام کرنے پڑنے ہیں اور انصار اللہ کیونکہ زیادہmature ہوتے ہیں اس لیے ان کو زیادہ اچھی پلاننگ کر کے اپنے کام کرنے چاہئیں
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۷؍مئی۲۰۲۳ء کو نیشنل عاملہ مجلس انصاراللہ آسٹریلیا کی آن لائن ملاقات ہوئی۔حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ ممبران مجلس عاملہ نے مسجد بیت الہدیٰ سڈنی کے خلافت ہال سے آن لائن شرکت کی۔
حضور انور نےپروگرام کا آغاز دعا سے کروایا۔جس کے بعد حضور انور نے مجلس عاملہ کے ممبران سے تعارف حاصل کیا اور ان کے شعبہ جات کے حوالے سے ان کی راہنمائی فرمائی۔
آسٹریلیا اور یوکے میں مختلف اوقات ہونے کی وجہ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیانیند تو نہیں آرہی؟ اس پر صدر صاحب انصار اللہ نے عرض کی کہ نیند نہیں آرہی اور سب اپنے آپ کو چست محسوس کررہے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ماشاء اللہ۔
٭…قائد صاحب عمومی نے اپنے تعارف میں عرض کیا کہ ان کا تعلق فجی سے ہے لیکن انہوں نے آسٹریلیا میں پرورش پائی ہے۔موصوف کو اردو میں بات کرتا دیکھتے حضور انور نے فرمایا کہ آپ نے آسٹریلیا میں جوانی گزاری ہےاس لیے آپ کی اردو اتنی اچھی ہے۔اس پر موصوف نے عرض کی کہ آسٹریلیا آنے کے بعدبھی انہوں نے اردو سیکھنی جاری رکھی ہے۔
حضور انور کے دریافت کرنے پر کہ آسڑیلیا میں کُل کتنی مجالس ہیں موصوف نے عرض کی کہ کُل ۳۳؍مجالس ہیں۔
حضور انور نے موصوف سے استفسار فرمایا کہ کیا وہ ان مجالس کی طرف سے موصولہ رپورٹس پر تبصرہ کرکے واپس بھیجتے ہیں جس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ماشاء اللہ۔
٭…نائب صدر صف دوم نے حضور انور کے استفسار کرنے پر بتایا کہ تجنید کے مطابق۵۹۳؍انصار صف دوم میں شامل ہیں۔
موصوف نے گذشتہ آن لائن ملاقات کے حوالے عرض کیا کہ حضور انور نے بطور خاص سائیکلنگ کی جانب توجہ دلائی تھی۔چنانچہ نیو ساؤتھ ویلز اوراسی طرح دیگر تمام سٹیٹس نے اس حوالے سے سائیکلنگ کے پروگرامز کا انعقاد کیاہے۔
اس پر حضور انور نے دریافت فرمایا کہ نیو ساؤتھ ویلز میں کہاں گئے تھے اور کیا روٹ تھا؟اس پرموصوف نے عرض کیا کہ ہم نے یہاں مسجد سے آغاز کیا تھا اور دس سے پندرہ کلو میٹرکا راستہ تھا۔انصار جتنا سفر کرسکتے تھے انہوں نے کیا۔
اس پر حضورانور نے فرمایاکہ انصار تو اس سے زیادہ سفر کر سکتے ہیں۔ابھی یوکے کے انصارسپین کا سفر کر کے آئے ہیں وہاں انہوں نے تبلیغی لٹریچر بھی تقسیم کیا اور سفر بھی کیا۔ لوکل عیسائی سائیکلسٹ آرگنائزیشن کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور انہوں نے تقریباً دو سوکلو میٹر کا سفر کیا جس میں پہاڑی اور پلین علاقہ بھی تھا۔انصار توسفر کر سکتے ہیں آپ صرف ان کو under estimateکر رہے ہیں۔آپ کے تو یہاں آسٹریلیا میں بہت سارے علاقوں میں تقریباً سارا حصہ تو پلین ہی ہے، پہاڑی علاقہ تو بہت کم ہے۔جو پہاڑی علاقہ ہےوہاں تھوڑا سفر کر لیا جو پلین علاقہ ہے اس میں زیادہ سفر ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ لوکل سائیکلنگ کلب کے ساتھ بھی رابطے کریں، ان کے ساتھ بھی مل کے پروگرام بنائیں گے تو زیادہ چیریٹی بھی اکٹھی ہو جائے گی اور تبلیغ بھی ہو جائے گی ۔اس کے بعد peaceپہ لٹریچر بھی تقسیم کریں اور آپ نے جو vestپہنی ہو اس کے اوپر Love for All Hatred for Noneاور Peace and Harmonyلکھا ہو، پیچھے ورلڈ وار کے خلاف لکھا جا سکتا ہے، help the poorبھی لکھا جاسکتا ہے، اسی طرح بہت ساری چیزیں ہیں۔ یہاں کے لوگوں سے واقفیت بھی پیدا کریں، اس سے یہ ہوگا کہ آپ لوگوں کی واقفیت بھی بڑھے گی، لوکل سائیکلنگ کلب سے بھی واقفیت پیدا ہو گی اور ان کی وجہ سے پھر آپ کا لوکل لوگوں میں زیادہ exposure ہو گا ، اس کی وجہ سے غیر بھی آپ کی چیریٹی میں حصہ ڈالنے والے ہوں گے اور پھر ساتھ ساتھ brochuresرکھیں اس کے ذریعہ تبلیغ بھی کرتے جائیں۔ تو بہت سارے کام ہیں جو سائیکلسٹ کر سکتے ہیں۔
٭…قائد تعلیم سے حضور انور نے تعارف حاصل کیا۔ اس کے بعد موصوف نے عرض کی کہ امسال انہوں نے انصار کے لیے مختلف تعلیمی مقابلہ جات کا انعقاد کیا ہے نیز ایک نصاب مقرر کیا ہے جس میں قرآن کریم ، احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب شامل ہیں۔
حضور انورکے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ کتنے انصار باقاعدگی سے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں نیز یہ کہ امسال نصاب میں حضورؑ کی تین کتب لیکچر لدھیانہ، لیکچر سیالکوٹ اور لیکچر لاہورشامل ہیں۔
٭…دوران ملاقات حضور انور ایدہ الله نے قائد تربیت سے گفتگو کے دوران مجلس انصار الله کے ممبران کو اپنی پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی کی اہمیت کے متعلق تلقین کرتے ہوئے فرمایاکہ لوگوں کوتوجہ دلانے کے لیے کہ نماز کی اہمیت کیا ہے آدھے صفحہ کے چھوٹے چھوٹے اقتباس نکال کے میسج کر دیا کریں یا ویسے پرنٹ کر کے بھیج دیا کریں۔
انصار کو اس عمر میں تو خاص طور پہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس عمر کے بعد تو اور کوئی موقع نہیں،بس اگلا جہان ہی ہے۔ اس لیے اس طرف توجہ دلاتے رہا کریں کہ نمازیں پڑھو اور نمازوں کی طرف توجہ دو اور اللہ سے تعلق پیدا کرو۔قرآن کریم پڑھنے کی طرف بھی توجہ دلائیں اور اسی طرح دینی علم بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلائیں کہ کچھ علم حاصل ہو گا تو تربیت بھی ہو گی ۔
حضور انور نے مزید توجہ دلائی کہ انصار کو حضور انور کے خطبات جمعہ سننے کی طرف توجہ دلائی جائے اور استفسار فرمایا کہ کتنے انصارباقاعدگی سے خطبہ جمعہ سنتے ہیں جس پر قائد صاحب تربیت نے معین تعداد بتائی۔
٭…معاون صدر برائے وصایا نے عرض کی کہ انہیں صدر صاحب کی طرف سے یہ ٹارگٹ ملا کہ سو فیصد عاملہ ممبران نظام وصیت میں شامل ہوں۔ حضور انورنے دریافت فرمایا کہ اس وقت تک کتنے موصیان ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کی کہ اسّی فیصد موصیان ہیں۔ یہ سن کر حضور انور نے ماشاء اللہ فرمایا۔
٭…حضور انور نے قائد تبلیغ سے دریافت فرمایا کہ کتنے لوگوں کو تبلیغ کی گئی؟اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ہم نے امسال داعیان خصوصی کا گروپ بنایا ہے جس میں تقریباً ۷۲؍ممبران شامل ہیںجن کے ذریعہ سے ہم تبلیغ کر رہے ہیں۔
حضور انور نے استفسار فرمایا کہ عاملہ کے ممبران میں سے کتنے داعیان الی اللہ میں شامل ہیں؟اس پر موصوف نے عرض کی کہ ان کے علاوہ کوئی نہیں ۔
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ صدر صاحب کو شامل کریں۔اس میں کم از کم پچیس فیصد عاملہ ممبران تو داعیان الی الله ہونے چاہئیں۔ دوسروں کو اس حوالے سے کس طرح نصیحت کریں گے۔ قائد تربیت، قائد تعلیم یہ شعبے خاص طور پر اس کے علاوہ صدر صاحب، نائب صدر صاحب، معاون صدران، یہ سب داعیان بن سکتے ہیں،ان کے پاس اَور توکوئی کام ہوتا نہیں۔ کچھ نہیں تو ہاتھ میں چھوٹا سا پمفلٹ پکڑ کے نکل جایا کریں اور تقسیم کر کے آ جایا کریں۔ ویک اینڈ پہ ایک گھنٹہ بھی دیں تو کچھ نہ کچھ لوگوں کو تعارف تو پہنچا دیں گےکہ اسلام کیا کہتا اور اس کی کیا تعلیم ہے۔ ضروری تو نہیں کہ تبلیغ صرف یہی ہے کہ بڑے بڑے مسائل بیان کرنے ہیں۔ صرف یہ بتا دیں کہ اسلام کی کیا خوبیاں ہیں۔اسلام کے بارے میں جو غلط تصور پیدا ہو گیا ہے اس کو دُور کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے brochure بنا کے تقسیم کرتے رہا کریں۔ایک تبلیغ کا رستہ کھلتا ہے پھر اس سے رابطے بڑھتے ہیں، اس طرح اگر کریں تو آپ کے تو ساٹھ ستر فیصد داعیان بن سکتے ہیں، ہاں جو خاص تبلیغ کرنے والے ہیں وہ علیحدہ ہیں۔
آسٹریلیا میں آپ کو کوئی جانتا ہی نہیں۔ابھی تو ایک فیصد آسٹریلین لوگ بھی نہیں جانتے کہ جماعت احمدیہ کیا ہے۔عام مسلمانوں کا تصور قائم ہو کر آپ لوگوں کو اکثر مسجدوں میں پتھر ہی پڑتے رہتے ہیں ۔کبھی کسی مسجد میں حملہ ہو گیا، کبھی کسی مسجد میں ہمسائے ناراض ہو گئے،کہیں کونسلر ناراض ہو گئے، کہیں میئر ناراض ہو گیا، کہیں politicians ناراض ہو گئے ، کہیں کوئی ناراض ہو گیا۔ اگر صحیح تعارف ہو تو کم از کم جو ارد گرد کا ماحول ہے، آپ کی مساجدکا ماحول، اس میں کوئی نہ کوئی تعارف تو اچھا ہو۔ہمسایوں کی طرف سے تو آپ محفوظ ہوں گے۔یہ تونہیں کہ پاکستان والے حالات ہوں کہ ہر وقت خطرہ ہی رہے کہ کس وقت مولوی یہاں آ کے حملہ کر دے۔ آپ کے ہاں یہ ہے کہ کس وقت کوئی شرارتی اٹھ کے حملہ کر دے۔ ساری تنظیموں کو اکٹھے مل کے کام کرنا ہو گا تا کہ جماعت کا تعارف بڑھے اور تعارف اس لحاظ سے بڑھے کہ جماعت ایک پُرامن جماعت ہے اور ہم محبت اور پیار کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس کے بعد پھر اگلی بات آئے گی کہ اسلام کی سچائی کے کیا ثبوت ہیں،اسلام سچا مذہب ہے اور مسیح موعود کی آمد ہوئی کہ نہیں۔ یہ بعد کے مسائل ہیں۔پہلے اپنا تعارف تو کروائیں کہ آپ کون ہیں۔
قائد صاحب تبلیغ کے عرض کرنے پر کہ یہاں ہمسایوں کو بلا کر سوال و جواب کی نشست منعقد کی جاتی ہے حضور انور نے فرمایاکہ دس، بیس، پچیس ہمسائے آ جاتے ہیں۔آپ کوتو مختلف مساجد کے ذریعہ ایک ایک علاقہ میں ہر ہفتے چارسو بندوں کو تعارف کروانا چاہیے۔اورہر دفعہ مختلف جگہوں پہ تعارف ہونا چاہیے۔ایک ہی جگہ پمفلٹ نہ تقسیم کرتے رہیںیا تعارف کرواتے رہیں۔پھر بازاروں میں کھڑے ہو کر بھی لٹریچر دیں جس طرح سائیکل سفر والوں کو مَیں نے کہا ہے وہ تقسیم کریں۔اسی طرح شعبہ تبلیغ کے ساتھ اکٹھے پروگرام بنائیں، اگر coordinated پروگرام ہو تو بہت سارے کام ہو سکتے ہیں۔ ایک دن ،ہفتہ یا مہینہ میں کوئی دن بنائیں جہاں سارے آسٹریلیا میں تعارف ہو جائے۔ پھر پریس میں بھی آپ کا کوئی تعارف آ جائے۔پھر شعبہ ایثار کے ساتھ مل کر خدمت خلق کے کام کی اخباروں میں پبلسٹی کریں۔اس لیے نہیں کہ ہم نے کام کیا، اس لیے کہ جماعت کا تعارف ہو جائے۔ تو اس طرح قائدین آپس میں مل کے بھی پروگرام بنا سکتے ہیں اس طرح زیادہ سے زیادہ انصار کیinvolvement ہو گی ۔
باقی جو بیعتیں ہونی ہیں وہ تو ان شاء اللہ جب وقت آئے گا ہو ہی جائیں گی۔لیکن پہلے آپ spadeworkتو کریں ، زمین تو لیول (level)کریں، گراؤنڈ ورک تو کریں تاکہ ہر جگہ تعارف ہو جائے۔تقریباً پچاس، ساٹھ فیصد آبادی آسٹریلیا کی جاننے والی ہو کہ جماعت احمدیہ کیا چیزہے۔اخباروں، پمفلٹ ، بروشرز اور مختلف اَور ذرائع سے نئے نئے طریقےexploreکریں۔ صرف پرانے طریقوں پہ نہ چلتے رہیں کہ ہم نے ایک سیمینار کیا اس میں بیس آدمی آگئے، پچاس آدمی آ گئے یا سو آدمی آ گئے ان کو کھانا کھلا دیا اسی پہ خوش ہو گئے۔ آپ کی ، مبلغ، امیر صاحب یا صدر خدام الاحمدیہ کی رپورٹ آ جاتی ہے کہ فلاں میئر آ گیا، فلاں politicianآیا ، اس نے ہماری بڑی تعریف کر دی۔ایک، دو، چار، دس آدمیوں کے تعارف سے تو دنیا فتح نہیں ہو جانی۔اس کے لیے بہت زیادہ کام کرنے پڑنے ہیں اور انصار اللہ کیونکہ زیادہmature ہوتے ہیں اس لیے ان کو زیادہ اچھی پلاننگ کر کے اپنے کام کرنے چاہئیں۔ ایسے پروگرام بنائیں جو پہلے کبھی نہ ہوئے ہوں۔
٭…قائد اشاعت نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ مجلس انصار اللہ کے زیر اہتمام ایک سہ ماہی رسالہ ’’الزُّجَاجَۃ‘‘کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ اس پر حضور انور نے اس رسالہ کی وجہ تسمیہ دریافت کی جس پر قائد صاحب اشاعت نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس رسالہ کے آئندہ شمارے کا ایڈیٹوریل سیکشن ’’الزُّجَاجَۃ‘‘کی تاریخ پر مشتمل ہونا چاہیے۔
٭…قائد ایثار کو حضور انور ایدہ الله نے ہدایت فرمائی کہ اگر تبلیغ والوں کے ساتھ coordinateکریں تو بہت سارے کام ہو سکتے ہیں۔ tree plantationکریں اور وسیع پیمانہ پر اس کی پبلسٹی کیا کریں۔جہاں آگیں لگتی ہیں وہاں ان علاقوں میں اگر گورنمنٹ کی سکیم ہے تو اس میں اپنا حصہ ڈالیں اور پھر لوکل اخبار میں دیں تا کہ لوکل لوگوں کو پتہ لگے کہ آپ کون لوگ ہیں۔ پھر وہاں صرف یہ نہیں کہ ایک واقعہ ہو گیا تو پندرہ، بیس، تیس یا چالیس خدام ہیومینٹی فرسٹ کی ٹی شرٹیں پہن کے چلے گئے اور سمجھ لیا کہ ہم نے بہت کام کر لیا ہے۔اس کو بھی دو سال ہو گئے ہیں۔کووڈ سے پہلے ہی وہ کام ہوتے تھے۔اس کے بعد تین سال سے تو وہ بھی نہیں ہوئے۔تو ان چیزوں پہ توجہ کریں اور ایسے پروگرام بنائیں جس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پتہ لگے کہ جماعت احمدیہ اور اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ پہلے یہ تعارف ہو جائے کہ اسلام کیا ہے، اس کی تعلیم کیا ہے۔امن ہے ، محبت ہے، پیار ہے، تو اس کے بعد پھر باقی تعارف بھی ہوتا جائے گا ۔ ہر ایک یہ نہ سمجھے کہ آپ کاصرف اتنا کام ہے کہ چار درخت لگا دیے۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس کے پیچھے مقصد کیا ہے۔ہر قائد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر ایک قائد کی جو ذمہ داریاں ہیں اس کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا زیادہ سے زیادہ تعارف کروانا، اسلام کا تعارف کروانا اور اسلام کی صحیح تعلیم سے لوگوں کو آگاہی دینا۔اس لیے جب چیریٹی اکٹھی کرتے ہیں تو لوکل چیریٹیز کو بھی دیں۔
قائد صاحب ایثار نے عرض کی کہ امسال ہم چیریٹی آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر کے چیریٹی واکس منعقد کروانے پر توجہ دے رہے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کم از کم اتنا تو اکٹھا کریں کہ ایک دو چیریٹیز کو پانچ پانچ ہزار ڈالر دیں تا کہ آپ کا نام آئے کہ آپ لوگ مسلمان ہو کر اپنے علاقے کی کمیونٹی کی مدد کرتے ہیں ۔
دوران ملاقات حضور انور نے مختلف علاقوں کے ناظمینِ اعلیٰ سے تعارف حاصل کیا اور ان کے علاقوں کے حوالے سے مختلف امور دریافت فرمائے۔
٭…ناظم اعلیٰ Marsden Park ریجن سے گفتگو کرتے ہوئے حضور انور نے چندہ تحریک جدید اور وقف جدید کے حوالے سے ان کی کارکردگی پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
٭…Blacktownریجن Sydneyکے ناظم اعلیٰ سے حضور انور نے ان کے ریجن کی وجہ تسمیہ دریافت فرمائی جس پر موصوف نے لا علمی کا اظہار کیا۔
٭…Penrith ریجن کے ناظم اعلیٰ جو حافظ قرآن بھی ہیں سے حضور انور نے ان کی حفظ کی دہرائی کے حوالے سے استفسار فرمایا جس پر موصوف نے عرض کی کہ وہ دہرائی جاری رکھ رہے ہیں اور امسال رمضان میں انہیں نماز تراویح پڑھانے کا موقع بھی ملا۔
٭…نائب قائد عمومی محمود احمد عباسی صاحب کو دیکھ کر حضور انور نے فرمایا کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ اس پر موصوف نے اپنے پڑھاپے کی وجہ انصار اللہ میں ہونا قرار دی۔ اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کیا انصار اللہ میں آکر انسان بوڑھا ہو جاتا ہے؟انسان کو ہمیشہ اپنی روح جوان رکھنی چاہیے۔
٭…قائد صاحب تحریک جدید نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ آسڑیلیا جماعت کے کُل چندہ تحریک جدید میں انصار اللہ کی ۳۹؍فیصدادائیگی ہے۔ اس پر حضور انور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
٭…قائد تعلیم القرآن و وقف عارضی کو حضور انور ایدہ الله نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایاکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنی عاملہ کے ممبران کو کہیں کہ سال میں کم از کم دو ہفتے وقف عارضی کیا کریں۔پھر آپ اپنے ناظمین اعلیٰ کو کہیں وہ وقف عارضی کریں۔پھر زعماء کو کہیں وقف عارضی کریں ۔اس طرح وقف عارضی کا ٹارگٹ پچاس فیصد تک پوراہو جائے گا۔اگر یہ کر لیں گے تو سمجھیں کہ آپ نے بہت بڑا کام کر لیا ہے۔ان کو دیکھ کر باقی انصار ممبران خود ہی شامل ہو جائیں گے۔
٭…قائد وقف جدید سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ جماعت آسڑیلیا کے کُل چندہ وقف جدید میں انصار اللہ کا کتنا حصہ ہے۔ اس پر موصوف نے عرض کہ کہ ۳۵.۷؍ فیصد ہے۔ معین figureبتانے پر حضور انور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
٭…قائد صحت جسمانی و ذہانت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ خود بھی کوئی گیم کرتے ہیں یا صرف قیادت ہی کرتے ہیں؟
اس پر موصوف نے عرض کی کہ مَیں بہت گیمز کرتا ہوں، بیڈ منٹن ریگولر کھیلتا ہوں۔ہال میں پیچھے ہم نے کورٹ لگائے ہوئے ہیں۔
حضور انور کے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ جس ہال میں بیٹھے ہوئے ہیں اسی میں کھیلتے ہیں اور اسے گیم سینٹر بنایا ہوا ہے۔بیڈمنٹن اورٹیبل ٹینس ہوتی ہے۔ پندرہ سے بیس انصار باقاعدگی سےآتے ہیں۔ہفتے میں دو دن ہماری انصار اللہ کی گیم ہوتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ماشاء اللہ کھیلا کریں، باقیوں کی بھی صحت اچھی کروائیں۔
٭…قائد تربیت نو مبائعین سے بات کرتے ہوئے حضور انور ایدہ الله نے نصیحت فرمائی کہ اچھی طرح تسلی کرنی چاہیے کہ نومبائعین اچھی طرح مل جل گئے ہیں، ان کو اپنے ساتھ attachکریں اور ان کے ساتھ interactionزیادہ ہونا چاہیے کیونکہ ان کو یہی شکوہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے لوگ بیٹھ کے باتیں کرتے رہتے ہیں۔آپ مجھے فجین لگ رہے ہیں۔ آپ کو پھرزیادہ interactکرنا چاہیے، یہ نہ ہو کہ پاکستانی بیٹھ کے اپنی گپیں مارتے رہیں اور ان کو کوئی نہ پوچھے۔ان کو اپنے سسٹم میں absorbکرنے کے لیے ان کو ساتھ ملانا ہو گا۔
حضور انور ایدہ الله نے صدر صاحب مجلس انصار اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ وقت ختم ہو گیا ہے بلکہ پانچ منٹ اوپر ہو گئے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال تھا بھی تو جو سوالوں کے جواب مَیں دے چکا ہوںانہی باتوں پہ عمل کر لیں تو وہی آپ کے لیے کافی ہیں۔
ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ اچھا اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
(مرتبہ: قمر احمد ظفر نمائندہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جرمنی)