شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے
شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت میں بھی بعض مرد ایسے ہیں جو گھر کے اخراجات مہیا کرنے تو ایک طرف، الٹا بیویوں سے اپنے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے خرچ پورے کرو، حالانکہ بیوی کی کمائی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر بیوی بعض اخراجات پورے کر دیتی ہے تو یہ اس کا مردوں پر احسان ہے۔ تو مردوں کو اس حدیث کے مطابق ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ پانا ہے، اللہ تعالیٰ کے نور کے حقدار بننا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ بچوں کی تربیت کا حق ادا کرنا ہو گا، ان میں دلچسپی لینی ہو گی، ان کو معاشرے کا ایک قابل قدر حصہ بنانا ہو گا۔ اگر نہیں تو پھر ظلم کر رہے ہو گے۔ انصاف والی تو کوئی چیز تمہارے اندر نہیں۔ بعض لوگ یہاں انگلستان، جرمنی اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، معاشرے میں، دوستوں میں بلکہ جماعت کے عہدیداروں کی نظر میں بھی بظاہر بڑے مخلص اور نیک بنے ہوتے ہیں۔ لیکن بیوی بچوں کو پاکستان میں چھوڑا ہوا ہے اور علم ہی نہیں کہ ان بیچاروں کا کس طرح گزارا ہو رہا ہے، یا بعض لوگوں نے یہاں بھی اپنی فیملیوں کو چھوڑا ہوا ہے۔ کچھ علم نہیں ہے کہ وہ فیملیاں کس طرح گزارا کر رہی ہیں۔ جب پوچھو تو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی زبان دراز تھی یا فلاں برائی تھی اور فلاں برائی تھی۔ تو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسے لوگوں کی بات ٹھیک ہے توپھر انصاف اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک وہ تمہاری طرف منسوب ہے اس کی ضروریات پوری کرنا تمہارا کام ہے۔ بچوں کی ضروریات تو ہر صورت میں مرد کا ہی کام ہے کہ پوری کرے۔ بیوی کو سزا دے رہے ہو تو بچوں کو کس چیز کی سزا ہے کہ وہ بھی در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ ایسے مردوں کو خوف خدا کرنا چاہئے۔ احمدی ہونے کے بعدیہ باتیں زیب نہیں دیتیں۔ اور نہ ہی نظام جماعت کے علم میں آنے کے بعد ایسی حرکتیں قابل برداشت ہو سکتی ہیں یہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں بہرحال اس تعلیم پر عمل کرناہو گا جو اسلام نے ہمیں دی اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نکھار کر وضاحت سے ہمارے سامنے پیش کی۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵ مارچ ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۹؍مارچ۲۰۰۴ء)