ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات۔ حصہ دوم)
مسجد محمود مالمو (Malmo) میں آمد
۱۰؍ مئی ۲۰۱۶ء کو حضورِانور کی سویڈن تشریف آوری ہوئی جس سے قبل حضور نے چھ روز ڈنمارک کا نہایت بابرکت دورہ فرما یاتھا۔ حضورِانور کی مالمو میں نئی تعمیر شدہ خوبصورت مسجد محمود میں آمد ہوئی۔
کئی انٹرویوز کا انعقاد
اگلے روز۱۱؍ مئی۲۰۱۶ء کو مقامی جماعت نے حضورِانور کے چار میڈیا انٹرویوز کے انعقاد کا پروگرام رکھا تھا۔یوں تقریباً دو گھنٹے تک مستقل حضورِانور نے بالترتیب سویڈش نیشنل ٹی وی، the Skanska Dagbladet newspaper، the Sydsvenskan newspaperاور سویڈش نیشنل ریڈیو کے نمائندگان کو انٹرویو دیا۔
حضورِانور کا حوصلہ
انٹرویوز کا یہ سلسلہ بغیر وقفے کے ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ تک جاری رہا۔ دفتر میں بہت زیادہ گرمی تھی اور یوں کچھ ہی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے پسینہ آ رہا ہے اور سر میں درد بھی ہے۔مجھے خیال آیا کہ اگر میری یہ حالت ہے تو حضورِانور کے لیے تو اَور بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال ہو گی کیونکہ آپ بغیر کسی تعطل کے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات عنایت فرما رہے ہیں۔ چنانچہ انٹرویو کے ختم ہونے پر میں حضورِانور کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو پانی کا گلاس پیش کیا جس میں سے آپ نے چند گھونٹ نوش فرمائے۔
باوجود گرمی اور یکے بعد دیگرے چار انٹرویوز ہونے کے حضورِانور نے کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف یا تھکاوٹ کا اظہار نہ فرمایا جبکہ ہم میں سے اکثر کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ مثال کے طور پر مکرم عبدالماجد طاہرصاحب نے مجھے بتایا کہ ایک گھنٹے کے بعد وہ تھک گئے تھے اور کمرے میں گرمی کی وجہ سے توجہ برقرار نہیں رکھ پا رہے تھے۔
آخری انٹرویو کے ختم ہونے پر حضورِانور نے محترم امیر صاحب کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ اتنا زیادہ بولنے کےبعد اب میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔
بعد ازاں ماجد صاحب اور خاکسار نے مقامی جماعت کو سمجھایا کہ بہتر تھا کہ اس صبح صرف دو انٹرویوز رکھے جاتے اور باقی دو انٹرویوز کسی اَور دن رکھ لیے جاتے۔ اگر مجھے پہلے سے پروگرام کے متعلق علم ہوتا تو میں ضرور مقامی جماعت کو اس کے حوالے سے مشورہ دیتا۔بعد ازاں خاکسار نے حضورِانور سے عرض کیا کہ ہم نے انتظامیہ کو بتایا ہے کہ بہتر تھا کہ یہ انٹرویوز دو الگ الگ وقت میں رکھ لیے جاتے جس سے حضورِانور نے اتفاق فرمایا۔
مخلص سٹاف ممبران
ایک چیز جو خاکسار نے حالیہ اور سابقہ دورہ جات کے دوران مشاہدہ کی ہے وہ حضورِانور کے سیکیورٹی سٹاف کی سادگی ہے۔خاص طور پر سیکیورٹی سٹاف میں سے بڑی عمر کے ممبران کی شخصیت میں یہ خصوصیت موجود تھی۔اس کی وجہ اتنی حیران کُن نہیں کیونکہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت پر مامور ہیں اور ان کے تربیت یافتہ ہیں۔
اس دورہ کے دوران بھی میں نے ایسی سادگی کی کئی مثالیں دیکھیں۔ مثال کے طور پر مالمو میں اس عمارت میں جہاں سیکیورٹی سٹاف رہائش پذیر تھا چوبیس گھنٹےسے زیادہ وقت تک گرم پانی کا کوئی انتظام نہ تھا۔تاہم انہوں نے کوئی شکایت نہ کی بلکہ ان میں سے چند نے مجھے کہا کہ ہم یہاں ڈیوٹی پر مامور ہیں اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گرم پانی میسر ہے یا نہیں۔ مالمو میں پہلی رات میں نے دیکھا کہ ناصر سعید صاحب جو اَب کافی بزرگ ہو چکے ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور سے خدمت بجالا رہے ہیں، ان کی طبیعت کافی ناساز تھی۔ انہیں بخار تھا اور بہت زیادہ پسینہ آ رہا تھا۔ ان کی عمر اور ماضی میں صحت کی خرابی کے مسائل کے باعث مجھے ان کی فکر ہو رہی تھی۔
بہرحال پندرہ منٹ کے بعد جب میں مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے گیا تو میں نے دیکھا کہ ناصر صاحب وہاں موجود تھے اور حسبِ معمول سیکیورٹی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ان کی طبیعت اب بھی بہت ناساز تھی تاہم اپنی ڈیوٹی کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے اپنی صحت کی کوئی پروا نہ کی۔
دوسری طرف اگر حضورِانور کے علم میں یہ بات آ جائے کہ آپ کے سٹاف ممبران میں سے کسی کی طبیعت ناساز ہے تو ہمیشہ انہیں آرام کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں اور ان کے لیے دوا بھی تجویز فرماتے ہیں۔ مالمو میں بھی ایک دن میں نے ایک طویل القامت دوست کو مسجد میں لیٹے ہوئے دیکھا۔ میں دیکھنے کے لیے گیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک ہےاور جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ مکرم سخاوت باجوہ صاحب آرام فرما رہے ہیں۔یہ سیکیورٹی سٹاف کی سادگی کی ایک اور مثال تھی کہ جہاں بھی انہیں چند منٹ کے لیے آرام کا موقع ملا آرام کر لیتے تاکہ وہ ڈیوٹی کے لیے دوبارہ تازہ دم ہو جائیں۔ ان بزرگوں کے نمونےدیکھنے کے بعد میں امید اور دعا کرتا ہوں کہ ان کی سادگی اور عاجزی سے سبق حاصل کر سکوں۔
چند قیمتی لمحات
اس دن حضورِانور نے خاکسار کو چند منٹ کے لیے اپنے دفتر میں بلایا۔ نہایت شفقت سے حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ خاکسار کے دونوں بچے ماہد اور مشاہد کیسے ہیں،خاص طور پر حضورنے دریافت فرمایا کہ ماہد کا نرسری سکول کیسا چل رہا ہے۔ اس قدر مصروفیت کے باوجود دورہ کے دوران حضورِانور کا ان امور کے متعلق استفسار کرنا آپ کی بے انتہا شفقت پر دلالت کرتا ہے۔
حضورِانور خود بھی اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کراپنے گھر والوں کا حال احوال معلوم کرنے کے لیے نیز لندن کی خیر خبر حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت نکال لیتے ہیں۔چنانچہ حضورِانور نے اپنے گھر والوں کے حال احوال کے متعلق مجھے بتایا نیز فرمایا کہ اس دن لندن میں بارش ہو رہی تھی۔
بعد ازاں حضورِانور نے بتایا کہ ڈنمارک کے دورہ کے دوران حضور نے مسجد اور اس ہوٹل کے علاوہ جہاں استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی تھی کسی اَور جگہ کا وزٹ نہیں کیا۔
میں نے عرض کی کہ مجھے نہیں لگتا کہ ڈنمارک میں کچھ دیکھنے کو ہے کیونکہ وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس پر حضورِانور ایدہ اللہ نے میری تصحیح فرمائی کہ ڈنمارک میں کئی تاریخی جگہیں ہیں، خاص طور پر وہ جو Vikingsکے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ تاہم حضورِانور نے یہ بھی فرمایا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہیں اَور تشریف نہیں لے جا سکے ہیں کیونکہ آپ کا مقصد مقامی احمدیوں سے ملاقات کرنا تھا۔
میں نے عرض کیا کہ ڈنمارک میں میری ملاقات ایک احمدی سے ہوئی جنہوں نے بتایا کہ حضورِانور سے ملاقات سے ان کی زندگی میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے اور اب انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ حضورِانور کی خدمت میں باقاعدہ خط لکھ کر اس تعلق کو قائم رکھیں گے۔ حضورِانور نے برجستہ فرمایا کہ انہیں میرا پوسٹل ایڈریس اور فیکس نمبر بھجوا دیں تاکہ پتا ہو کہ مجھے خط کہاں بھجوانا ہے۔
بعد ازاں حضورِانور نے گذشتہ شام Copenhagenمیں دیے جانے والے استقبالیہ کے متعلق گفتگو فرمائی۔ حضورِانور نے بتایا کہ حضور نے معمول سے ہٹ کردھیمی رفتارسے گفتگو فرمائی تھی تاکہ ڈینش لوگوں کو سمجھ آ سکے کیونکہ انگریزی ان کی مادری زبان نہیں ہے۔ حضور نے فرمایا کہ بالعموم حضور کا خطاب چھبیس سے ستائیس منٹ کا ہوتا ہے لیکن دھیمی رفتار سے بولنے کی وجہ سے یہ خطاب تقریباً بتیس منٹ میں مکمل ہوا۔
لوگوں سے خطاب کرنے کے متعلق حضورِانور نے نہایت خوبصورتی سے فرمایا کہ ہمیں ہمیشہ لوگوں سے پیار سے بات کرنی چاہیے۔اگر آپ کو کسی کو کوئی ہدایت دینی ہو یا راہنمائی کرنی ہو تو وہ بھی پیار سے ہونی چاہیے۔قرآن میں اسی بات کا حکم ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ آپ کو کہتے ہیں کہ اگرچہ آپ کے الفاظ strongتھے مگر نہایت نرمی اور محبت کے لہجے سے ادا ہوئے تھے۔ یہ سننے پر میں نے عرض کی کہ میں اس تجزیہ سے بکلّی متفق ہوں کیونکہ حضورِانور اپنی دو ٹوک بات کو ایسے رنگ میں پیش فرماتے ہیں جس سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں یا انہیں تکلیف محسوس نہ ہو۔
میں نے حضورِانور کے گذشتہ روز ہونے والے انٹر ویوز کے بارے میں عرض کی کہ کس طرح ہرصحافی کی توجہ ’’ہاتھ ملانے‘‘پر تھی اور وہ اس کو سب سے بڑی صنفی غیر مساوات خیال کر رہے تھے اور دیگر اہم امور کو پس پشت ڈال رہے تھےمثلاً یہ کہ ایک ہی جیسی ملازمت پر سویڈن اور دیگر ممالک میں عورتوں کو مردوں کے مقابل پر کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ یہ درست ہے۔ اسی لیے میں نے انہیں بتایا کہ دنیا کے بڑے مسائل پر توجہ دیں۔ درحقیقت جب میں نے ایک صحافی کو بتایا کہ انہیں بجائے ان معمولی باتوں کے دنیا میں بھوک اور غربت پر توجہ دینی چاہیے تو اس کا رنگ ہی اڑ گیا۔
حضورِانور نے خاکسار سے رہائش کے متعلق استفسار فرمایا کہ میں کہاں رہ رہا ہوں۔ اس پر میں نے عرض کی کہ ہم ایک قریبی ہوٹل میں رہ رہے ہیں۔ آپ نےفرمایا کہ وہ کتنا دور ہے اور یہ بھی کہ کیا ہم فجر کی نماز میں شامل ہو گئے تھے؟َ میں نے عرض کی کہ ہوٹل دس سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر ہے اور شکر ہے کہ ہم فجر پر شامل ہو گئے تھے۔ ہمیں ہوٹل سے صبح تین بج کر پچاس منٹ پر نکلنا پڑا جس سے ہم بروقت مسجد پہنچ گئے تھے۔
میں نے بتایا کہ سویڈن کے امیر صاحب اور کاشف ورک صاحب( جو ایک نوجوان مبلغ ہیں )نے مجھے بتایا ہے کہ ایک اور صحافی حضورِانور سے جمعہ کو ملنا چاہتے ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے وہ صحافی جمعہ کے بعد ملاقات اور انٹرویو کے لیے آسکتا ہے۔پھر حضورِانور نے فرمایا کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ اور آپ اپنے دفتر سے باہر تشریف لا کر مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور میں آپ کے پیچھے پیچھے مسجد میں داخل ہو گیا۔
(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)